صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
15. باب بَيَانِ خِصَالٍ مَنِ اتَّصَفَ بِهِنَّ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ:
باب: ان خصلتوں کا بیان جن سے ایمان کی حلاوت حاصل ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 167
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَنْبَأَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: مِنْ أَنْ يَرْجِعَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا.
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا...... (پھر اسی طرح بیان کیا) جیسے سابقہ راویوں نے بیان کیا ہے، البتہ انہوں نے یہ (الفاظ) کہے: ”اس کو پھر سے یہودی یا عیسائی ہو جانے سے (آگ میں ڈالا جانا زیادہ پسند ہو۔)“
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اوپر والی حدیث ہی ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ”یہودی اور عیسائی ہو جانے سے آگ میں ڈالا جا نا زیادہ پسند ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (342)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 167 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 167
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حلاوت ایمانی:
جس طرح انسان شریں اور میٹھی غذاؤں او ر مٹھائیوں سے مٹھاس اور شیرینی محسوص کرتا ہے اور اس ذائقہ ولذت کی بنا پر ان کی طرف شوق ورغبت رکھتا ہے اور اس سے فرحت وانبساط پاتا ہے،
اس طرح ان خوبیوں سے متصف انسان کو دینی امور کی اطاعت وفرمانبرداری سے اسے لذت وفرحت حاصل ہوتی ہے،
ان کی سرا نجام دہی کی طرف رغبت اور شوق ہوتا ہے اور تعمیل حکم کے بعد خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔
(2)
اس حدیث میں تین چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے،
ان تینوں کا مرکز ومرجع اللہ تعالیٰ کی محبت ہے،
کیونکہ محبت کے تمام اسباب وجوہ (جن کا تذکرہ جلد ہوگا)
بدرجہ اتم اللہ تعالیٰ میں جمع ہیں،
اس لیے محبت دراصل اسی سے ہونی چاہیے اور رسول سے محبت اسی کا نمائندہ اور محبوب ہونے کی وجہ سے ہے اور ان سے محبت،
نیک بندوں سے محبت کی بنیادہ ہے،
اسی وجہ سے اسلام محبوب وپسندیدہ ہے،
اور کفر نا پسندیدہ ومکروہ۔
اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی علامت ونشانی ان کی اطاعت وفرمانبردای اور ان کی مخالفت سے نفرت او دوری ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 167