صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
14. باب بَيَانِ تَفَاضُلِ الإِسْلاَمِ وَأَيِّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ:
باب: خصائل اسلام کا بیان اور اس بات کا بیان کہ اسلام میں کون سا کام افضل ہے۔
حدیث نمبر: 161
وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ؟ قَالَ: " مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ ".
عمرو بن حارث نے یزید بن ابی حبیب سے، انہوں نے ابوخیر سے روایت کی اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مسلمانوں میں سے بہتر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ” جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان امن میں ہوں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا مسلمان بہتر ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوط ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (8929)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 161 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 161
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حدیث میں صرف زبان اور ہاتھ سے ایذا رسانی کا ذکر صرف اس لیے فرمایا گیا ہے کہ عام طور پر ایذاؤں کا تعلق ان دو ہی سے ہوتا ہے،
ورنہ اصل مقصد اور مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ لوگوں کو اس سے کسی قسم کی تکلیف یا اذیت نہ پہنچے اس کاتعلق قول سے ہو یا فعل سے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 161
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 6
´مسلمان کے اوصاف`
«. . . وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ» هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ قَالَ: " إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ من لِسَانه وَيَده " . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی سے رہیں اور مہاجر وہ ہے کہ جس نے ان چیزوں کو چھوڑ دیا ہو جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کون سا مسلمان اچھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بچے رہیں۔“ (یعنی ہاتھ سے نہ کسی کو مارے اور نہ زبان سے کسی کی غیبت و چغلی کرے۔ ایسا مسلمان کامل مسلمان ہے۔) . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 6]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 10]،
[صحيح مسلم 161]
فقہ الحدیث
➊ کامل مسلمان کی (ایک) نشانی یہ ہے کہ دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں، وہ انہیں ضرر نہیں پہنچاتا، جب کہ منافق کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں رہتے، وہ ہر وقت مسلمانوں کو ایذا رسانی میں مصروف رہتا ہے۔
➋ کتاب و سنت میں جو احکامات آتے ہیں ان میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، الا یہ کہ تخصیص کی واضح دلیل ہو، لہٰذا اس حدیث میں «المسلم» کے مفہوم میں «المسلمه» (مسلمان عورت) بھی شامل ہے۔
➌ زبان سے محفوظ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو گالی، لعن و طعن، غیبت، چغلی، بہتان، مذاق اڑانا، ذلیل کرنا اور جھوٹے پروپیگنڈے وغیرہ کا نشانہ نہیں بناتا۔ اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مارکٹائی، قتل و غارت، دھکے دینا، مال و جائیداد کی تباہی، باطل تحریروں اور ایذا رسانی کا نشانہ نہیں بناتا۔
تنبیہ: دلائل کے ساتھ اہل باطل پر رد کرنا اس سے مستثنیٰ ہے، بلکہ انتہائی ثواب کا کام ہے۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فكل من لم يناظر أهل الإلحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم، لم يكن أعطى الإسلام حقه»
”پس ہر وہ شخص جو (اپنی استطاعت کے مطابق) ملحدین و مبتدعین سے مناظرہ کر کے انہیں لاجواب نہ کر دے (تو) اس نے اسلام کا (صحیح) حق ادا نہیں کیا۔“ [درء تعارض العقل والنقل، ج 1، ص357]
علمائے حق نے ہر دور میں اہل بدعت پر رد کیا ہے، جس کے دلائل کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ «والحمدلله»
➍ مہاجر کا لفظ ہجرت (جدائی) سے نکلا ہے نفس امارہ اور شیطان سے بچنا، باطنی ہجرت ہے اور فتنوں، بدعتوں، گمراہیوں اور گناہوں سے بچنا ظاہری ہجرت ہے۔
➎ ❀ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والمجاهد من جاهد نفسه فى طاعة الله والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب»
”مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں (خوب) کوشش کرے، اور مہاجر وہ ہے جو غلطیوں اور گناہوں سے دور رہے۔“ [شعب الايمان للبيهقي: 11123، وسنده حسن و اضواء المصابيح: 34، صحيح ابن حبان، موارد الظمآن: 25]
یہ روایت الفاظ کے اختلاف اور کمی بیشی کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
سنن ابن ماجہ [3934]، مسند احمد [21/6، 22]، المستدرک [10/1، 11]، مسند الشہاب للقضاعی [109/1 ح 131]، کشف الاستار [مسند البزار: 1143] اور کتاب الایمان لابن مندۃ [ح 315]
➑ ایک صحیح و حسن روایت میں کچھ الفاظ موجود نہ ہوں اور دوسری صحیح یا حسن روایت میں کچھ الفاظ کا اضافہ موجود ہو، اور یہ اضافہ پہلی روایت کے سراسر خلاف نہ ہو، تو الفاظ کے اضافے والی روایت ضعیف نہیں ہو جاتی، بلکہ ثقہ کی زیادت جب تک ثقہ راویوں کے بخلاف نہ ہو مقبول ہی رہتی ہے، جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔
اس حدیث میں ایمان کے دو اعلیٰ درجوں کا ذکر ہے۔
اس میں مرجیہ وغیرہ کا رد ہے، جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں ہیں اور جن کے نزدیک سب کا ایمان اور اسلام برابر ہوتا ہے، حالانکہ حدیث مذکور اور دیگر دلائل سے صاف ثابت ہے کہ ایمان اور اسلام میں لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔
تنبیہ:
یہ فوائد مرعاۃ المفاتیح وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔
➐ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما وہ مشہور صحابی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لکھ لیتے تھے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ما من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم احد اكثر حديثا عنه مني الا ماكان من عبدالله بن عمرو فانه كان يكتب ولا اكتب»
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثیں آپ سے بیان کرنے والا کوئی نہیں سوائے عبداللہ بن عمرو کے وہ (حدیثیں) لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔“ [صحيح البخاري: 113]
عبداللہ بن عمرو کی لکھی ہوئی کتاب کانام «الصحيفة الصادقة» ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 6
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 10
´ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 10]
� تشریح:
امیر المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگر حاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں، نہ اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔
❀ «جراحات السنان لها التيام ٭ ولايلتام ماجرح اللسان»
”یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھر سکتے۔“
«من سلم المسلمون» کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مسلمانوں کو زبان یا ہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں «من امنه الناس» کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ و اخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی «سلم» ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بد داخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مار پیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ تو عوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جو دارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہر جگہ جاری رہے گی۔
حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دو تعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہر دو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے «عن عامر قال سمعت عبدالله بن عمرو» کے الفاظ نقل کئے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سماع ثابت ہو گیا۔
دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں «عبدالله» کو غیر منتسب ذکر کیا گیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں «عن عبدالله بن عمرو» “ کی صراحت کر دی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو عاص مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 10
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5000
´مسلم کی صفات۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے جیسی نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5000]
اردو حاشہ:
یہ مسلمان کے ظاہری اوصاف ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بعد عبادات میں سے نماز ہی ایسی عبادت ہے جو اسلام کی علامت بن سکتی ہے کیو نکہ روزہ مخفی چیز ہے جبکہ زکاۃ ہر کسی پر فرض نہیں۔ ویسے بھی وہ سال میں ایک دفعہ لاگو ہوتی ہے۔ حج تو ہے ہی زندگی میں ایک بار اور وہ بھی ہر ایک پر فرض نہیں۔ پھر نماز چونکہ تمام ادیان میں موجود ہے، اس لیے مسلمانوں کی نماز کا امتیاز قبلے سے ہوگا کیو نکہ ہر دین کا لگ قبلہ ہوتا ہے۔ عبادات کے بعد معاملات اور معاشرت کا درجہ ہے۔ کفار کےنزدیک حلال وحرام کا کوئی تصور نہیں تھا، نیز ان کے نزدیک ذبیحہ اور میتہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنامسلمان کی خصوصیت ہے، لہذا وہ مسلمان ہے جو اللہ تعالی کے نام پر ذبح شدہ جانور کھائے، خود ذبح کرے یا کوئی اور کرے۔ یہ مسلمانوں کی معاشرتی علامت ہے اور ظاہر ہے۔ باقی علامات مخفی ہیں،اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5000
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2481
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2481]
فوائد ومسائل:
ایک باکردار مسلمان کے اوصاف کو اس حدیث میں جس مختصر اور جامع اندا ز میں پیش کیا گیا ہے۔
وہ یقینا ً الہامی ہیں۔
ہرمسلمان اپنے آپ کو اس آئینے میں جانچ کراندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس درجے کا مسلمان ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2481
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:606
606-امام شعبی بیان کرتے ہیں: ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا میں اس وقت ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لوگوں کی گردنیں پھلا نگتا ہوا آکر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ بولا: آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے، جو آپ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو۔ آپ دو عادل راویوں کے حوالے سے مجھے حدیث نہ سنائیے گا، تو سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بولے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوۓ سنا ہے: ”مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں اور مہاجر وہ شخص ہے، جو برائی سے لا تعلقی اخت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:606]
فائدہ:
اس حدیث میں ہاتھ اور زبان سے دوسروں کو محفوظ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، ان دونوں سے بے شمار گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، اگر ان دونوں اعضاء پر کنٹرول کر لیا جائے تو باقی اعضاء خودبخود کنٹرول ہو جاتے ہیں۔
اکثر ظلم و زیادتی ہاتھ سے ہوتی ہے، اور کتنے ہی گناہ زبان کرتی ہے، اللہ تعالیٰ ان دونوں پر کنڑ ول رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 606
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:10
10. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔“ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور ابو معاویہ نے کہا: ہمیں (یہ) حدیث داؤد نے بیان کی، ان کو عامر (شعبی) نے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے سنا، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اور عبدالاعلیٰ نے داؤد سے بیان کی، انہوں نے عامر (شعبی) سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:10]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے اس بے عملی یا بدعملی کے طوفان کو روکنا چاہتے ہیں جو مرجیہ کے موقف کی وجہ سے لوگوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مرجیہ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے۔
اس کی موجودگی میں اعمال صالحہ کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ مومن صرف تصدیق ہی سے ان بشارتوں کا حقدار بن جاتا ہے جو اس کے لیے قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔
نیز آپ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ نیک عادات اور پاکیزہ خصائل ایسے ہیں جن کے بغیر انسان حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔
حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان میں اسلام کی کوئی شان تو نمایاں ہونی چاہیے، کم از کم مسلمان ہونے کی حیثیت سے سلامت روی اور سلامت جوئی توضرور ہو۔
اگرکسی شخص میں ادعائے اسلام کے باوجود یہ شان موجود نہیں تو اسے یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا۔
2۔
اس حدیث میں زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا حکم ہے کیونکہ ایذا کا تعلق اکثر انھی دو سے ہوتا ہے بصورت دیگر یہ مطلب نہیں کہ پاؤں سے ایذا رسانی جائز ہے، بلکہ مطلق طورپر ایذا رسانی جرم ہے۔
پھر ان دونوں میں زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ نقصان کا تعلق ہاتھ کے مقابلے میں زبان سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف اسے حرکت دینا ہوتی ہے اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔
بعض اوقات ایک ہی کلمے سے پوری قوم یا پوری انسانیت کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ ہاتھ سے صرف اسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جو سامنے موجود ہو، نیز زبان سے سب وشتم پہلے ہوتا ہے اور ہاتھ استعمال کرنے کی نوبت بعد میں آتی ہے۔
3۔
زبان کی برائی سے سب وشتم، غیبت، بدگوئی وغیرہ اور ہاتھ کی بُرائی سے چوری، ڈاکا زنی، لوٹ مار، مارپیٹ وغیرہ مراد ہیں۔
4۔
"المسلمون" کی قید سے ثابت نہیں ہوتا کہ غیرمسلم کو زبان اور ہاتھ سے تکلیف دینا جائز ہے بلکہ مسلمان تو تمام لوگوں کا خیر اندیش ہوتا ہے۔
وہ نسب یا رنگ ونسل یا مذہب کو تلاش نہیں کرتا، اگر کسی کے ساتھ مذہبی یانسلی رشتہ نہیں ہے تو انسانی تعلق ہی مراعات کے لیے کافی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان وہ ہے جس سے تمام لوگ محفوظ ہیں۔
(مسند أحمد: 379/2)
الغرض اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کسی غیر مسلم پر بھی دست درازی نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ بھی انسانی رشتے کی بنا پر رواداری سے پیش آئیں۔
5۔
ہجرت صرف ترک وطن کا نام نہیں بلکہ ان چیزوں کو چھوڑدینے کانام ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
ترک وطن اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کرسکتے کیونکہ جس وطن میں احکام الٰہی کی تعمیل نہ ہو، اسے خیر باد کہنا ہی بہتر ہے۔
گویا ہجرت کی دوقسمیں ہیں:
ظاہری اور باطنی۔
ظاہری ہجرت ترک وطن ہے اور باطنی ہجرت منہیات سے اجتناب ہے۔
اس حدیث کی دواغراض ہیں:
(الف)
مہاجرین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا صرف ہجرت کر لینا کافی نہیں بلکہ ہجرت کے بعد گناہوں سے احتراز کرنا ہی اللہ کی رضا کا باعث ہوگا۔
یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہجرت کے بعد ہمیں کسی عمل خیر کی ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 74/1) (ب)
۔
ان لوگوں کو تسلی دینا مقصود ہے جو کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے کہ اصل ہجرت یہ نہیں بلکہ ہجرت یہ ہے کہ آدمی گناہ اور ہر قسم کی منہیات سے بازرہے، یہ فضیلت تو ہروقت حاصل ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نےفرمایا:
”تیرابھلا ہو ہجرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔
“ پھر آپ نے اس سے پوچھا:
”کیاتیرے پاس اونٹ ہیں اور ان کی زکاۃ دیتا ہے؟“ (اس نے)
عرض کیا:
ہاں۔
آپ نے فرمایا:
”سمندر پاررہتے ہوئے عمل خیر کرتے رہو۔
تجھے وہی اجر ملے گا۔
اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
“ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1452)
6۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے اختتام پر دو تعلیقات بھی ذکر کی ہیں، پہلی تعلیق کا مقصد یہ ہے کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جن کا نام عامرہے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمرو سے براہ راست سنا ہے کیونکہ اس تعلیق میں تصریح سماع ہے جبکہ مذکورہ روایت میں ان کے سماع کی وضاحت نہ تھی۔
ابومعایہ کے اس طریق سے اس شبے کو دور فرمایا ہے۔
دوسری تعلیق میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں عبداللہ نامی راوی سے مراد، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ طبقہ صحابہ میں جب عبداللہ مطلق ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے ہیں جیسا کہ طبقہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں مطلق عبداللہ سے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے مراد ہوتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تنبیہ فرمانے کے لیے دوسری تعلیق کو ذکرکیا ہے۔
7۔
اگر کسی کو اقامت حد کے پیش نظر سزا دی جائے اگرچہ بظاہر یہ ایذا رسانی ہے تو جائز ہوگا کیونکہ اس سے مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ فساد و فواحش اور منکرات کا انسداد مقصود ہے۔
(فتح الباري: 75/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 10
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6484
6484. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے رک جائے جن سے اللہ تعالٰی نے منع کیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6484]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مہاجر کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے تاکہ فتح مکہ کی وجہ سے جو لوگ ہجرت نہیں کر سکے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ مہاجر کامل تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی باتوں اور اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے باز رہے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں ہجرت کرنے والوں کو تنبیہ ہو کہ وہ صرف عمل ہجرت پر بھروسا کر کے نہ بیٹھ جائیں بلکہ انہیں گناہوں سے باز رہنا ہو گا اور شب و روز اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا ہو گی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تمام احادیث سے امت کی تنبیہ کی ہے کہ اگر وہ قیامت کے دن نجات چاہتے ہیں تو انہیں احکام الٰہی کی پیروی کرنی ہو گی اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز رہنا ہو گا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6484