Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
100. بَابُ الْجَهْرِ فِي الْعِشَاءِ:
باب: نماز عشاء میں بلند آواز سے قرآن پڑھنا۔
حدیث نمبر: 766
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ الْعَتَمَةَ، فَقَرَأَ: إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ سورة الانشقاق آية 1، فَسَجَدَ فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ: سَجَدْتُ خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَزَالُ أَسْجُدُ بِهَا حَتَّى أَلْقَاهُ".
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا اپنے باپ سے، انہوں نے بکر بن عبداللہ سے، انہوں نے ابورافع سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی۔ اس میں آپ نے «إذا السماء انشقت‏» پڑھی اور سجدہ (تلاوت) کیا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق معلوم کیا تو بتلایا کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھی (اس آیت میں تلاوت کا) سجدہ کیا ہے اور زندگی بھر میں اس میں سجدہ کروں گا، یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاؤں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 766 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:766  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ میں نے حضرت ابو القاسم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تھی۔
آپ نے یہی سورت تلاوت کی تھی اور اس میں سجدہ کیا تھا۔
(صحیح ابن خزیمة: 282/1، حدیث: 561)
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نماز عشاء میں بآواز بلند قراءت کرنی چاہیے اور نماز میں ایسی سورت بھی پڑھی جاسکتی ہے جس میں سجدۂ تلاوت ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 766   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 138  
´نماز میں سجدۂ تلاوت مستحب ہے`
«. . . 377- وعن عبد الله بن يزيد عن أبى سلمة بن عبد الرحمن أن أبا هريرة قرأ لهم: {إذا السماء انشقت} فسجد فيها، فلما انصرف أخبرهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سجد فيها. . . .»
. . . ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں نماز پڑھائی تو، اور جب آسمان پھٹ جائے گا «إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ» (سورہ انشقاق) کی قرأت کی پھر اس (قرأت کے دوران) میں سجدہ کیا، پھر جب سلام پھیرا تو لوگوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ کیا تھا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 138]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 578، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ نماز میں سجدہ تلاوت آ جائے تو سجدہ کرنا سنت ہے۔
➋ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ ایک دفعہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۃ النجم پڑھی جس میں سجدے والی آیت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ دیکھئے [صحيح بخاري 1072، وصحيح مسلم 577]
➌ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: جو سجدہ کرے تو ٹھیک کیا اور جو سجدہ نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ [صحيح بخاري 1077]
● سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ تلاوت والی آیت پڑھ کر سجدہ نہیں کیا تھا۔ [صحيح بخاري 1077]
➍ حدیث بالا میں نماز سے مراد عشاء کی نماز ہے۔ دیکھئیے [صحيح بخاري 1078]
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لئےعملاً کردار ادا کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 377   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 966  
´ «اذا السماء انشقت» میں سجدہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم نے «إذا السماء انشقت» میں سجدہ کیا، اور جو ان دونوں سے بہتر تھے انہوں نے بھی (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی)۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 966]
966 ۔ اردو حاشیہ: امام مالک رحمہ اللہ اس سجدے کو بھی منسوخ سمجھتے ہیں مگر ان کا موقف مذکورہ روایات کے پیش نظر درست نہیں ہے خصوصاً آخری روایت کیونکہ اس میں خلفائے راشدین ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا عمل بھی ثابت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 966   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 968  
´ «اقرأ باسم ربك» میں سجدہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ «إذا السماء انشقت» اور «اقرأ باسم ربك» میں سجدہ کیا۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 968]
968 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام مالک رحمہ اللہ اس سجدے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ وہ اسے منسوخ سمجھتے ہیں مگر یہ بات نہ صرف بلادلیل ہے بلکہ خلاف سنت ہے۔
➋ امام ننسائی رحمہ نے صرف ان سجدوں کے ابواب باندھے ہیں جن میں اختلاف ہے۔ باقی متفق علیہ سجدوں کا ذکر نہیں کیا، البتہ سورۂ حج کا دوسرا سجدہ بھی باوجود اختلافی ہونے کے ذکر نہیں کیا۔ احناف و موالک اس سجدے کو نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک یہ صلاتی سجدہ (نماز والا سجدہ) ہے۔
➌ قرآن مجید میں کل پندرہ (15) سجدے مذکور ہیں۔ حنابلہ اور اہل حدیث ان سب کے قائل ہیں۔ احناف اور شوافع چودہ سجدوں کے قائل ہیں جب کہ امام مالک کل گیارہ سجدے مانتے ہیں لیکن احادیث سے قرآن پاک میں 15 سجود تلاوت کا ذکر ملتا ہے، لہٰذا قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے 15 مقامات پر سجدہ کرنا مستب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 968   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 969  
´فرض نمازوں میں سجدہ تلاوت کا بیان۔`
ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عشاء یعنی عتمہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ «إذا السماء انشقت» پڑھی، اور اس میں سجدہ کیا، تو میں نے کہا: ابوہریرہ! اسے تو ہم کبھی نہیں کرتے تھے، انہوں نے کہا: اسے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، اور میں آپ کے پیچھے تھا، میں یہ سجدہ برابر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 969]
969 ۔ اردو حاشیہ: ابورافع کا انکار مذکورہ سورت میں سجدے پر ہو سکتا ہے اور مطلقاً نماز میں سجدۂ تلاوت کرنے پر بھی۔ دونوں صورتوں میں اعتراض غلط ہے۔ مذکورہ صورت میں بھی سجدہ ثابت ہے اور نماز میں سجدۂ تلاوت کرنا بھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 969   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1408  
´سورۃ انشقاق اور سورۃ علق میں سجدے کا بیان۔`
ابورافع نفیع الصائغ بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاء پڑھی، آپ نے «إذا السماء انشقت» کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، میں نے کہا: یہ سجدہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے یہ سجدہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (نماز پڑھتے ہوئے) کیا ہے اور میں برابر اسے کرتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ سے جا ملوں۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1408]
1408. اردو حاشیہ: سجدہ تلاوت نماز کے دوران میں بھی کیاجاتا ہے۔نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1408   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1021  
1021- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سورہ انشقاق اور سورہ العلق میں سجدۂ تلاوت کیا ہے۔ سفیان کہتے ہیں: عطاء بن میناء نامی راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے معروف شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1021]
فائدہ:
اس حدیث میں سجدۂ تلاوت کا ذکر ہے، اور سجدۂ تلاوت کرنا مستحب ہے، دیکھیے [صحيح البخاري: 1022، 1027]
، جس طرح قرأت کر نے والا سجدہ کرتا ہے، اسی طرح سننے والا بھی سجدہ کرے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1021   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1301  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ﴿اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ﴾ اور ﴿اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّكَ﴾ میں سجدہ کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1301]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 7 ہجری میں مسلمان ہوئے ہیں اور انہوں نے مفصل سورتوں میں سے دو کے سجدہ کا تذکرہ کیا ہے،
جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان سورتوں میں بھی سجدہ کیا جائےگا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قرآن مجید میں گیارہ سجدے ہیں۔
وہ سُوْرَۃُ ص اور سُوْرَۃُ النَّجْم،
اِنْشِقَاقْ اور اِقْرَأْ میں سجدہ نہیں مانتے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چودہ سجدے ہیں اور وہ بھی سُوْرَۃُ ص کا سجدہ نہیں مانتے اور سُوْرَةُ حَجْ میں دو سجدے مانتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی چودہ سجدے ہیں وہ سُوْرَةُ ص کا سجدہ مانتے ہیں اور سُوْرَةُ حَجْ میں ایک سجدہ سمجھتے ہیں۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک پندرہ سجدے ہیں وہ سب کو تسلیم کرتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1301   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:768  
768. حضرت ابورافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کے ہمراہ نماز عشاء پڑھی تو انہوں نے سورہ ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ ﴿١﴾ ) پڑھی اور اس میں سجدہ کیا۔ میں نے عرض کیا: یہ کون سا سجدہ ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے حضرت ابوالقاسم ﷺ کے پیچھے اس میں سجدہ کیا ہے، اس لیے اب تو میں اس سورت میں سجدہ کرتا رہوں گا تاآنکہ قیامت کے دن میری آپ سے ملاقات ہو جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:768]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا:
اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس سورت میں سجدہ کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی اس میں سجدہ نہ کرتا۔
(صحیح البخاري، سجودالقرآن، حدیث: 1074)
(2)
دراصل مالکیہ کے نزدیک فرائض کی نماز میں ایسی سورت تلاوت کرنا مکروہ ہے جس میں سجدہ ہو، امام بخارى ؒ نے اس موقف کی تردید کرت ہوئے مذکورہ عنوان قائم کرکے یہ حدیث پیش کی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
نماز میں سجدے والی سورت پڑھی جاسکتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 768   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1074  
1074. حضرت ابوسلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ ﴿١﴾ ) کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا۔ میں نے عرض کیا: ابوہریرہ! کیا میں نے آپ کو سجدہ کرتے نہیں دیکھا؟ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا: اگر میں نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی سجدہ نہ کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1074]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اہل مدینہ کا مفصل کی سورتوں میں سجدہ نہ کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا عمل اس کے برعکس ہے، یعنی وہ مفصل کی سورتوں میں سجدہ کرتے تھے۔
مذکورہ روایت کے مطابق ابو سلمہ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ پر اعتراض کیا جبکہ آگے حدیث:
(1078)
میں ہے کہ ابو رافع نے بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے اس کے متعلق دریافت کیا۔
جب حضرت ابو ہریرہ نے حدیث کا حوالہ دیا تو دونوں خاموش ہو گئے اور اس کے خلاف اہل مدینہ کے عمل کا حوالہ نہیں دیا۔
(فتح الباري: 718/2)
واضح رہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ مدینہ طیبہ میں مسلمان ہوئے تھے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مدینہ ہی میں سجدہ کرتے دیکھا تھا۔
علاوہ ازیں مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت عمر اور ابن عمرؓ دونوں باپ بیٹے سے اس سورت میں سجدہ کرنا ثابت ہے۔
(فتح الباري: 718/2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی اہل مدینہ کا عمل حدیث کے مطابق تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1078  
1078. حضرت ابورافع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کے ہمراہ نماز عشاء ادا کی۔ انہوں نے نماز میں ﴿إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ﴾ کی تلاوت کی تو اس میں سجدہ کیا۔ میں نے کہا: یہ سجدہ کیسا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں نے حضرت ابوالقاسم ﷺ کے پیچھے یہ سجدہ کیا تھا، اس لیے میں تو ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا تا آنکہ آپ سے جا ملوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1078]
حدیث حاشیہ:
امام مالک ؒ سے منقول ہے کہ وہ فرض نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس موقف کی تردید کی ہے۔
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اس سورت میں سجدہ کیا۔
ابن خزیمہ کی ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کی تو آپ نے اس سورت میں سجدہ کیا۔
(صحیح ابن خزیمة: 282/2، حدیث: 561)
اس سے معلوم ہوا کہ آیت سجدہ کو فرض نماز میں پڑھا جا سکتا ہے، اور دوران نماز سجدہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
(فتح الباري: 324/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1078