صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
5. باب بَيَانِ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ وَدَعَائِمِهِ الْعِظَامِ
باب: اسلام کے بڑے بڑے ارکان اور ستونوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 111
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ الأَحْمَرَ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسَةٍ، عَلَى أَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ، وَالْحَجِّ "، فَقَالَ رَجُلٌ: الْحَجِّ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ؟ قَالَ: لا صِيَامِ رَمَضَانَ، وَالْحَجِّ، هَكَذَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو خالد سلیمان بن حیان احمر نے ابومالک اشجعی سے، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اللہ کو یکتا قرار دینے، نمازقائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر۔“ ایک شخص نے کہ: حج کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے پر؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں! رمضان کے روزے رکھنے اور حج کرنے پر۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات اسی طرح (اسی ترتیب سے) سنی تھی۔
حضرت ابنِ عمر رضی الله عنه روایت بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی تعمیر پانچ چیزوں سے ہے، اللہ تعالیٰ کو یکتا قرار دیا جائے، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج۔“ ایک شخص نے کہا: حج اور رمضان کے روزے؟ ابنِ عمر (رضی اللہ عنہما) نے کہا: نہیں، رمضان کے روزے اور حج، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (7047)»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 111 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 111
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بُنِيَ:
مجہول کا صیغہ ہے،
بنایا گیا،
تعمیر کیا گیا۔
(2)
يُوَحَّدُ:
مضارع مجہول،
یکتا و منفرد قرار دیا جائے۔
(3)
إِقَامٌ:
مصدر ہے،
اصل میں اقوام تھا،
واو کو حذف کر دیا گیا اس کے عوض میں آخر میں (ۃ)
کا اضافہ کر کے إِقامة کہتے ہیں،
جو یہاں اضافت کی وجہ سے گر گئی ہے،
اس کا معنی بالکل سیدھا کرنا،
کجی اور ٹیڑھ نکال دینا،
کسی کام یا ذمہ داری کو اس طرح ادا کرنا جس طرح اس کا حق ہے۔
فوائد ومسائل:
1۔
اسلام کو ایک خیمےسے تشبیہ دی گئی ہے جس کےپانچ ستون ہوتے ہیں چار ستون یعنی گھونٹیاں چار اطراف میں ہوتے ہیں اور ایک مرکز میں جس پر خیمہ کھڑا ہوتا ہے اور مرکزی ستون ہی اصل اور بنیاد ہوتا ہے جسکے بغیر خیمہ کھڑا نہیں ہو سکتا،
یہ حثیت کلمہ شہات کو حاصل ہے یا اگر اسلام ایک عمارت سے تشبیہ دیں جسکی چاردیواریں اور ایک چھت ہوتی ہے اور چھت کے بغیر مکان بے کار اور بے فائدہ ہوتا ہے،
اسی طرح ارکان اربعہ،
نماز،
زکاۃ،
،
روزہ اور حج کی قبولیت کا انحصار کلمہ شہادت پر ہے،
کسی مسلمان کے لیے اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ان پانچ ارکان کی ادائیگی اور سرانجام دہی میں کسی قسم کی غفلت سستی وکاہلی یا کوتاہی سے کام لے،
کیونکہ یہ اسلام کے بنیادی ستون ہیں اور اسلام کا محسوس پیکر ہیں۔
نیز یہ وہ تقیدی امور ہیں جو بالذات اور ہر حالت میں مطلوب ومقصود ہیں،
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام صرف ان پانچ امور کا نام ہے،
خیمہ میں پانچ ستونوں کے سوا اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں،
اسی طرح عمارت،
صرف چار دیواروں اور چھت کا نام نہیں،
لیکن اصلی اور مرکزی اہمیت انھی کو حاصل ہوتی ہے۔
2۔
الفاظ حدیث میں تقدیم وتاخیر:
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے صوم کا تذکرہ حج سے پہلے کیا،
کیونکہ عملی ارکان کی فرضٰت کی ترتیب یہی ہے،
ایمان کے بعد سب سے پہلے نماز فرض ہوئی،
پھر اجمالی طور پر زکاۃ ہجرت کے دوسرے سال 2 ہجری میں روز ے فرض ہوئے اور 6 ہجری یا صحیح اور مشہور قول کے مطابق 9 ہجری میں حج فرض ہوا،
لیکن یزید بن بشر السکسکی نے حج کا تذکرہ صوم سے پہلے کیا،
اس پر حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما نےاعتراض کیا،
اور بتایا:
نبی اکرم ﷺ نے صوم کا تذکرہ حج سےپہلے کیا تھا،
اس سے معلوم ہوا جہاں تک ممکن ہو حدیث کو اسی طرح بیان کرنا چاہیے جس طرح اس کو سنا ہو،
اس میں تغیر وتبدل کرنا اور حدیث کے الفاظ کی ترتیب بدلنا درست نہیں ہے،
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی اگلی روایت میں حج کا تذکرہ،
صوم سے پہلے کیا گیا ہے،
تو یہ روایت بالمعنی کی بنا پر ہے کیونکہ راوی نے سمجھا واو ترتیب کا تقاضا نہیں کرتی جیسا کہ جمہور فقہاء اور نحاۃ کا نظریہ ہے،
یا اس راوی کو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اعتراض اور تردید کا علم نہیں ہوگا،
اس لیے اس نے ترتیب بدل دی۔
(فتح الباری: 1/71 دارالسلام)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 111
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 4
´اسلام اور ایمان اصلاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں`
«. . . وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ " . . .»
”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر رکھی گئی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ہی سچا معبود ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں ہے اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔“ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 4]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 8]،
[صحيح مسلم 16]
فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان اصلاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کچھ فرق اس طرح سے بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام آدمی کی ظاہری کیفیت اور ایمان باطنی (اعتقادی) کیفیت پر دلالت کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَـكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ» ”اعرابیوں نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے! تم ایمان نہیں لائے، لیکن تم کہو: ہم اسلام لائے، اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔“ [49-الحجرات:14]
➋ تارک الصلوۃ کی تکفیر میں سلف صالحین میں اختلاف ہے، جمہور اس کی تکفیر کے قائل ہیں، نصوص شرعیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح تحقیق یہ ہے کہ جو شخص مطلقاً نماز ترک کر دے، بالکل نہ پڑھے وہ کافر ہے، اور جو شخص کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے تو ایسا شخص کافر نہیں ہے مگر پکا مجرم اور فاسق ہے، اس کا فعل کفریہ ہے، خلفیۃ المسلمین اس پر تعزیر فافذ کر سکتا ہے، اس پر اجماع ہے کہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور حج کا انکار کرنے والا کافر اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 4
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5004
´اسلام کی بنیاد کن چیزوں پر ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا: کیا آپ جہاد نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5004]
اردو حاشہ:
(1) باب کامقصد اسلام کے وہ ستون اور ارکان بیان کرنا ہے جن پر اسلام کی ساری عمارت قائم ہے۔ اور وہ صرف پانچ ہیں: ان میں سے پہلا اور سب سے افضل ستون کلمہ تو حید کی شہادت دینا ہے۔ یہ سب سے افضل اس لیے ہے کہ جب تک کافر اس کی شہادت نہ دے تو وہ کافر ہی رہتاہے،مسلمان نہیں بن سکتا۔ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ شہادت کا اقرار کرے۔ پھر دوسرے نمبر پر نماز ہے۔ یہ ہر امیر وغریب مردوعورت پر فرض ہے۔
(2) جواب کا مفاد یہ ہے کہ جہاد فرائض عینیہ میں شامل نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے جس کی ادائیگی حکومت وقت کا کام ہے۔وہ جتنے افراد کو مناسب سمجھے، اس کام پر لگائے۔جب ضرورت کے مطابق افراد اس کا م پر مامور ہوں اور وہ ملکی دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں تو عوام الناس کے لیے جہاد میں جانا ضروری نہیں۔ وہ اپنے دوسرے کام کریں۔ ہاں! یہ ایک فضیلت ہے۔اگر کوئی شخص اپنے فرائض کی ادایگی کے بعد حکومت وقت اور متعلقہ افراد خانہ کی اجازت ورضامندی سے جہاد میں شرکت کرے تو اسے فضیلت ہو گی۔
(3) یہ پانچ ارکان اسلام ہیں، یعنی فرض عین ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بغیر تو کوئی شخص اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا۔نماز بھی ہر بالغ وعاقل پر تا حیات فرض ہے،اس سے کسی کو مفرنہیں۔ زکاۃ ہر مالدار شخص پر فرض ہے جس کے پاس اس کی ضرورت سے زائد مال ہو۔(تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) حج ہر اس شخص پر فرض ہے جو آسانی کے ساتھ بیت اللہ پہنچ سکتا ہو اوراس کے پاس حج سے واپسی تک کے اخراجات موجود ہوں۔رمضان المبارک کے روزے ہر عاقل وبالغ پر فرض ہیں۔ کوئی عذر ہو تو قضا واجب ہوگی اور اگررکھنے کی نہ ہوتو فدیہ واجب ہو گا۔
(4) رمضان کے روزے کا ذکر آخر میں اس لیے ہے کہ یہ ترکی عبادت ہے (اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا) ورنہ اہمیت کے لحاظ سے اس کا درجہ نماز کے بعد ہے۔ ویسے بھی نماز کی طرح بدنی عبادت ہے۔
(5) تر جمہ میں تو سین والی عبارت اسی حدیث کی دیگر اسانید سے صراحتا مذکورہے۔اس کے بغیر کلمہ شہادت معتبر نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5004
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 112
حضرت ابنِ عمر رضی الله عنه روایت بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”اسلام کی تعمیر پانچ چیزوں پر ہے، اللہ کی بندگی کرنا، اس کے ما سوا کی عبادت سےانکار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:112]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
پہلی روایت میں اللہ تعالیٰ کو یکتا اور منفرد قرار دینا بیان کیا گیا تھا۔
اس روایت میں اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا اور ما سوا اللہ کی عبادت سے انکار کرنا بیان کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ توحید کی تین اقسام ہیں:
(1)
تو حید ربوبیت کہ کائنات کا خالق،
مالک،
مدبر اورو منتظم اور رب،
صرف اللہ ہے۔
(2)
توحید اسماء وصفات کہ وہ اپنے اسماء وصفات میں بے مثل ہے اور اسی کے اسماء وصفات حسنی ہیں۔
(3)
تو حید الوہیت کہ بندگی کا حقدار صرف وہی ہے۔
ان میں مرکز ومحور کی حیثیت تو حید الوہیت کو حاصل ہے،
اس لیے سب سے پہلے اس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 112
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 113
حضرت عبداللہ بنِ عمر رضی الله عنه روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسلام کی تعمیر پانچ چیزوں سے ہوئی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی إلہ (بندگی کے لائق) نہیں اور بےشک محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:113]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے اقرار کےلیے نبی اکرم ﷺ کی رسالت کا اقرار لازم ہے،
اس لیے اوپر والی روایات میں صرف الوہیت کا تذکرہ کیا گیا ہے،
رسالت کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں کیا گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 113
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 114
ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما سے پوچھا: آپ جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ تو انھوں نے جواب دیا: بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپؐ فر رہے تھے: ”اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر قائم ہے، اللہ تعالیٰ کی الوہیت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:114]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کرنے والا حکیم نامی انسان تھا۔
2۔
جہاد اسلام کے ارکان خمسہ کی طرح بالذات مقصود اور مطلوب نہیں بلکہ اسلام کے باقی امور کی طرح کسی عارضی (ضرورت وحاجت)
،
خاص حالات اور خاص موقعوں پر فرض ہوتا ہے،
اس لیے جہاد ہر وقت،
ہر حالت میں،
ہر مرد اور ہر عورت پر فرض نہیں اس لیے جہاد کو ارکان اسلام میں شمار نہیں کیا گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 114
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:8
8. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:8]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ایمان کی کمی بیشی پر استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قراردیا گیا ہے اور یہ پانچوں چیزیں ہرشخص میں نہیں پائی جاتیں، کوئی نماز نہیں پڑھتا، کوئی زکاۃ نہیں دیتا، کوئی حج کے معاملے میں کوتاہی کرتا ہے اور کسی سے روزوں کے متعلق تساہل ہوجاتا ہے۔
اس اعتبارسے مراتب ایمان میں بھی تفاوت آجاتا ہے۔
کسی کا اسلام ناقص ہے اور کسی میں یہ علامتیں پورے طور پر موجود ہوتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں لگن ہے۔
اگر ان اعمال کی پابندی نہیں ہے تو یہ اس کے نقصان دین کی علامت ہے۔
واضح رہے کہ محدثین کے ہاں اسلام اور ایمان ایک ہی حقیقت کےدو نام ہیں، گویا ان پانچ چیزوں پر ایمان کا اطلاق بھی ہوتا ہے اس لیے معلوم ہوا کہ ایمان مرکب ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
2۔
اس مقام پر ارکان خمسہ میں جہاد کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ اس کی دین اسلام میں بہت اہمیت ہے؟ یہ اس لیے کہ جہاد فرض کفایہ ہے جو مخصوص حالات میں فرض عین قراردیا جاتا ہے، نیز اس حدیث میں کلمہ شہادت کے ساتھ دیگر انبیاء اور ملائکہ پر ایمان لانے کا ذکر بھی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہی تمام انبیاء کی تصدیق ہے اور دیگر اصول ایمان کی بنیاد یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دل وجان سے تسلیم کیاجائے۔
(فتح الباري 29/1)
3۔
اس حدیث کا سبب ورود بھی ہے۔
وہ یہ کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حکیم نامی ایک آدمی کے اعتراض پر اس حدیث کو بیان فرمایا۔
اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا:
اے ابوعبدالرحمان! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج پر جاتے ہیں تو دوسرے سال عمرہ کرتے ہیں لیکن آپ نے جہاد کو چھوڑرکھا ہے، حالانکہ آپ کو اس کی اہمیت کا بخوبی علم ہے؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے اور اس میں جہاد کا ذکر نہیں ہے۔
(صحيح البخاري، التفسیر، حدیث: 4514)
4۔
حدیث میں اگرچہ تصدیق قلب کا ذکر نہیں ہے، تاہم لفظ شہادت اس کو مستلزم ہے، کیونکہ شہادت اس قول کو کہا جاتا ہے جو قلب کے مطابق ہو۔
شہادت کے بعد چند اعمال کو ذکرفرمایا۔
ان میں سے نماز اور زکاۃ اللہ تعالیٰ کی صفت جلال پر متفرع ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں انتہائی ادب سے ادا کیا جائے، معمولی سی کوتاہی سے یہ آبگینہ سبوتاژ ہوسکتا ہے، نیز حج اور روزہ اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے آئینہ دار ہیں۔
اس کا تقاضا ہے کہ انھیں فریفتگی اور دیوانہ وارادا کرے، نیز اس حیثیت کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ غیر سے اعراض کرتے ہوئے مقصود کی طرف کامل توجہ ہو۔
حج میں توبہ الی اللہ اور روزے میں اعراض عن الغیر ہے۔
5۔
اس روایت میں حج کو صوم و رمضان پر مقدم کیا گیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کواصل قراردیتے ہوئے اپنی اس کتاب میں ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے ذکر فرمایا ہے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی بعض روایات میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لائے ہیں۔
(صحیح مسلم، الایمان، حدیث 111(16)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کو اصل قراردے کر صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنیٰ کہا ہے کیونکہ مسلم کی ایک روایت میں جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت سعد بن عبیدہ بیان کرتے ہیں تو اس میں صوم رمضان کو حج پر مقدم لایا گیا ہے۔
اس میں مزید وضاحت ہے کہ مجلس میں ایک آدمی نے ترتیب بدل کر جب یوں کہا کہ ”حج وصوم رمضان“ تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا نہیں، بلکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ صیام رمضان، حج کے ذکر سے پہلے ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔
(صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 111(16)
صحیح بخاری کی ایک روایت مین صیام رمضان کو حج سے پہلے لایا گیا ہے بلکہ اسے ادائے زکاۃ سے بھی پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث 4514)
بخاری کی ایک روایت کے مطابق حنظلہ سے جب عبیداللہ بن موسیٰ بیان کرتے ہیں تو حج کو صوم رمضان سے پہلے لاتے ہیں لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق جب ان سے عبداللہ بن نمیر بیان کرتے ہیں تو صوم رمضان کو حج سے پہلے ذکر کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 114(16)
جب صحیح مسلم کی روایت میں تصریح سماع ہے اور حنظلہ کی یہ روایت اس بنیادی روایت کے بھی موافق ہے تو صحیح بخاری کی روایت کو نقل بالمعنی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
البتہ یہ جواب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت شان کے خلاف ضرور ہے کیونکہ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اسی روایت کو بنیاد قراردے کر ابواب حج کو ابواب صیام سے پہلے بیان کیا ہے، نیزحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب ان کے بیٹے زید بن عبداللہ بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج البیت کو صوم رمضان سے پہلے ذکر کرتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم، الایمان، حدیث 16 میں ہے۔
اس کے علاوہ حضرت سعد بن عبیدہ سے جب سعد بن طارق بیان کرتے ہیں تو وہ بھی حج کو صوم رمضان پر مقدم کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم، الایمان، حدیث 112(16)
یہ بھی ممکن ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دونوں طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کی تردید کی ہے۔
(فتح الباري: 71/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 8
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4514
4514. حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ابو عبدالرحمٰن! کیا وجہ ہے کہ آپ ایک سال حج کرتے ہیں اور دوسرے سال عمرے کے لیے جاتے ہیں، نیز آپ نے جہاد فی سبیل اللہ ترک کر رکھا ہے، حالانکہ آپ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے اس کے متعلق کس قدر رغبت دلائی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد تو پانچ چیزوں پر ہے: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکاۃ ادا کرنا اور حج کرنا۔ اس نے کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں اللہ کا ارشاد گرامی آپ کو معلوم نہیں: "اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر ان دونوں میں سے کوئی جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرتی ہے تو تم سب اس کے خلاف لڑو جو جماعت زیادتی کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔" (اور اللہ تعالٰی کا یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4514]
حدیث حاشیہ:
1۔
حامیان حکومت نے حضرت ابن عمر ؓ کے سامنے قرآنی آیت سے یہ استدلال کرنا چاہا کہ باغی مسلمانوں سے لڑنا جائز ہے۔
چونکہ آپ عظیم شخصیت ہیں، اس لیے آپ اس سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ان کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا مؤقف یہ تھا کہ باغی لوگوں سے لڑنے کے لیے عدد اور تیاری کی ضرورت ہے۔
وہ افراد اور اسلحہ میرے پاس نہیں ہے کہ میں ان سے قتال کروں، اس لیے تو میں نے تو سکوت اور تسلیم ورضا کا راستہ اختیار کرکے کنارہ کشی کرلی ہے، رہا فتنے کا خاتمہ تو ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اسےنیست ونابود کرچکے ہیں۔
اب تو کرسی واقتدار کے لیے قتال باقی رہ گیاہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
2۔
اس خارجی نے مسلمانوں کی اس جنگ کو جہاد کفار کے برابر کردیا۔
اگرچہ باغی مسلمانوں سے قتال جائز ہے لیکن وہ جہاد کفار کےبرابر ہرگز نہیں ہے۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے اس مؤقف پر آخری وقت تک کاربند رہے، چنانچہ وہ اپنی ہمشیرہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے کہنے کے باوجود واقعہ تحکیم میں شامل نہ ہوئے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4514