صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ
مقدمہ
6. باب صِحَّةِ الاِحْتِجَاجِ بِالْحَدِيثِ الْمُعَنْعَنِ إِذَا أَمْكَنَ لِقَاءُ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ
باب: معنعن حدیث سے حجت پکڑنا صحیح ہے جبکہ معنعن والوں کی ملاقات ممکن ہو اور ان میں کوئی تدلیس کرنے والا نہ ہو۔
حدیث نمبر: 92B11
فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنْ كَانَتِ الْعِلَّةُ فِي تَضْعِيفِكَ الْخَبَرَ وَتَرْكِكَ الِاحْتِجَاجَ بِهِ، إِمْكَانَ الْإِرْسَالِ فِيهِ، لَزِمَكَ أَنْ لَا تُثْبِتَ إِسْنَادًا مُعَنْعَنًا، حَتَّى تَرَى فِيهِ السَّمَاعَ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ. وَذَلِكَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْوَارِدَ عَلَيْنَا بِإِسْنَادِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عائشة َ، فَبِيَقِينٍ نَعْلَمُ، أَنَّ هِشَامًا قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ، وَأَنَّ أَبَاهُ قَدْ سَمِعَ مِنْ عائشة كَمَا نَعْلَمُ، أَنَّ عائشة قَدْ سَمِعَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ يَجُوزُ إِذَا لَمْ يَقُلْ هِشَامٌ فِي رِوَايَةٍ يَرْوِيهَا، عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتُ، أَوْ أَخْبَرَنِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَبِيهِ فِي تِلْكَ الرِّوَايَةِ إِنْسَانٌ آخَرُ أَخْبَرَهُ بِهَا، عَنْ أَبِيهِ وَلَمْ يَسْمَعْهَا هُوَ مِنْ أَبِيهِ، لَمَّا أَحَبَّ أَنْ يَرْوِيَهَا مُرْسَلًا وَلَا يُسْنِدَهَا إِلَى مَنْ سَمِعَهَا مِنْهُ، وَكَمَا يُمْكِنُ ذَلِكَ فِي هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ أَيْضًا مُمْكِنٌ فِي أَبِيهِ، عَنْ عائشة، وَكَذَلِكَ كُلُّ إِسْنَادٍ لِحَدِيثٍ لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ سَمَاعِ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ، وَإِنْ كَانَ قَدْ عُرِفَ فِي الْجُمْلَةِ، أَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ قَدْ سَمِعَ مِنْ صَاحِبِهِ سَمَاعًا كَثِيرًا، فَجَائِزٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَنْ يَنْزِلَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَةِ، فَيَسْمَعَ مِنْ غَيْرِهِ عَنْهُ بَعْضَ أَحَادِيثِهِ، ثُمَّ يُرْسِلَهُ عَنْهُ أَحْيَانًا، وَلَا يُسَمِّيَ مَنْ سَمِعَ مِنْهُ، وَيَنْشَطَ أَحْيَانًا، فَيُسَمِّيَ الرَّجُلَ الَّذِي حَمَلَ عَنْهُ الْحَدِيثَ وَيَتْرُكَ الإِرْسَالَ،
تو اس سے کہا جائے گا اگر تیرے نزدیک حدیث کو ضعیف کرنے کی اور اس کو حجت نہ سمجھنے کی علت صرف ارسال کا ممکن ہونا ہے (جیسے اس نے خود کہا کہ جب سماع ثابت نہ ہو تو وہ روایت حجت نہ ہو گی کیونکہ ممکن ہے اس کا مرسل ہونا) تو لازم آتا ہے کہ تو کسی اسناد معنعن کو نہ مانے جب تک اول سے لے کر آخر تک اس میں تصریح نہ ہو سماع کی (یعنی ہر راوی دوسرے سے یوں روایت کرے کہ میں نے اس سے سنا) مثلاً جو حدیث ہم کو پہنچی ہشام کی روایت سے، اس نے اپنے باپ عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے جیسے ہم اس بات کو بالیقین جانتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے باوجود اس کے احتمال ہے کہ اگر کسی روایت میں ہشام یوں نہ کہے کہ میں نے عروہ سے سنا ہے یا عروہ نے مجھے خبر دی (بلکہ صرف «عن عروه» کہے) تو ہشام اور عروہ کے بیچ میں ایک اور شخص ہو جس نے عروہ سے سن کر ہشام کو خبر دی ہو اور خود ہشام نے اپنے باپ سے اس روایت کو نہ سنا ہو لیکن ہشام نے اس کو مرسلاً روایت کرنا چاہا اور جس کے ذریعہ سے سنا اس کا ذکر مناسب نہ جانا۔ اور جیسے یہ احتمال ہشام اور عروہ کے بیچ میں ہے، ویسے ہی عروہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک اسناد میں جس میں سماع کی تصریح نہیں اگرچہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ ایک نے دوسرے سے بہت سی روایتیں سنی ہیں۔ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ بعض روایتیں اس سے نہ سنی ہوں بلکہ کسی اور کے ذریعہ سے سن کر اس کو مرسلاً نقل کیا ہو پر جس کے ذریعہ سے سنا اس کا نام نہ لیا اور کبھی اس اجماع کو رفع کرنے کے لیے اس کا نام بھی لے دیا اور ارسال کو ترک کیا۔