مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
0
998. حَدِيثُ رِعْيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 22466
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ رِعْيَةَ السُّحَيْمِيِّ ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَدِيمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَقَعَ بِهِ دَلْوَهُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَلَمْ يَدَعُوا لَهُ رَائِحَةً وَلَا سَارِحَةً، وَلَا أَهْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوهُ، وَانْفَلَتَ عُرْيَانًا عَلَى فَرَسٍ لَهُ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرَةٌ، حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى ابْنَتِهِ، وَهِيَ مُتَزَوِّجَةٌ فِي بَنِي هِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَهْلُهَا، وَكَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَاءِ بَيْتِهَا، فَدَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا مِنْ وَرَاءِ الْبَيْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْهُ أَلْقَتْ عَلَيْهِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَكَ؟ قَالَ: كُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِيكِ، مَا تُرِكَ لَهُ رَائِحَةٌ وَلَا سَارِحَةٌ، وَلَا أَهْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ قَالَتْ: دُعِيتَ إِلَى الْإِسْلَامِ قَالَ: أَيْنَ بَعْلُكِ؟ قَالَتْ: فِي الْإِبِلِ , قَالَ: فَأَتَاهُ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ قَالَ: كُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِهِ، مَا تُرِكَتْ لَهُ رَائِحَةٌ وَلَا سَارِحَةٌ، وَلَا أَهْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ وَأَنَا أُرِيدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُهُ قَبْلَ أَنْ يُقَسِّمَ أَهْلِي وَمَالِي , قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِي بِرَحْلِهَا , قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهَا , قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِي، وَزَوَّدَهُ إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ , قَالَ: وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّى بِهِ وَجْهَهُ خَرَجَتْ اسْتُهُ، وَإِذَا غَطَّى اسْتَهُ خَرَجَ وَجْهُهُ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يُعْرَفَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَدِينَةِ، فَعَقَلَ رَاحِلَتَهُ ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ بِحِذَائِهِ حَيْثُ يُصَلِّي، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْسُطْ يَدَيْكَ فَلْأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَهَا، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَضْرِبَ عَلَيْهَا قَبَضَهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ ثَلَاثًا قَبَضَهَا إِلَيْهِ وَيَفْعَلُهُ، فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ، قَالَ:" مَنْ أَنْتَ؟" قَالَ: رِعْيَةُ السُّحَيْمِيُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَضُدَهُ ثُمَّ رَفَعَهُ، ثُمَّ قَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ هَذَا رِعْيَةُ السُّحَيْمِيُّ الَّذِي كَتَبْتُ إِلَيْهِ، فَأَخَذَ كِتَابِي فَرَقَعَ بِهِ دَلْوَهُ" , فَأَخَذَ يَتَضَرَّعُ إِلَيْهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهْلِي وَمَالِي قَالَ:" أَمَّا مَالُكَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَهْلُكَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَيْهِ مِنْهُمْ" , فَخَرَجَ، فَإِذَا ابْنُهُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَةَ، وَهُوَ قَائِمٌ عِنْدَهَا، فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذَا ابْنِي فَقَالَ:" يَا بِلَالُ، اخْرُجْ مَعَهُ فَسَلْهُ أَبُوكَ هَذَا؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ" فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَبُوكَ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ , فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَيْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلَى صَاحِبِهِ، فَقَالَ:" ذَاكَ جَفَاءُ الْأَعْرَابِ" .
حضرت رعیہ سحیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سرخ چمڑے پر لکھا ہوا ایک خط آیا انہوں نے اسے اپنے ڈول کا پیوند بنا لیا، کچھ عرصے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاقے میں ایک لشکر روانہ فرما دیا جس نے ان کے پاس کچھ بھی نہ چھوڑا نہ اہل خانہ اور نہ مال و دولت بلکہ سب کچھ لے گئے وہ برہنہ ایک گھوڑے پر " جو پالان سے محروم تھا " جان بچا کر بھاگے اور اپنی بیٹی کے پاس پہنچے جس کی شادی بنو ہلال میں ہوئی تھی اور اس کے گھر والوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کے گھر کا صحن لوگوں کی بیٹھک ہوتا تھا اس لئے وہ گھوم کر پچھلے حصے سے گھر میں داخل ہوئے، ان کی بیٹی نے انہیں اس حال میں دیکھ کر پہننے کے لئے کپڑے دیئے اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ تیرے باپ پر بڑی سخت مصیبت آئی، اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا اہل خانہ اور نہ ہی مال و دولت، سب کچھ چھین لیا گیا اس نے پوچھا کہ آپ کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی؟ لیکن انہوں نے اس کا جواب دیئے بغیر پوچھا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ اس نے بتایا اونٹوں کے پاس ہیں۔
پھر وہ اپنے داماد کے پاس گئے اس نے بھی پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا؟ انہوں نے وہی جواب دیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے اہل خانہ اور مال کے تقسیم ہونے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤں، اس نے کہا کہ پھر آپ میری سواری لے جائیں انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں پھر اس نے چرواہے کا ایک جوان اونٹ لیا اور ایک برتن میں پانی کا توشہ دے کر روانہ کردیا ان کے جسم پر ایک کپڑا تھا لیکن وہ اتنا چھوٹا تھا اگر اس سے چہرہ ڈھانپتے تو جسم کا نچلا حصہ برہنہ ہوجاتا اور اگر نچلے حصے کو ڈھانپتے تو چہرہ نظر آتا تھا اور وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ انہیں کوئی شناخت کرلے۔
بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچے اپنی سواری کو باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہاتھ بڑھائیے کہ میں آپ کی بیعت کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا جب انہوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھنا چاہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک پیچھے کھینچ لیا تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ عرض کیا کہ میں رعیہ سحیمی ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بلند کیا اور فرمایا اے گروہ مسلمین! یہ رعیہ سحیمی ہے جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے میرا خط پکڑ کر اپنے ڈول کا پیوند بنا لیا تھا۔
پھر انہوں نے نہایت عاجزی سے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے اہل خانہ اور میرا مال واپس کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا مال تو تقسیم ہوچکا البتہ تمہارے جو اہل خانہ تمہیں مل جائیں وہ تمہارے ہی ہیں چنانچہ وہ باہر نکلے تو ان کا بیٹا ان کی سواری کو پہچان کر کے اس کے پاس کھڑا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! اس کے ساتھ جاؤ اس لڑکے سے پوچھو کہ کیا یہ تیرا باپ ہے؟ اگر وہ اقرار کرلے تو اسے ان کے حوالے کردو چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ان دونوں میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے مل کر آنسو بہاتے ہوئے نہیں دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی تو دیہاتیوں کی سخت دلی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده منقطع، لم يصرح الشعبي بالسماع من رعية