Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
7. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الْمُنَاوَلَةِ وَكِتَابِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْعِلْمِ إِلَى الْبُلْدَانِ:
باب: مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کو بھیجنا۔
حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السمائ قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسو لک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (نوٹ: صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے)۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q64-2 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q64-2  
تشریح:
صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔ شرح قسطلانی رحمہ اللہ میں بھی یہ روایت یہاں نہیں ہے۔ بہرحال صحابہ کرام کو غیر ضروری سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا، وہ احتیاطاً خاموشی اختیار کر کے منتظر رہا کرتے تھے کہ کوئی باہر کا آدمی آ کر مسائل معلوم کرے اور ہم کو سننے کا موقع مل جائے۔ اس روایت میں بھی شاید وہی ضمام بن ثعلبہ مراد ہیں جن کا ذکر پچھلی روایت میں آ چکا ہے۔ اس کے تمام سوالات کا تعلق اصول و فرائض دین سے متعلق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر فرائض ہی کا ذکر فرمایا۔ نوافل فرائض کے تابع ہیں چنداں ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی اس لیے اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ اس سے سنن و نوافل کی اہمیت جو اپنی جگہ پر مسلم ہے وہ کم نہیں ہوئی۔

ایک بے جا الزام:
صاحب ایضاح البخاری جیسے سنجیدہ مرتب کو خداجانے کیا سوجھی کہ حدیث طلحہ بن عبیداللہ جو کتاب الایمان میں بذیل باب الزکوٰۃ من الاسلام مذکور ہوئی ہے اس میں آنے والے شخص کو اہل نجد سے بتلایا گیا ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ ضمام بن ثعلبہ ہی ہیں۔ بہرحال اس ذیل میں آپ نے ایک عجیب سرخی دور حاضرہ کا ایک فتنہ سے قائم فرمائی ہے۔ پھر اس کی توضیح یوں کی ہے کہ اہل حدیث اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سنن کے اہتمام سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ [ايضاح البخاري،جلد4، ص: 386]
اہل حدیث پر یہ الزام اس قدر بے جا ہے کہ اس پر جتنی بھی نفریں کی جائے کم ہے۔ کاش آپ غور کرتے اور سوچتے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ جو جماعت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی وجہ سے آپ کے ہاں انتہائی معیوب ہے۔ وہ بھلا سنن کے اہتمام سے پہلو تہی کرے، یہ بالکل غلط ہے۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص ایسا کر گزرتا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے یوں کتنے مسلمان خود نماز فرض ہی سے پہلو تہی کرتے ہیں تو کیا کسی غیر مسلم کا یہ کہنا درست ہو جائے گا کہ مسلمانوں کے ہاں نماز کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
اہل حدیث کا تو نعرہ ہی یہ ہے۔
«ماعا شقيم بے دل دلدار ما محمد . . . ما بلبليم نالاں گلزار ما محمد صلى الله عليه وسلم»
ہاں! اہل حدیث یہ ضرور کہتے ہیں کہ فرض و سنن و نوافل کے مراتب الگ الگ ہیں۔ کوئی شخص کبھی کسی معقول عذر کی بنا پر اگر سنن و نوافل سے محروم رہ جائے وہ اسلام سے خارج نہیں ہو جائے گا۔ نہ اس کی ادا کردہ فرض نماز پر اس کا کچھ اثر پڑے گا، اگر اہل حدیث ایسا کہتے ہیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ اس لیے کہ یہ تو خود آپ کا بھی فتوی ہے۔ جیسا کہ آپ خود اسی کتاب میں فرما رہے ہیں، آپ کے لفظ یہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بے کم وکاست عمل کرنے کی قسم پر دخول جنت کی بشارت دی کیونکہ اگر بالفرض وہ صرف انہیں تعلیمات پر اکتفا کر رہا ہے اور سنن و نوافل کو شامل نہیں کر رہا ہے۔ تب بھی دخول جنت کے لیے تو کافی ہے۔ [ایضاح البخاری، جلد5،ص: 31]
صدافسوس کہ آپ یہاں ان کو داخل جنت فرما رہے ہیں اور پچھلے مقام پر آپ ہی اسے دور حاضرہ کا ایک فتنہ بتلاتے ہیں۔ ہم کو آپ کی انصاف پسند طبیعت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح فرما دیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت قبل الحديث صحيح بخاري 64  
فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری نے موسیٰ بن اسماعیل سے انہوں نے سلیمان بن المغیرہ سے انہوں نے ثابت سے انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[صحیح مسلم:12 یا 102]
[سنن الترمذی:619، مختصراً وقال: ھذاحدیث حسن غریب]
[سنن النسائی:121/4، ح:2093]
[مسند احمد:3، 142، 193]
[مستخرج ابی عوانہ:2/1، 3]
صحیح بخاری کی تعلیق کی سند حافظ ابن حجر اور عینی حنفی دونوں نے بیان کر دی ہے مگر معترض صاحب یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ کوئی سند پیش کی ہے یا کسی .....۔‏‏‏‏
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 29   

وَقَالَ أَنَسٌ نَسَخَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَى الآفَاقِ. وَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمَالِكٌ ذَلِكَ جَائِزًا. وَاحْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْحِجَازِ فِي الْمُنَاوَلَةِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ كَتَبَ لأَمِيرِ السَّرِيَّةِ كِتَابًا وَقَالَ: «لاَ تَقْرَأْهُ حَتَّى تَبْلُغَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا» . فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ قَرَأَهُ عَلَى النَّاسِ، وَأَخْبَرَهُمْ بِأَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اور انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف (یعنی قرآن) لکھوائے اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ (کتابت) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر (قاصد سے) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاؤ اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا وہ انہیں بتلایا۔
حدیث نمبر: 64
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ".
اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ (شاہ ایران) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا (راوی کہتے ہیں) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 64 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 64  
تشریح:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر ظاہر کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 64  
حدیث حاشیہ:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول کی دعا کا اثر ظاہر کردیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:64  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث بیان فرمانے کے لیے مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔
یہ باب مناولہ اورمکاتبہ کے اثبات کے لیے ہے۔
اس حدیث سے مناولہ بایں طور پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکتوب گرامی دیا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے گورنرکوپہنچادیں اور اسے بتائیں کہ اسے ایران کے بادشاہ کسریٰ تک پہنچادے، حالانکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ خود مکتوب پڑھا اور نہ ہی سنا۔
یہ اگرچہ اصطلاحی مناولہ نہیں، تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اثبات کے لیے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوتی ہے۔
اور مکاتبہ کا انطباق تو بالکل ظاہر ہے۔
(فتح الباري: 205/1)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مصنف نے عنوان میں دوامور کا ذکر کیا تھا:
مناولہ اورمکاتبہ، پھر پیش کردہ حدیث سے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا جس سے جز اول کا ثبوت بطریق اولیٰ نکل آیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد شاہان عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمائے، حدیث میں مذکورہ خط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اس خط کو آپ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کیا تاکہ وہ بحرین کے گورنر کے ذریعے سے شاہ فارس کسریٰ کو پہنچادیں۔
یہ زمانہ خسرو پرویز کا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور وہ خود خطرناک زہر کھانے کے بعد ہلاک ہوگیا۔
اس کے بعد سلطنت کے معاملات اس کی بیٹی کے سپرد کیے گئے، وہ اس وسیع سلطنت کاانتظام نہ کرسکی، بالآخر طوائف الملوکی شروع ہوگئی اور سلطنت کانام ونشان تک مٹ گیا۔
(شرح الکرماني: 22/2)
اس حدیث سے اہل علم کی علمی باتوں کوتحریر کر کے دیگر ممالک ارسال کرنے کا ثبوت ملتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلم حکومت سے اعلان جنگ سے پہلے اسے دین اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ بے ادبی اورگستاخی کریں تو ان کے خلاف بددعا کی جائے۔
خبرواحد کی حجیت کا ثبوت بھی اس حدیث سے ملتا ہے۔
(شرح الکرماني: 22/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2936  
´مسلمان اہل کتاب کو دین کی بات بتلائے یا ان کو قرآن سکھائے؟`
«. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ، وَقَالَ:" فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روم کے بادشاہ) قیصر کو (خط) لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم نے (اسلام کی دعوت سے) منہ موڑا تو (اپنے گناہ کے ساتھ) ان کاشتکاروں کا بھی گناہ تم پر پڑے گا (جن پر تم حکمرانی کر رہے ہو)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2936]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2936 کا باب: «بَابُ هَلْ يُرْشِدُ الْمُسْلِمُ أَهْلَ الْكِتَابِ أَوْ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اہل کتاب کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے پر جواز پیش فرمایا ہے، مگر دلیل کے طور پر ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ حدیث میں کسی آیت کے سکھانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان یہ نظر آتا ہے کہ اہل کتاب کو دین اور قرآن سکھایا جا سکتا ہے مگر حدیث میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں ہے۔
در اصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ پر اس حدیث کو مختصرا ذکر فرمایا ہے اور مکمل حدیث «باب دعا النبى صلى الله عليه وسلم إلى الاسلام والنبوة» میں ذکر فرمائی ہے جس میں واضح طور پر وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیصر کی طرف خط بھیجا تو اس میں قرآن مجید کی آیت درج کروائی تھی:
« ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ » [آل عمران: 64]
لہذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے، مذکورہ بالا ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، پہلے جزء کی مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: «فان توليت» کیونکہ یہ جملہ اور اس کا انداز بیان بتا دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رشد کی طرف دعوت دے رہے ہیں، دوسرا جزء یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فان عليك اثم الأريسينين.» یہ ذکر اور وعید ہے۔ ان دونوں کی مناسبت بھی ترجمۃ الباب سے واضح ہے۔
لہذا ترجمۃ الباب میں اس طرف اشارہ ہوا کہ مسلمانوں کو خصوصا مسلمان حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ کافروں اور اہل کتاب پر دین اسلام کی دعوت پیش کریں۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل کتاب کی رہنمائی اور انہیں دین اسلام کی دعوت دینا مسلمان حاکموں پر واجب ہے، اور یہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص: 116]
فائدہ نمبر 1:
کافر جس کو قرآن کی تعلیم دینے کا حکم ہے۔
اس مسئلے میں ائمہ کا اختلاف رہا ہے کہ آیا کافروں کو قرآن کی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ نہیں، بعض اہل علم کا رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کو دعوت نہیں دی جا سکتی، اور بعض کا رحجان اس طرف ہے کہ اگر ان کا اسلام قبول کرنا ممکن ہو اور امید ہو تو جائز ہے۔
① امام مالک رحمہ اللہ کا رحجان اور ان کے دلائل:
امام مالک رحمہ اللہ مطلقا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (دیکھئے: [اكمال اكمال المعلم على شرح صحيح مسلم 5/216])
امام مالک رحمہ اللہ قرآن مجید کی اس آیت سے اپنے موقف کو ثابت کرتے ہیں: « ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ » [التوبة: 28] یعنی مشرکین ناپاک ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال اس حدیث سے بھی ہے، چنانچہ حدیث میں موجود ہے:
«نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يسافر بالقرآن إلى أرض العدو.» [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 4840]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ملک کی طرف قرآن مجید ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض مالکیہ بطور وعظ و نصیحت کے ایک یا دو آیات کے جواز کے قائل بھی ہیں۔ [اكمال الكمال المعلم: 5/216]
احناف کے دلائل:
احناف کا رحجان اس طرف ہے کہ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی اسے قرآن وغیرہ سکھانے میں کوئی حرج نہیں، احناف نے اپنے موقف کے لئے یہ آیت پیش فرمائی ہیں:
« ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ﴾ » [التوبة: 6]
اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے۔
احناف کی دلیل حدیث سے:
«مر النبى صلى الله عليه وسلم على عبدالله ابن أبى قبل أن يسلم وفي المجلس اخلاط من المسلمين و المشركين واليهود فقراء عليهم القرآن.» [عمدة القاري، ج 14، ص: 306]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس سے گزرے ان کے اسلام لانے سے قبل اور اس مجلس میں مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو قرآن سنایا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا رحجان:
امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں:
[اكمال اكمال المعلم و شرح على صحيح مسلم، 57، ص: 117 - فتح الباري، ج 6، ص: 133]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا رحجان:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے کی شرط پر جائز قرار دیتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک اگر اسلام قبول کرنے کی امید نہ ہو تو کفار کو قرآن کی تعلیم دینا جائز نہیں۔ [المغني لابن قدامة، ج 9، ص: 289]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان:
«والذي يظهر أن الراجح التفصيل بين من يرجى منه الرغبة فى الدين والدخول فيه . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 133]
میرے نزدیک جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ امید ہو کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اس کی رغبت ہو اسلام کی طرف، یا کم سے کم اس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو تو اسے قرآن سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔
مذکورہ بالا ائمہ کے دلائل کو دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہی (Conditions) سامنے آتی ہیں جس کا ذکر حافظ صاحب نے فرمایا۔
ہرقل اور قیصر کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجے اس میں یہ امید تھی کہ کوئی نہ کوئی ایمان لے آئے گا اور کئی مواقع پر اس قسم کی نصرت الہی ظاہر ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے شہر یا ملک میں قرآن لے جانے سے منع فرمایا اسی وجہ سے کہ وہاں بےادبی اور گستاخی جیسے رویہ کا خطرہ موجود ہو، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان اور رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کی راہنمائی کی جا سکتی ہے اور انہیں قرآن کی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: «أن رسول الله كتب . . .» کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا۔ یاد رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أن النبى صلى الله عليه وسلم كتب إلى قيصر، و حديثه كتب إلى النجاشي، و حديثه كتب إلى كسرى، و حديث عبدالله بن عكيم كتب إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وغير هذه الأحاديث كلها محمولة على أمر الكاتب.» [تلخيص الحبير، ج 3، ص: 128]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا قیصر کی طرف، کسری کی طرف اور عبداللہ بن عکیم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہماری طرف، اس کے علاوہ اور بھی جتنی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود ہے وہ سب احادیث اس امر پر محمول ہیں کہ لکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود نہیں لکھا بلکہ) کاتبوں سے لکھوایا۔ [تلخيص الحبير لابن حجر عسقلاني، ج 3، ص: 128 - سير اعلام النبلاء للذهبي، ج 9، ص: 437] یا پھر راقم کی کتاب [تفهيم حديث، ج 1، ص: 73-80]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 415   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2936  
2936. حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (شاہ روم) قیصر کو خط لکھا: اگرتو نے دعوت اسلام سے اعراض کیا تو عوام لوگوں کا گناہ بھی تیرے ذمہ ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2936]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث تفصیل کے ساتھ شروع کتاب میں گزر چکی ہے۔
اس خط میں آپ نے قرآن مجید کی آیت بھی لکھی تھی تو باب کا ترجمہ ثابت ہوگیا یعنی اہل کتاب کو قرآن سکھانا مگر یہ جب ہے کہ ان سے خیر کی امید ہو۔
اگر ان سے گستاخی اور بے ادبی کا خطرہ ہے تو ان کو قرآن شریف ہرگز ہرگز نہیں سکھانا چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2936   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4424  
4424. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ کے ذریعے سے کسرٰی بادشاہ کی طرف روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دیں اور بحرین کا گورنر یہ خط کسرٰی کو پہنچائے گا۔ کسرٰی نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ راوی کے گمان کے مطابق امام ابن مسیب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4424]
حدیث حاشیہ:
کسریٰ نے صرف یہی گستاخی نہیں کی بلکہ اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ وہ مدینہ جا کر اس نبی سے ملیں اگر وہ دعویٰ نبوت سے توبہ کرے تو بہتر ہے ورنہ اس کا سر اتار کر میرے پاس حاضر کریں۔
چنانچہ باذان مدینہ آیا اور اس نے کسریٰ کا یہ فرمان سنایا۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہونا چاہئیے کہ آج رات کو میرے رب تعالیٰ نے اسے اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھ سے قتل کرا دیا ہے اور اب تمہاری حکومت پارہ پارہ ہو نے والی ہے۔
یہ واقعہ 7ھ میں بماہ جمادی الاول ہوا۔
چھ ماہ تک شیرویہ فارس کا بادشاہ رہا۔
ایک دن خزانے میں اس کو ایک دوا کی شیشی ملی جس پر قوت باہ کی دوا لکھا ہوا تھا۔
اس نے اسے کھایا اور ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد کسریٰ کی پوتی پوران نامی قومی حاکم ہوئی جو شیرویہ کی بیٹی تھی جس کے لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس پر عورت حاکم ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4424   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2939  
2939. حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا (دعوتی) خط شاہ ایران کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ اس خط کو بحرین کے گورنر کو پہنچا دے، پھر بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میرے خیال کے مطابق حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ان (ایرانیوں) پر بددعا کی کہ وہ خود بھی پارہ پارہ ہوجائیں۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2939]
حدیث حاشیہ:
تواریخ میں مذکور ہے کہ فرزند کسریٰ جو ایک نوجوان عیاش قسم کا آدمی تھا اور وہ موقع کا انتظار کر رہا تھا کہ اپنے والد کسریٰ کو ختم کرکے جلد سے جلد تخت اور خزانوں کا مالک بن جائے۔
چنانچہ جب کسریٰ نے یہ حرکت کی اس کے بعد جلد ہی ایک رات کو اس کے لڑکے نے کسریٰ کے پیٹ پر چڑھ کر اس کے پیٹ کو چھرا گھونپ دیا اور اسے ختم کردیا۔
بعد میں وہ تخت و تاج کا مالک بنا تو اس نے خزانوں کا جائزہ لیتے ہوئے خزانے میں ایک دوا کی شیشی پائی جس پر قوت باہ کی دوا لکھا ہوا تھا۔
اس نے سوچا کہ والد صاحب اسی دوا کو کھا کھا کر آخر تک داد عیش دیتے رہے مجھ کو بھی دوا کھالینی چاہئے۔
درحقیقت اس شیشی میں سم الفار تھا اس نے اس کو کھایا اور فوراً ہی وہ بھی ختم ہوگیا۔
اس طرح اس کی سلطنت پارہ پارہ ہوگئی اور عہد فاروقی میں سارا ملک اسلامی قلم رو میں شامل ہوگیا اور اللہ کے سچے رسولﷺ کی دعا نے پورا پورا اثر دکھلایاﷺ۔
کرمانی وغیرہ میں ہے کہ اس کے لڑکے کا نام خیرویہ تھا جس نے اپنے باپ پرویز نامی کا پیٹ چاک کیا اور چھ ماہ بعد خود بھی وہ مذکورہ زہر کھا کر ہلاک ہوگیا۔
عہد فاروقی میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکے ہاتھوں یہ ملک فتح ہوا۔
یہاں روایت میں یہی خسرو پرویز مراد ہے جو لقب کسریٰ سے یاد کیا گیا۔
(حاشیہ بخاری شریف‘ جلد:
اول، ص: 15)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7264  
7264. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسریٰ (شاہ ایران) کو اپنا خط بھیجا اور قاصد کو حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے، بحرین کا گورنراسے کسریٰ تک پہنچائے گا۔ جب کسریٰ نے وہ خط پڑھا تو اس نے (غصے میں آکر) اسے پھاڑ ڈالا۔ مجھے یاد ہے کہ (راؤی حدیث) سعید بن مسیب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان ایرانیوں کو بد دعا دی کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7264]
حدیث حاشیہ:
ٹکڑے ٹکڑے کر دے‘ ان کی حکومت کا نام ونشان نہ رہے۔
ایسا ہی ہوا۔
ایران والوں کی سلطنت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بالکل نا بود ہو گئی اور پھر آج تک پارسیوں کو سلطنت نصیب نہیں ہوئی جہاں میں دوسروں کی رعیت ہیں۔
ان کی شہزادیاں تک قید ہو کر مسلمانوں کے تصرف میں آئیں۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہو گی مردود کسریٰ پرویز ایک چھوٹے سے ملک کا بادشاہ ہو کر یہ دماغ رکھتا تھا کہ پروردگار عالم کے محبوب کا خط جو آنکھوں پر رکھنا تھا اس نے حقیر جان کر پھاڑ ڈالا۔
اس کی سزا ملی۔
یہ دنیا کے (جاہل)
بادشاہ درحقیقت طاغوت ہیں۔
معلوم نہیں اپنے تئیں کیا سمجھتے ہیں کہو جیسے تم ویسے ہی خدا کی دوسری مخلوق تم میں کیا لعل لٹکتے ہیں جو ں جوں دنیا میں علم کی ترقی ہوتی جاتی ہے توں توں بادشاہوں کے ناک کے کیڑے جھڑتے جاتے ہیں اور آج کے زمانہ میں تو کوئی ان نام نہاد بادشاہوں کو ایک کوڑی برابر بھی نہیں پوچھتا ہے۔
عظمت اور عزت کا تو ذکر ہے۔
(آج سنہ1978ء)
کا دور تو بہت ہی عبرت انگیز ہے)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7264   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2936  
2936. حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (شاہ روم) قیصر کو خط لکھا: اگرتو نے دعوت اسلام سے اعراض کیا تو عوام لوگوں کا گناہ بھی تیرے ذمہ ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2936]
حدیث حاشیہ:
1رسول اللہ ﷺنے شاہ روم ہرقل کو دین اسلام کی دعوت دی اور اسے انجام بد سےخبردار کیا۔
اس طرح آپ نے اس کی دینی رہنمائی فرمائی۔
آپ نے اس خط میں قرآن مجید کی ایک آیت بھی لکھی تھی۔
اس سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب کو قرآن کی تعلیم بھی دی جا سکتی ہے لیکن یہ اس وقت جائز ہو گا جب ان سے خیر کی امید ہو اور انھیں رغبت بھی ہو۔
اگر ان سے گستاخی اور بے ادبی کا اندیشہ ہو اور ان میں شوق اور رغبت بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں انھیں قرآن مجید کی تعلیم نہیں دینی چاہیے۔
حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ عبد اللہ ابن ابی منافق کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے پاس سے گزرے جبکہ اس کے ساتھ مجلس میں مسلمان مشرک اور اہل کتاب بیٹھے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان پر قرآن پڑھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4566)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کو قرآن کریم کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2936   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2939  
2939. حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا (دعوتی) خط شاہ ایران کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ اس خط کو بحرین کے گورنر کو پہنچا دے، پھر بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میرے خیال کے مطابق حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ان (ایرانیوں) پر بددعا کی کہ وہ خود بھی پارہ پارہ ہوجائیں۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2939]
حدیث حاشیہ:

بحرین کے گورنر کے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط لے جانے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی ؓ تھے۔
کسریٰ کو خط پہنچانے کا طریقہ یہی تھا کہ پہلے اس کے گورنر دیا جائے،پھر وہ خود شاہ ایران کو پہنچائے جب کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق بددعا فرمائی کہ اس نے میرا خط نہیں پھاڑا بلکہ خود کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔
چنانچہ وہ خود اور اس کی حکومت پاش پاش ہو گئی۔
آخر کار اہل فارس نے ایک عورت کو اپنا سر براہ بنایا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو گی جس نے حکومت کے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔
چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ایران کا آتش کدہ بجھا کر وہاں اسلامی پرچم لہرادیا گیا۔

رسول اللہ ﷺنے پہلے اہل فارس کو دعوتی خط لکھا پھر ان سے جہاد کیا۔
امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت اسلام دی جائے۔
اگر غیر مسلم اسے قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد و قتال کیا جائے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اب دعوت اسلام پھیل چکی ہے لہٰذا اب قتال ہی ہو گا۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں۔
جس کی رہائش دارالاسلام سے دور ہے اسے تو دعوت دی جائے لیکن قریب رہنے والے کو دعوت کی ضرورت نہیں۔
بہر حال جن لوگوں کو دعوت نہیں پہنچی ان کے ساتھ اس دعوت سے پہلے جنگ وقتال جائز نہیں جب تک انھیں دعوت دے کر اتمام حجت نہ کردی جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4424  
4424. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ کے ذریعے سے کسرٰی بادشاہ کی طرف روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دیں اور بحرین کا گورنر یہ خط کسرٰی کو پہنچائے گا۔ کسرٰی نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ راوی کے گمان کے مطابق امام ابن مسیب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4424]
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
شاہ فارس کسری نے صرف خط پھاڑنے کی گستاخی نہیں کی بلکہ اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ مدینہ طیبہ جا کر اس آدمی سے ملے اگر وہ دعوائے نبوت سے توبہ کر لے تو بہتر بصورت دیگر اس کا سر اتار کر میرے پاس حاضر کرے چنانچہ باذان مدینے آیا اور اس نے کسری کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آج رات میرے رب نے اسے اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا ہے اور اب تمھاری حکومت پارہ پارہ ہونے والی ہےچنانچہ چھ ماہ تک اس کا بیٹا شرویہ فارس کا بادشاہ رہا پھر وہ بھی زہرکھا کر ہلاک ہو گیا۔
بالآخر حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں یہ سلطنت تباہ و برباد ہوگئی اور ہزار سالہ آتش کدہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
(فتح الباري: 160/8)
رسول اللہ ﷺ نے مختلف بادشاہوں کی طرف دعوتی خطوط روانہ کیے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۔
اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کی طرف حاطب بن ابی بلتعہ
۔
غسان کے بادشاہ حارث بن ابی شمر کی طرف شجاع بن وہب
حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی طرف عمرو بن امیہ
روم کے بادشاہ قیصر کی طرف وحیہ کلبی
شاہ فارس کسری کی طرف عبد اللہ بن حذافہ۔
سلیط بن عمرو کو ہوزہ بن علی حنفی کی طرف روانہ کیا، نیز عمرو بن عاص ؓ کو جیفر اور عباد کی طرف بھیجا، تمام قاصد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں واپس آگئے لیکن حضرت عمرو بن عاص ؓ آپ کی وفات کے بعد کے واپس آئے۔
(فتح الباري: 160/8)
اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا خط جو ایرانی سپر پاور کے بادشاہ خسرو پرویز کو لکھا گیا۔
خط مبارک پھٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4424   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7264  
7264. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسریٰ (شاہ ایران) کو اپنا خط بھیجا اور قاصد کو حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے، بحرین کا گورنراسے کسریٰ تک پہنچائے گا۔ جب کسریٰ نے وہ خط پڑھا تو اس نے (غصے میں آکر) اسے پھاڑ ڈالا۔ مجھے یاد ہے کہ (راؤی حدیث) سعید بن مسیب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان ایرانیوں کو بد دعا دی کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7264]
حدیث حاشیہ:

شاہ یران کو خط پہنچانے کا یہی طریقہ تھا کہ اس کے مقرر کیے ہوئے گورنرکے ذریعے سے اسے پہنچایا جاتا۔
جب اس نے بد تمیزی کرتے ہوئے اس خط کو پھاڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بددعا فرمائی اس کے نتیجے میں کوئی بھی کسریٰ باقی نہ رہا۔
آخری کسریٰ یزد گرتھا وہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں قتل ہو گیا۔
اس طرح فارسیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو اور وہ ہمیشہ کے لیے نیست ونابود اور ملیامیٹ ہو گئے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے خبر واحدکی حجیت کو ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلے میں صرف ایک آدمی کو روانہ کرتے تھے اور اس پر اعتماد کرتے تھے اس بنا پر خبر واحد حجت اور قابل یقین ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7264