Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
45. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهْوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَرَجُلٌ يَقُولُ لَوْ أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا فَعَلْتُ كَمَا يَفْعَلُ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ ایک شخص جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور رات اور دن اس میں مشغول رہتا ہے، اور ایک شخص ہے جو کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اسی جیسا قرآن کا علم ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا جیسا کہ یہ کرتا ہے۔
حدیث نمبر: 7529
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ"، سَمِعْتُ سُفْيَانَ مِرَارًا لَمْ أَسْمَعْهُ يَذْكُرُ الْخَبَرَ، وَهُوَ مِنْ صَحِيحِ حَدِيثِهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کی تلاوت رات دن کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے رات و دن خرچ کرتا رہا۔ علی بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے کئی بار سنی «أخبرنا» کے لفظوں کے ساتھ انہیں کہتا سنا باوجود اس کے ان کی یہ حدیث صحیح اور متصل ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7529 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7529  
حدیث حاشیہ:
باب اوراحادیث ذیل سےامام بخاری  نے یہ ثابت کیا ہےکہ قرآن مجید مخلوق ہے اورہم جو تلاوت کرتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جو فعل ہونے کی حیثیت سےمخلوق ہے۔
کلام الہی ہر وقت اورہر حال میں کلام الہی ہے جوغیرمخلوق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7529   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7529  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7529 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهْوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَرَجُلٌ يَقُولُ لَوْ أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا فَعَلْتُ كَمَا يَفْعَلُ»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا باب اور تحت الباب احادیث سے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید غیر مخلوق ہے اور جو بندہ تلاوت کرتا ہے یہ بندے کا فعل ہے، جو فعل ہونے کے سبب مخلوق ہے کیوں کہ فعل قاری کی نسبت ہے اور وہ مخلوق ہے تو لہٰذا اس کا فعل بھی مخلوق ہی ہو گا۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
آیت « ﴿وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ﴾ » [الروم: 22] میں ہر قسم کا کلام مراد ہے پس اس میں قرآن بھی داخل ہے، اور جو دوسری آیت امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش فرمائی ہے اس میں ہر قسم کی خیر شامل ہے اور اسی طرح سے قرآن کی تلاوت بھی اسی میں شامل ہے، پس یہ اس پر دلالت ہے کہ قرأت کرنا قاری کا فعل ہے اور بندے کا فعل بھی اس کی طرح مخلوق ہے۔

پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں، ان کا ترجمۃ الباب میں مطابقت ہونا اس قول کے ساتھ ہے:
«فهو يتلوه آناء الليل و آناء النهار .» [لب اللباب: 299/5]
یہ حقیر اور ناچیز طالب علم بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت کو داد دینی چاہیے، آپ رحمہ اللہ نے ان احادیث سے اس طرح سے باریک بینی سے اس مسئلے کو رفع کیا کہ آپ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ آپ خلق قرآن کے قائل ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث اور باب کے ذریعے اپنے اوپر لگائے گئے ان اتہامات اور الزامات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور واضح کر دیا کہ آپ رحمہ اللہ ہرگز خلق قرآن کے قائل نہیں ہیں، بلکہ آپ قرآن مجید کو اللہ کا کلام مانتے ہیں، اگر آپ غور کریں تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث «سالم عن ابيه» سے ذکر فرمائی ہے اس کی سند میں «امام على بن المديني» ہیں اور اسی کا دوسرا طرق کتاب فضائل القرآن (رقم: 5025) میں ذکر فرمایا ہے مگر اس طرق میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نہیں ہیں ؎۱، آخر اس میں کون سی بات یا راز چھپا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے اس موقع پر جبکہ قرآن غیر مخلوق ہے کو ثابت کرنے کے لیے علی بن المدینی رحمہ اللہ کی سند سے حدیث پیش فرمائی؟ اللہ تعالیٰ نے اس حقیر کے دل میں یہ بات اس موقع پر ڈالی ہے کہ «علي بن مديني» وہ ہیں جن کی حدیث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ترک کر دی تھیں، کیوں کہ ابتلاء کے ایام میں انہوں نے بھی جان بچانے کے لیے قرآن کو مخلوق کہہ دیا تھا، مگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ علی بن مدینی سے ایک لغزش ظاہر ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس سے توبہ کر لی تھی۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سند میں اس موقع پر ان کا نام لیا ہے اور ان کے طریق سے حدیث نقل فرمائی ہے اس کے بہت سارے مقاصد ہو سکتے ہیں، پہلا مقصد تو یہی دکھلائی دیتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ خلق قرآن کے عقیدے سے تائب ہو چکے تھے؎ ۲، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کلام اللہ ہے ثابت کرنے کے لیے ان سے حدیث نقل فرمائی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اس عقیدے کے قائل نہ تھے اور ان کے نزدیک ثقہ اور حجت تھے۔ دوسری بات یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنا بھی دفاع کر رہے ہوں کہ مجھ پر یہ صرف الزام ہے، میں خلق قرآن کا قائل نہیں ہوں، بلکہ قرآن کلام اللہ ہے۔

------------------
؎۱ قارئین کی آسانی اور مزید بات کو سمجھنے کے لیے ہم ان دونوں احادیث کی مکمل اسناد یہاں تحریر کر دیتے ہیں تاکہ بات آسانی سے سمجھی جائے۔ کتاب فضائل القرآن والی حدیث کی سند: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني سالم بن عبدالله، أن عبدالله بن عمر . . . . .» دوسری سند جسے کتاب التوحید میں ذکر فرمائی: «حدثنا على بن عبدالله، حدثنا سفيان، قال الزهري، عن سالم، عن أبيه . . . . .» ۔
؎ ۲ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں علی بن مدینی رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ «قال محمد بن مخلد: سمعت محمد بن عثمان بن أبى شيبة يقول: سمعت على بن المديني قبل أن يموت بشهرين يقول: القرآن كلام الله غير مخلوق.» [تهذيب التهذيب: 715/5]، محمد بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے دو ماہ قبل فرمایا تھا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔ یہ بات اس مسئلے پر واضح دلیل ہے کہ امام المحدث علی بن مدینی رحمہ اللہ خلق قرآن کے قائل نہ تھے، اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ باب کے تحت آپ سے حدیث نقل فرمائی ہے تاکہ قیامت تک آپ پر اٹھنے والے الزامات کو مٹا دیا جائے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 325   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7529  
حدیث حاشیہ:

عنوان میں ذکر کی گئی پہلی آیت کے مطابق زبانوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے، مختلف زمانوں میں ہر قسم کا کلام آ جاتا ہے۔
ان میں قرآن کریم کی تلاوت بھی ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔
اسی طرح دوسری آیت میں اچھے کام کرنے کی تلقین ہے۔
ان میں قراءت ذکر الٰہی اوردعا کرنا بھی ہے۔
ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءت کرنا قاری کا فعل ہے، جو اس کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہواہے۔

ذکر کی گئی احادیث میں قاری کی قراءت اوراس کے قیام کو اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو اس کا فعل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استدلال یہی ہے کہ قاری کی زبان کا حرکت کرنا، اس کے ہونٹوں کا ہلنا، پھراس کا قراءت کرنا سب اس کا فعل اور کسب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، البتہ جو کچھ پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
دوسرے الفاظ میں اسے یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے:
(الصوت صوت القارئ والكلام كلام الباري)
یعنی آواز تو قاری کی ہے اور اس کے ذریعے سے پڑھا جانے والا کلام اللہ رب العزت کا کلام ہے۔
ولله الحمد۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7529   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4209  
´حسد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا، تو وہ اسے دن رات پڑھتا ہے، دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، تو وہ اسے دن رات (نیک کاموں میں) خرچ کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4209]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (يقوم به)
کا مطلب اس پر عمل کرنا بھی ہے اورنماز کے قیام میں اس کی تلاوت بھی خواہ فرض نمازوں میں ہو یا نوافل و تہجد میں۔

(2)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
مسجدوں کے میناروں اور دیواروں کی زیب و زینت کی بجائے علماء اور طلباء پر خرچ کرنا زیادہ ثواب ہے۔
اسی طرح مسجد کے مفلس یا مقروض نمازی اور مسجد کے قرب و جوار میں رہنے والے مدد کے مستحق غریب آدمیوں کو کو دینا زیادہ ضروری ہے۔
مسجد سادہ رہے تو افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4209   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1936  
´حسد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیئے، ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے، دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اور وہ رات دن اس کا حق ادا کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1936]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حسد کی دوقسمیں ہیں:
حقیقی اور مجازی،
حقیقی حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت کے ختم ہوجانے کی تمنا وخواہش کرے،
حسد کی یہ قسم بالاتفاق حرام ہے،
اس کی حرمت سے متعلق صحیح نصوص وارد ہیں،
اسی لیے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے،
حسد کی دوسری قسم رشک ہے،
یعنی دوسرے کی نعمت کے خاتمہ کی تمنا کیے بغیر اس نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی تمنا کرنا،
اس حدیث میں حسد کی یہی دوسری قسم مراد ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1936   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:629  
629-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ رشک صرف دو طرح کے آدمیوں پر کیا جاسکتا ہے ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا ہواور وہ رات دن اس کے ساتھ قائم رہتا ہو(یعنی اسے پڑھتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو) ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطاکیا ہو اور وہ رات دن اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتارہتا ہو۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:629]
فائدہ:
حسد کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملی ہو، دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہو کہ اس کی یہ نعمت ختم ہو جائے۔ یہ سوچ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، اس سے بچنے کی تلقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے:
«‏‏‏‏آياكم والحسد فإن الحسد يأكل الحسنات كما تاكل النار الحطب» ‏‏‏‏ تم حسد کے مرض سے بہت بچو، حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جا تا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ [ابوداود: 4903]
مذکور حدیث میں حسد سے مراد رشک ہے یعنی یہ خواہش کرنا کہ جیسی نعمت اس کے پاس ہے ویسی مجھے بھی مل جائے یہ جائز ہے۔ خوبیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک دو خوبیاں ہیں سخاوت اور علم۔
یہ عمل بھی تب خوبیوں میں شمار ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خلوص کے ساتھ انجام دیے جائیں ورنہ شہرت کے لیے حاصل کیا جانے والا علم اور خرچ کیا جانے والا مال سخت ترین سزا اور شدید عذاب کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 629   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1894  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو خوبیاں قابل رشک ہیں، ایک اس آدمی کی خوبی جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عنایت فرمائی پھر وہ دن رات کے اوقات میں اس کے حق کو ادا کرنے میں لگا رہتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے اور وہ دن رات کے اوقات میں اسے (شریعت کے مطابق) خرچ کرتا رہتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1894]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دن اور رات کے اوقات میں قرآن مجید میں مشغول ہونے یا اس کے حق کی ادائیگی میں لگے رہنے کی مختلف صورتیں ہیں ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ اس کے درس و تدریس پڑھنے پڑھانے یا سیکھنے سکھانے میں مصروف رہتا ہے،
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس کی تبلیغ واشاعت میں مشغول رہتا ہے تیسری صورت یہ ہے کہ وہ پورے فکراور اہتمام کے ساتھ اس کی تعلیمات وہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہےچوتھی صورت یہ ہے کہ اسے جب بھی فرصت میسر آتی ہے نماز میں یا اس کے بغیر اس کی تلاوت میں لگا رہتا ہے اور مال کے خرچ کرنے کی صورت یہ ہے کہ وہ ہر جائز ضرورت کے وقت اس کا تعلق اس کی شخصیت خاندان سے ہویا عزیز و اقارب سے،
یا دین کی نشرواشاعت سے ہو یا اس کے تحفظ ودفاع سے یا مسلمانوں کی شخصی اور اجتماعی ضرورت سے،
ہرموقعہ اور محل پر بے دریغ خرچ کرتا رہتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1894   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1895  
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں کے علاوہ کسی پر رشک جائز نہیں، ایک وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب عنایت فرمائی، اور وہ دن رات کے اوقات میں اس میں لگا رہتا ہے اوردوسرا آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال وثروت سے نوازا اور وہ دن، رات کے اوقات میں اس سے صدقہ کرتا رہتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1895]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حسد:
اس کی دو صورتیں ہیں (1)
حقیقی:
جس میں حسد کرنے والا،
صاحب نعمت سے،
اسے حاصل شدہ نعمت کے زائل ہونے اور چھننے کی تمنا کرتا ہے کہ اس سے چھن جائے پھر مجھے ملے یا نہ ملے بہرحال اس کے پاس نہ رہے۔
(2)
مجازي:
جس کو غبطہ اور رشک بھی کہتے ہیں،
جس میں دوسرے سے نعمت کے زائل ہونے یا چھننے کی آرزو اور خواہش نہیں ہوتی،
بلکہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ مجھے بھی یہ نعمت حاصل ہو تاکہ میں بھی یہ کام کر سکوں،
پہلی صورت بالاتفاق منع ہے اور دوسری صورت قابل قدر ہے۔
اور اس حدیث میں یہی مقصود ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1895