صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
35. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح) ارشاد ”یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں“۔
حدیث نمبر: 7493
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَمَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا خَرَّ عَلَيْهِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ يَحْثِي فِي ثَوْبِهِ، فَنَادَى رَبُّهُ: يَا أَيُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَى، قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، وَلَكِنْ لَا غِنَى بِي عَنْ بَرَكَتِكَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایوب علیہ السلام کپڑے اتار کر نہا رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیوں کا ایک دل ان پر آ کر گرا اور آپ انہیں کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ ان کے رب نے انہیں پکارا کہ اے ایوب! کیا میں نے تجھے مالدار بنا کر ان ٹڈیوں سے بےپروا نہیں کر دیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں بیشک تو نے مجھ کو بےپروا مالدار کیا ہے مگر تیرے فضل و کرم اور رحمت سے بھی میں کہیں بےپروا ہو سکتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7493 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7493
حدیث حاشیہ:
صاف ظاہر ہے کہ اللہ پاک نے خود حضرت ایوب سے خطاب فرمایا اورکلام کیا اور یہ کلام بآواز بلند ہے یہ کہنا کہ اللہ کےکلام میں حروف اور آواز نہیں ہے کس قدرکم عقلی اور گمراہی کی بات ہے آج کل بھی ایسے لوگ ہیں جوجہمیہ و معتزلہ جیسا عقیدہ رکھتے ہیں۔
اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7493
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7493
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو ندا دی اور ان سے خطاب فرمایا۔
یہ خطاب بآواز بلند تھا۔
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام آواز اور حروف کے بغیر ہے وہ کس قدر کم عقل اور گمراہ ہیں آج کل بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو جہمیہ اور متعزلہ جیسا عقیدہ رکھتے ہیں۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علاوہ بھی کلام کیا ہے اور وہ جب چاہے، جیسے چاہے، جس سے چاہے ہم کلام ہوتا ہے۔
وہ قادر مطلق ہے، اسے کوئی عاجز نہیں کر سکتا۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7493
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 279
´جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا اور جس نے کپڑا باندھ کر غسل کیا اور کپڑا باندھ کر غسل کرنا افضل ہے`
«. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا فَخَرَّ عَلَيْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ أَيُّوبُ يَحْتَثِي فِي ثَوْبِهِ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ: يَا أَيُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَى؟ قَالَ: بَلَى وَعِزَّتِكَ، وَلَكِنْ لَا غِنَى بِي عَنْ بَرَكَتِكَ "، وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَيْنَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا . . . .»
”. . . ابوہریرہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ (ایک بار) ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ پر گرنے لگیں۔ ایوب علیہ السلام انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اتنے میں ان کے رب نے انہیں پکارا۔ کہ اے ایوب! کیا میں نے تمہیں اس چیز سے بےنیاز نہیں کر دیا، جسے تم دیکھ رہے ہو۔ ایوب علیہ السلام نے جواب دیا ہاں تیری بزرگی کی قسم۔ لیکن تیری برکت سے میرے لیے بے نیازی کیونکر ممکن ہے۔ اور اس حدیث کو ابراہیم نے موسیٰ بن عقبہ سے، وہ صفوان سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ ابوہریرہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس طرح نقل کرتے ہیں ” جب کہ ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے “ (آخر تک)۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ:: 279]
� تشریح:
ابراہیم بن طہمان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے نہیں سنا تو یہ تعلیق ہو گئی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کو نسائی اور اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 279
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 279
279. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ایک مرتبہ حضرت ایوب ؑ ننگے نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں۔ حضرت ایوب ؑ انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں آواز دی:” اے ایوب! جو تم دیکھ رہے ہو، کیا میں نے تمہیں ان سے بے نیاز نہیں کیا؟ حضرت ایوب نے عرض کیا: مجھے تیری عزت کی قسم! کیوں نہیں، مگر میں تیرے کرم سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔“ اس حدیث کو ابراہیم، موسیٰ بن عقبہ سے، وہ صفوان سے وہ عطاء بن یسار سے، وہ حضرت ابوہریرہ سے، وہ نبی ﷺ سے اس طرح بیان کرتے ہیں: ”ایک دفعہ ایوب ؑ ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:279]
حدیث حاشیہ:
ابراہیم بن طہمان سے امام بخاری ؒ نے نہیں سنا تو یہ تعلیق ہوگئی۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کو نسائی اور اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 279
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 409
´غسل کے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایوب علیہ السلام ننگے غسل کر رہے تھے ۱؎ کہ اسی دوران ان کے اوپر سونے کی ٹڈی گری، تو وہ اسے اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے، تو اللہ عزوجل نے انہیں آواز دی: ایوب! کیا میں نے تمہیں بے نیاز نہیں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، کیوں نہیں میرے رب! لیکن تیری برکتوں سے میں بے نیاز نہیں ہو سکتا۔“ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 409]
409۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ایوب علیہ السلام کے ننگے نہانے سے یہ لازم نہیں آتاکہ وہ بے پردہ نہا رہے تھے، بلکہ وہ ایک محفوظ اور بند جگہ میں نہا رہے تھے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ پیشاب اور جماع وغیرہ کے وقت بھی تو شرم گاہ پر پردہ نہیں ہوتا، مگر چونکہ کسی کے دیکھنے جھانکنے کا خطرہ نہیں ہوتا، لہٰذا جائز ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ سمجھ لیجیے۔
➋انسان جس قدر بھی مالدار ہو جائے اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے صحت، ہدایت اور برکت مانگتے رہنا چاہیے کہ یہ انسان اور بندے کی شان ہے۔ بے نیاز تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی طرح معافی کا سوال بھی ہر وقت جاری رہنا چاہیے، غلطی ہو یا نہ۔ اللہ تعالیٰ کو مانگنے والا ہی اچھا لگتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 409
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1091
1091- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: سیدنا ایوب علیہ السلام کی طرف سونے کی بنی ہوئی کچھ ٹڈیاں بھیجی گئیں، تو انہوں نے اپنی چادر کو پھیلایا اور انہیں اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے، تو ندا کی گئی: ”اے ایوب! ہم نے جو تمہیں عطا کیا ہے وہ تمہارے لیے کافی نہیں ہے؟“ تو انہوں نے عرض کی: ”اے میرے پروردگار! تیرے فضل سے بے نیاز کون ہوسکتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1091]
فائدہ:
اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا ایوب علیہ السلام پر مصائب اور تکالیف کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کیے اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مشکلات کے بعد اللہ تعالیٰ ضرور کرم کرتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1089
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:279
279. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”ایک مرتبہ حضرت ایوب ؑ ننگے نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں۔ حضرت ایوب ؑ انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں آواز دی:” اے ایوب! جو تم دیکھ رہے ہو، کیا میں نے تمہیں ان سے بے نیاز نہیں کیا؟ حضرت ایوب نے عرض کیا: مجھے تیری عزت کی قسم! کیوں نہیں، مگر میں تیرے کرم سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔“ اس حدیث کو ابراہیم، موسیٰ بن عقبہ سے، وہ صفوان سے وہ عطاء بن یسار سے، وہ حضرت ابوہریرہ سے، وہ نبی ﷺ سے اس طرح بیان کرتے ہیں: ”ایک دفعہ ایوب ؑ ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:279]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
”تم میں سے جب کوئی غسل کرے تواسے چاہیے کہ چھپ کرنہائے۔
“ (سنن أبي داود، الحمام، حدیث: 4012)
اس حدیث کے پیش نظر محدث ابن ابی لیلیٰ ؒ کا موقف ہے کی خلوت میں ننگے نہانا جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ان کی تردید میں اس عنوان کو قائم کیا ہے کہ خلوت میں ننگے نہانا جائز ہے، البتہ ستر چھپا کر غسل کرنا بہتر ہے، کیونکہ خلوت میں اگرچہ کسی انسان کی موجودگی نہیں جس سے شرم آئے، مگر اللہ تعالیٰ سے شرم ہونی چاہیے۔
جب انسانوں سے حیا کے پیش نظر ننگا نہانا درست نہیں تو اللہ تعالیٰ سے تو بدرجہ اولیٰ شرمانا چاہیے۔
اس کے لیے امام بخاری ؒ نےحضرت بہز بن حکیم ؓ کی روایت کا حوالہ دیا ہے، ان کے دادا حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے خلوت میں ستر کھولنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
“ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2769)
اب سوال پیداہوتا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظرتو خلوت میں بھی ننگے نہانے کا جواز نہیں تو امام بخاری ؒ نے ننگے نہانے کے موقف کو کیوں اپنا یا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس کے جواز کے لیے دو واقعات بیان فرمائے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ خلوت میں ننگے ہوکرنہائے تھے، اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے بھی برہنہ غسل فرمایا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سابقہ انبیاء علیہم السلام کے عمل کو نقل فرمایا اور اس پر کسی قسم کا انکار نہیں فرمایا۔
اگر ہماری شریعت میں کوئی مختلف حکم ہوتا تو آپ اس پر ضرور تنبیہ فرمادیتے، اس لیے یہ سکوت، محل بیان کا سکوت ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ برہنہ غسل میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
﴿ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ ﴾ ”ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت یاب بنایاہے لہذا آپ ان کی اقتدا کریں۔
“ (الأنعام 90/6)
اس لیے ان جلیل القدرانبیاء علیہم السلام کا عمل قابل اقتدا اور لائق اتباع ہے۔
(فتح الباري: 501/1)
2۔
کھلی فضا یا ایسے وسیع مکان میں جہاں لوگوں کے آنے کا احتمال نہ ہو، برہنہ غسل کرنا معصیت نہیں بلکہ صرف جائز ہے۔
بعض انتہاپسند حضرات غسل خانے میں بھی تہ بند باندھ کر غسل کرتے ہیں۔
ہماےنزدیک یہ بے جا تشدد ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں، کیونکہ غسل خانہ خود ایک تستر(پردے)
کی صورت ہے۔
3۔
ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نافرمان تھے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے ننگے نہاتے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کے وادی تیہ میں قیام کے دوران میں پیش آیا جہاں عورتیں اورمکانات نہ تھے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شریعت میں ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہو کر نہانا جائز تھا۔
اگرآپ کی نافرمانی کرتے ہوئے ایسا کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان کو روکنا ضرور منقول ہوتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ہاں ایسا کرنا افضل تھا۔
(فتح الباري: 501/1)
4۔
موسیٰ علیہ السلام کے اس قصے سے معلوم ہوا کہ علاج یا عیب سے براءت کے پیش نظر دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے، مثلاً:
زوجین میں سے کوئی دوسرے کے متعلق فسخ نکاح کے لیے برص کا دعویٰ کرے تو اس کی تحقیق کے لیے دیکھنا درست ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی خلقت واخلاق کے لحاظ سے انتہائی کامل ہوتے ہیں اور جو کوئی ان کی طرف کسی نقص خلقی یا عیب خلقی منسوب کرے گا وہ انھیں ایذا دینے والوں میں سے ہوگا اور اس کے ارتکاب پر کفر کااندیشہ ہے۔
(فتح الباري: 532/6)
5۔
ابن بطال نے لکھا ہے کہ واقعہ ایوب سے عریاں ہوکر غسل کرنے کا جواز معلوم ہوا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو سونے کی ٹڈیاں جمع کرنے پر ملامت کی، مگرعریاں غسل کرنے پر کوئی عتاب نہیں فرمایا۔
(شرح ابن بطال: 393/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 279
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3391
3391. حضرت ابوہریره ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایک دفعہ حضرت ایوب ؑ برہنہ غسل کررہے تھے کہ ان پر سونے کی بہت سی ٹڈیاں گریں۔ وہ انھیں اپنےکپڑے میں سمیٹنے لگے تو ان کے رب نے انھیں آواز دی: اے ایوب! کیا میں نے تجھے ان چیزوں سے بے پرواہ نہیں کردیا۔ جنھیں تم دیکھ رہے ہو؟ حضرت ایوب ؑنے عرض کیا: کیوں نہیں، اے میرے رب! لیکن تیری برکت سے کس طرح بے پرواہ ہوسکتا ہوں؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3391]
حدیث حاشیہ:
حضرت ایوب ؑ نے جب اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس کا ذکر امام بخاری ؒ نے عنوان میں کیا ہے تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو چنانچہ انھوں نے جب حکم الٰہی کی تعمیل کی تو پانی کا چشمہ ابل پڑا۔
جس سے انھوں نے ننگے بدن غسل کیا۔
جلدی بیماری ختم ہو گئی اور اس پانی کو نوش کرنے سے آپ کی جوانی اور حسن و جمال لوٹ آیا۔
آپ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہو گئے۔
پانی پینے سے پیٹ کی سب بیماریاں جاتی رہیں۔
پھر مال و دولت کی فراوانی ہوئی جیسا کہ اس روایت میں ہے۔
”اللہ تعالیٰ نے ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش برسادی۔
“ واقعی اللہ تعالیٰ ارحم الرحمین ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3391