Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
24. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ قیامت میں) ارشاد ”اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے، یا دیکھ رہے ہوں گے“۔
حدیث نمبر: 7446
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ: رَجُلٌ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ لَقَدْ أَعْطَى بِهَا أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى وَهُوَ كَاذِبٌ، وَرَجُلٌ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ كَاذِبَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، وَرَجُلٌ مَنَعَ فَضْلَ مَاءٍ، فَيَقُولُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: الْيَوْمَ أَمْنَعُكَ فَضْلِي كَمَا مَنَعْتَ فَضْلَ مَا لَمْ تَعْمَلْ يَدَاكَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف رحمت سے دیکھے گا۔ ایک وہ جس نے کسی سامان کے متعلق قسم کھائی کہ اسے اس نے اتنے میں خریدا ہے، حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم اس لیے کھائی کہ کسی مسلمان کا مال ناحق مار لے اور تیسرا وہ شخص جس نے ضرورت سے فالتو پانی مانگنے والے کو نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے کہے گا کہ جس طرح تو نے اس زائد ضرورت، فالتو چیز سے دوسرے کو روکا جسے تیرے ہاتھوں نے بنایا بھی نہیں تھا، میں بھی تجھے اپنا فضل نہیں دوں گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7446 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7446  
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس سے ہوئی کہ قیامت کےدن اللہ تعالی کافروں اورگنہگاروں کواپنے دربار عالیہ میں شرف باریابی نہیں دے گا۔
خاص طورپریہ تین قسم کےگنہگار جن کاذکریہاں ہوا ہے اللھم لاتجعلنا منھم آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7446   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7446  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کرنے کی سنگینی بیان ہوئی ہےاگرچہ وہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، ایک حدیث میں ہے۔
\"جوشخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال غصب کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کو حرام اور جہنم کو واجب کردیا ہے۔
\"لوگوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نے فرمایا:
\"اگرچہ وہ معمولی چیز ہو؟ آپ نے فرمایا:
\"اگرچہ وہ مسواک ہی ہو۔
\"(صحیح مسلم التوبہ حدیث: 353(137)
۔
\"(والمعجم الکبیرللطرانی2/192)
مستدرک حاکم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
\"اگرچہ وہ مسواک ہو اگرچہ وہ مسواک ہو۔
(المستدرک للحاکم 4/295)

دوسری حدیث کے مطابق زائد پانی کو روکنا بھی سخت جرم ہے۔
اس سے مراد وہ پانی ہے جو لوگوں کی کوشش اور ان کے اعتبار سے حاصل نہ ہوا ہو جیسا کہ چشموں اور سیلاب کا پانی ہوتا ہے۔
کنوؤں اور نہروں کا پانی مراد نہیں کیونکہ یہ پانی لوگوں کی کوشش سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے روکنے میں کوئی حرج نہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے قیامت کے دن دیدار الٰہی کا ثبوت فراہم کیا ہے ان کے مطابق کسی کے مال پر ناجائز قبضہ جمانے والا جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔
یہ ملاقات دیکھنے اور روبروہونے کو متضمن ہےہمارے اسلاف نے ملاقات کے لفظ سے دیدار الٰہی کے لیے دلیل لی ہے جیسا کہ پہلے ثابت ہو چکا ہے حدیث میں مذکورہ آیت کریمہ سے اس حدیث کی تفسیر بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اس سے ہم کلام ہونے اور اسے دیکھنے سے رکاوٹ کا باعث ہے اور اس کی رضا مندی اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا ذریعہ ہے اس بنا پر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے اسباب کو عمل میں لائے جو اس کی رضا اور خوشی کا باعث ہوں اور ایسے اعمال سے گریز کرے۔
جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہوں۔
\"3۔
آیت کریمہ میں جسے دیکھنے کی نفی ہےاس سے مراد نظر رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان اور فیضان کا تقاضا کرتی ہے اللہ تعالیٰ کا ایسے لوگوں سے ہم کلام نہ ہونا اور انھیں نظر رحمت سے نہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو سوال اور حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ان سے منہ پھیرلینا اس پر مستزاد ہوگا قبل ازیں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ تم میں سے ہرایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ براہ راست گفتگو کرے گا اور درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہو گا لیکن مذکورہ احادیث میں بیان شدہ مجرم حدیث عدی سے مستثنیٰ ہوں گے ان سے کلام نہیں کیا جائے گا۔
اور نہ اللہ تعالیٰ انھیں دیکھنا ہی پسند کرے گا۔w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7446   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 299  
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: تین شخص ہیں، اللہ ان سے بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، ایک آدمی جس نے مسلمان کا مال دبانے کے لیے عصر کے بعد قسم اٹھائی (اور اس کا مال دبا لیا) حدیث کا باقی حصہ اعمش کی حدیث جیسا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:299]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
اقْتَطَعَ،
قَطْعٌ:
سے ہے،
مار لینا،
کاٹ لینا یعنی دبا لینا۔
فوائد ومسائل:
دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا اور اس کے لیے جھوٹی قسم کھانا انتہائی شدید جرم ہے اور آج کل (قبضہ گروپوں)
کا انحصار اسی حرکت پر ہے،
بلکہ اس کے ساتھ اورجرائم بھی جمع ہوجاتے ہیں۔
(دھونس،
دھاندلی اور اسلحہ کا استعمال)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 299   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2369  
2369. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت ہی سے دیکھے گا: ایک وہ شخص جس نے سامان فروخت کرتے وقت قسم اٹھائی کہ اس کی قیمت مجھے ا س سے کہیں زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اس بات میں جھوٹا تھا۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے۔ تیسرا وہ شخص جوفالتو پانی سے لوگوں کو منع کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: آج کے دن میں تجھ سے اپنا فضل روک لیتا ہوں جیسا کہ تو نے اس چیز کا فضل روکا تھا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔ علی نے کہا: سفیان نے ہمیں کئی مرتبہ عمرہ کے واسطے سے بیان کیا اور عمرو، ابوصالح سے بیان کرتے ہیں جبکہ ابو صالح اس کو بغیر کسی واسطے کے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2369]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں بیان کردہ مضمون نمبر3سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ ضرورت سے زیادہ پانی روکنے پر یہ سزا ملی تو معلوم ہوا کہ بقدر ضرورت اس کو روکنا جائز تھا۔
اور وہ اس کا حق رکھتا تھا۔
بعض نے کہا یہ جو فرمایا جو تیرا بنایا ہوا نہ تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ پانی اس نے اپنی محنت سے نکالا ہوتا، جیسے کنواں کھودا ہوتا یا مشک میں بھر کر لایا ہوتا تو وہ اس کا حق دا رہوتا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2369   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2369  
2369. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت ہی سے دیکھے گا: ایک وہ شخص جس نے سامان فروخت کرتے وقت قسم اٹھائی کہ اس کی قیمت مجھے ا س سے کہیں زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اس بات میں جھوٹا تھا۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے۔ تیسرا وہ شخص جوفالتو پانی سے لوگوں کو منع کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: آج کے دن میں تجھ سے اپنا فضل روک لیتا ہوں جیسا کہ تو نے اس چیز کا فضل روکا تھا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔ علی نے کہا: سفیان نے ہمیں کئی مرتبہ عمرہ کے واسطے سے بیان کیا اور عمرو، ابوصالح سے بیان کرتے ہیں جبکہ ابو صالح اس کو بغیر کسی واسطے کے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2369]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق تیسرے شخص کو فالتو پانی سے منع کرنے پر عتاب ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ اصل پانی کا وہ حق دار تھا، اگر وہ اصل پانی کو بقدر ضرورت روک لے تو وہ حق بجانب ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔
بعض حضرات نے اس طرح مناسبت پیدا کی ہے کہ اللہ کی طرف سے عتاب ہوا کہ پانی تیرا پیدا کردہ نہیں تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر پانی کسی نے اپنی محنت سے پیدا کیا ہو جیسا کہ کنواں کھودا جاتا ہے یا مشکیزوں میں بھرا جاتا ہے تو وہ اس کا حق دار ہو گا۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ عام طور پر لوگ اسی وقت قسم اٹھاتے ہیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت فرشتوں کے آنے جانے کا وقت ہے۔
وقت کی عظمت سے گناہوں میں بھی سنگینی آ جاتی ہے۔
(3)
حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے سند کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سفیان اس روایت کو اکثر مرسل بیان کرتے ہیں جبکہ گزشتہ سلسلۂ روایت میں ان سے اس کا موصول ہونا بھی ثابت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2369