Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
20. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ”اللہ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں“۔
وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ لَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ.
‏‏‏‏ اور عبیداللہ بن عمرو نے عبدالملک سے روایت کی کہ اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں۔
حدیث نمبر: 7416
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّبُوذَكِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ:" لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ؟ وَاللَّهِ لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي، وَمِنْ أَجْلِ غَيْرَةِ اللَّهِ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ بَعَثَ الْمُبَشِّرِينَ وَالْمُنْذِرِينَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ وَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ وَعَدَ اللَّهُ الْجَنَّةَ"، وَقَالَ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَمْروِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، لَا شَخْصَ أَغْيَرُ مِنَ اللهِ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وراد نے اور ان سے مغیرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن مار دوں پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے؟ بلاشبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے غیرت ہی کی وجہ سے فواحش کو حرام کیا ہے۔ چاہے وہ ظاہر میں ہوں یا چھپ کر اور معذرت اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں، اسی لیے اس نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے اور تعریف اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں، اسی وجہ سے اس نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7416 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7416  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ متصل روایت میں ذات باری تعالیٰ کے لیے شخص کا اطلاق نہیں ہوا بلکہ انھوں نے عبید اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ لفظ نقل کیا ہے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیان کردہ اس روایت میں تین مرتبہ یہ لفظ بیان کیا ہے۔
(صحیح مسلم، اللعان، حدیث: 3764(1499)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد راوی حدیث عبیداللہ القواریری کے حوالےسے لکھا ہے کہ انھوں نے کہا:
فرقہ جہمیہ پر اس حدیث سے زیادہ شدید اور سخت ترین حدیث اور کوئی نہیں کیونکہ اس میں لفظ شخص کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر کیا گیا ہے جبکہ یہ فرقہ اسے تسلیم نہیں کرتا۔
(مسند أحمد: 248/4)

ہمیں شارحین سے شکوہ ہے کہ انھوں نے کتاب التوحید کی تشریح کرتے ہوئے صحیح بخاری کا حق ادا نہیں کیا ہے چنانچہ ابن بطال مالکی اشاعرہ کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس لفظ کا اطلاق ذات باری تعالیٰ کے لیے صحیح نہیں کیونکہ حدیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں ہے۔
(شرح صحیح البخاری لابن بطال: 442/10)
ابن بطال کا یہ صرف دعوی ہے کیونکہ اس اجماع کی امت کے مقتدمین اور سابقہ اہل علم میں سے کسی نے بھی صراحت نہیں کی البتہ جو حضرات اہل کلام سے متاثر ہیں انھوں نے ضرور اس طرح کی باتیں کی ہیں چنانچہ ایک دوسرے شارح صحیح بخاری علامہ خطابی نے لکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ شخص کا اطلاق صحیح نہیں کیونکہ شخص وہ ہے جو مرکب جسم رکھتا ہو لہٰذا اس طرح کی صفت اللہ کے شایان شان نہیں ہے۔
جن احادیث میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے وارد ہے وہ راویوں کی تصحیف کا نتیجہ ہے۔
(اعلام الحدیث: 2344/4)

واضح رہے کہ جب علمی قواعد کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات ثابت ہو جائے تو اسے قبول کرنا ضروری ہے خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا اعمال سے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ لفظ ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے جیسا کہ اس سے پہلے وضاحت ہو چکی ہے۔
ایسے حالات میں اجماع کے خود ساختہ دعوے کی آڑ میں اس کا انکار کرنا یا اسے راویوں کی تصحیف قرار دینا مومن کی شان کے خلاف ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جزم ووثوق کے ساتھ اس لفظ کا اطلاق ذات باری تعالیٰ پر برقراررکھا بلکہ احتمال کے طور پر اسے بیان کیا ہے جبکہ لفظ شے کے متعلق صراحت کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ پر اس کا اطلاق صحیح ہے جیسا کہ آئندہ باب میں آئے گا۔
(فتح الباري: 492/13)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے اس موقف سے ہمیں اتفاق نہیں کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز اور اسلوب کے مطابق لکھا ہے۔
اس کی صحیح احادیث سے تائید ہوتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7416   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3764  
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اگر میں کسی مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو بغیر اس کے تلوار کو چوڑائی میں کروں یا اس سے درگزر کروں، اس کی گردن اڑا دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کا قول پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت و تعجب ہے؟ اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں، اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3764]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت و حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت و حقیقت ہی کی طرح جاننا ممکن نہیں ہے۔
اس لیے ہم صفت غیرت اور صفت حب سے اللہ تعالیٰ کو متصف مانیں گے لیکن اس کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں گفتگو نہیں کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی غیرت اور حب اس کی شان ہی کے مطابق ہو گی۔

اگر کوئی انسان کسی مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ زنا کرتے دیکھتا ہے اور اس کو قتل کر دیتا ہے تو یہ بات اللہ کے ہاں تو اگرزانی شادی شدہ ہو عذر مقبول ہوگا،
اور آخرت میں اس پر مواخذہ نہیں ہوگا،
لیکن دنیوی قانون اور ضابطہ کی روسے جمہور فقہاء کے نزدیک اس کو قتل کردیا جائے گا۔
الا یہ کہ وہ زنا کے ثبوت پر چار گواہ پیش کر دے یا زانی کے ورثاء اس بات کا اعتراف کریں کہ اس نے اس حرکت کا ارتکاب واقعی کیا ہے۔
اور اگر گواہ دو پیش کرے تو جمہور کے نزدیک پھر بھی اس سے قصاص لیا جائے گا۔
لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس صورت میں قصاص نہیں ہوگا اور بعض حضرات کے نزدیک امام کی اجازت کے بغیر قتل کرنے کے باعث ہر صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
اور بعض کے نزدیک اگر قرائن سے اس کا سچا ہونا ثابت ہو جائے،
تو پھر تغریر کافی ہو گی قتل نہیں کیا جائے گا۔

(ولا شخصَ أحبُّ إليه العذر من الله)
اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ کسی کے پاس عذر اور بہانہ یا حجت نہ ہو۔
جس کی بنا پروہ معذور قرار پائے۔
اس لیے انبیاء ورسل کو معبوث کیا ہے اللہ تعالیٰ کے شخص کا استعمال،
اس کی شان کے مطابق ہے،
جیسا کہ انسان کی شخصیت اس کی شان کے مطابق ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3764   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6846  
6846. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے فرمایا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (مصروف) دیکھوں تو درگزر کیے بغیر اسے تلوار سے قتل کر دوں گا۔ نبی ﷺ کو ان کے یہ جذبات پہنچنے تو آپ نے فرمایا: کیا تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ میں اس بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6846]
حدیث حاشیہ:
بظاہر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس غیرت میں آکر اگر وہ اس زانی کو قتل کر دے تو عنداللہ ماخوذ نہ ہوگا۔
واللہ أعلم بالصواب۔
سند میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے، ان کی کنیت ابوثابت ہے، انصاری ہیں ساعدی خزرجی۔
بارہ نقیبوں میں سے جو بیعت عقبہ اولیٰ میں خدمت نبوی میں مدینہ سے اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے۔
انصار میں ان کو درجہ سیادت حاصل تھا۔
عہد فاروقی پر اڑھائی برس گزرنے پر شام کے شہر حوزان میں جنات کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6846   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6846  
6846. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے فرمایا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (مصروف) دیکھوں تو درگزر کیے بغیر اسے تلوار سے قتل کر دوں گا۔ نبی ﷺ کو ان کے یہ جذبات پہنچنے تو آپ نے فرمایا: کیا تم سعد کی غیرت سے تعجب کرتے ہو؟ میں اس بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیور ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6846]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ عینی رحمہ اللہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث کا مدلول اس طور پر ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے اور اسے قتل کر دے تو اس پر قصاص واجب ہے کیونکہ اگرچہ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے لیکن اس نے حدود میں شہادت کو ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کر کے اسے قتل کر دے۔
صرف دعویٰ کرنے سے خون معاف نہیں ہوگا۔
(عمدة القاري: 122/16) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے دور حکومت میں ایک خاوند نے کسی اجنبی کو اپنی بیوی کے ہمراہ مصروف کار پایا تو اس نے دونوں کو قتل کر دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے گورنر کو خط لکھا کہ اسے قتل کر دیا جائے، نیز خفیہ طور پر ہدایت دی کہ اس کے اہل خانہ کو بیت المال سے دیت ادا کی جائے۔
(المصنف لعبدالرزاق، حدیث: 17921، وفتح الباري: 215/12)
احناف کے ہاں اس کی کچھ تفصیل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی یا لونڈی زانی سے موافقت کرتی ہے تو مرد وعورت دونوں کو قتل کر دے۔
(عمدة القاري: 122/16) (3)
ہمارے رجحان کے مطابق اگر قاتل گواہوں سے یہ ثابت کر دے کہ اجنبی مرد اس کی بیوی سے بدکاری کر رہا تھا یا ایسی حالت میں مارے کہ دونوں اس فعل بد میں مصروف تھے تو ایسی حالت میں قصاص ساقط ہو جانا چاہیے۔
بہرحال معاملہ خاصا پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6846