تخریج: «أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائكم، حديث:6108، ومسلم، الأيمان، باب النهي عن الحلف بغير الله تعالي، حديث:1646، وحديث أبي هريرة: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3249، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3797، 3798، وسنده صحيح.»
تشریح:
1. یہ حدیث دلیل ہے کہ غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا حرام ہے۔
جامع الترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
“ (جامع الترمذي‘ النذور والأیمان‘ حدیث:۱۵۳۵) امام ابوداود رحمہ اللہ نے یہی روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے:
”جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔
“ (سنن أبي داود‘ الأیمان والنذور‘ حدیث:۳۲۵۱) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے نام کی قسم کھانا اس کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے اور عظمت فی الحقیقت صرف اللہ کے لیے ہے۔
2. قدیم ترین زمانے سے لوگوں کا یہ عقیدہ چلا آرہا ہے کہ جس کے نام کی قسم کھائی جائے اس کا قسم کھانے والے پر غلبہ ہوتا ہے اور وہ مافوق الاسباب بھی نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتا ہے‘ چنانچہ جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری کرتا ہے تو جس کی قسم کھائی گئی ہوتی ہے وہ خوش ہوتا اور اسے نفع دیتا ہے، اور جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری نہیں کرتا تو وہ اس پر ناراض ہوتا اور اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
بلاشبہ ایسا عقیدہ غیراللہ کے بارے میں رکھنا کھلا شرک و کفر ہے اور غیر اللہ کے نام کی قسم اور غیراللہ کے نام کی نذر شرک ہی کی ایک صورت ہے‘ لہٰذا جب کوئی اس اعتقاد کے ساتھ قسم کھائے تو اس نے حقیقت میں شرک کا ارتکاب کیا، اور جب قسم کھائے اور یہ اعتقاد و نظریہ نہ ہو تو پھر اس نے کم از کم شرک کی ایک ظاہری صورت کا ارتکاب ضرور کر لیا ہے۔
3. شریعت نے شرک کی ظاہری صورتوں سے بھی اسی طرح منع کیا ہے جیسے حقیقی شرک سے منع فرمایا ہے۔