Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
13. بَابُ السُّؤَالِ بِأَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى، وَالاِسْتِعَاذَةِ بِهَا:
باب: اللہ تعالیٰ کے ناموں کے وسیلہ سے مانگنا اور ان کے ذریعہ پناہ چاہنا۔
حدیث نمبر: 7398
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالُوا:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَا هُنَا أَقْوَامًا حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِشِرْكٍ يَأْتُونَا بِلُحْمَانٍ لَا نَدْرِي يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَمْ لَا؟، قَالَ: اذْكُرُوا أَنْتُمُ اسْمَ اللَّهِ وَكُلُوا"، تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، وَأُسَامَةُ بْنُ حَفْصٍ.
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوخالد احمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ہشام بن عروہ سنا، وہ اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے بیان کرتے تھے کہ ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! وہاں کے قبیلے ابھی حال ہی میں اسلام لائے اور وہ ہمیں گوشت لا کر دیتے ہیں۔ ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ ذبح کرتے وقت انہوں نے اللہ کا نام بھی لیا تھا یا نہیں (تو کیا ہم اسے کھا سکتے ہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس پر اللہ کا نام لے کر اسے کھا لیا کرو۔ اس روایت کی متابعت محمد بن عبدالرحمٰن دراوردی اور اسامہ بن حفص نے کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7398 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7398  
حدیث حاشیہ:
برکت اور حلت اور مدد کے لیے اللہ کا نام استعمال کرنا ثابت ہوا‘ یہی باب سے مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7398   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7398  
حدیث حاشیہ:

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اور ابھی ذبح وغیرہ کے احکام سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں، ممکن ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیتے ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمانوں کے متعلق اچھا گمان کرنا چاہیے کہ وہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہوں گے تاہم استعمال کرنے ولے کوچاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کانام لے کر اسے کھالے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ بسم اللہ پڑھ کر کھا لینا جائز ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
جس پر (ذبح کے وقت)
اللہ کا نام ذکر نہ کیا گیا ہو اسے مت کھاؤ۔
(الأنعام 121)

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کے طفیل اللہ تعالیٰ کو پکارنے کا یاک اور انداز بیان ہوا ہے کہ ذبح کرتے اور کھاتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا چاہیے، اس میں خیروبرکت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے لیے مذکورہ حدیث بیان کی ہے۔
احکام ذبح بیان کرنا مقصود نہیں ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7398   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4441  
´نامعلوم اور گمنام شخص کے ذبیحہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی (دیہاتی) ہمارے پاس گوشت لاتے تھے، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ آیا انہوں نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اس پر اللہ کا نام لو اور کھاؤ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4441]
اردو حاشہ:
(1) مسلمانوں اور اہل کتاب میں سے کسی بھی شخص کا ذبح کیا ہوا جانور حلال سمجھا جائے گا اور شک و شبہ ہونے کی صورت میں گوشت کھاتے ہوئے اللہ کا نام لینے سے شک و شبہ بھی زائل ہو جائے گا۔ لیکن سکھ، مجوسی اور مشرک وغیرہ کا ذبیحہ کھانا قطعاً جائز نہیں۔
(2) مسلمانوں کے شہروں اور بازاروں وغیرہ میں پائی جانے والی اشیاء حلال سمجھی جائیں گی الا یہ کہ ان کی حرمت کی کوئی صریح دلیل موجود ہو، محض شک کی بنا پر کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کے کلام سے ملاحظہ فرمائیے۔ وہ فرماتے ہیں: غیر اسلامی ملکوں کے بازاروں میں جو گوشت بک رہا ہوتا ہے، اگر اس کی بابت یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اہل کتاب (یہودیوں یا عیسائیوں) کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت ہے تو وہ مسلمانوں کے لیے (اس وقت تک) حلال ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ (جس جانور کا وہ گوشت ہے) اس کو غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا تھا۔ یہ اس لیے کہ قرآنی نص کی رو سے تو اس کی اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہے، لہٰذا اس صورت میں، قرآن کریم کی بیان کردہ اصل (حلت) سے اس وقت تک عدول نہیں کیا جائے گا جب تک کوئی ایسی پختہ دلیل نہ مل جائے جو اس (گوشت) کے حرام ہونے کا تقاضا کرتی ہو۔ اور اگر وہ گوشت (یہود و نصاریٰ کے علاوہ) دیگر کافروں کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کا ہو تو وہ مسلمانوں پر حرام ہے اور بوجہ نص اور اجماع امت اس گوشت کو کھانا ناجائز ہے۔ ایسا گوشت محض کھاتے وقت اللہ کا نام لے لینے سے حلال نہیں ہو گا۔ و اللہ أعلم۔ دیکھئے: (ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي: 34/51)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4441   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2829  
´جس گوشت کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ «بسم اللہ» پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا بغیر «بسم اللہ» کے، اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہیں جو جاہلیت سے نکل کر ابھی نئے نئے ایمان لائے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں تو کیا ہم اس میں سے کھائیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بسم الله» کہہ کر کھاؤ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2829]
فوائد ومسائل:
مسلمان کے احوال بنیادی طور پر خیر اور صلاح پر ہی محمول ہوتے ہیں۔
الا یہ کہ کوئی واضح اور صریح بات سامنے آئے۔
اس لئے محض وہم وگمان کی بنا پر کسی شبے میں نہیں پڑھنا چاہیے۔
جانور ذبح کرتے ہوئے جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دینا ناجائز ہے۔
لیکن بھول معاف ہے۔
اور ایسی صورت میں ذبیحہ کے حلال ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2829   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3174  
´ذبح کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت (بیچنے کے لیے) لاتے ہیں، اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بسم اللہ کہہ کر کھاؤ اور وہ لوگ (ابھی) نو مسلم تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3174]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
شبہ کی وجہ یہ تھی کہ یہ نو مسلم افراد شاید یہ مسئلہ نہ جانتے ہوں کہ اللہ کے نام سے ذبح کرنا چاہیے۔
تو بتایا گیا کہ شبہ نہ کرو بلکہ بسم اللہ پڑھ کر کھالو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3174   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2057  
2057. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کئی لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ذکر کیا تھا یا نہیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم خود اس پر بسم اللہ پڑھ لو اور اسے کھالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2057]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ مسلمان سے نیک گمان رکھنا چاہئے اور جب تک دلیل سے معلوم نہ ہو کہ مسلمان نے ذبح کے وقت بسم اللہ نہیں کہی تھی یا اللہ کے سوا اور کسی کا نام لیا تھا تو اس کا لایا ہوا یا پکایا ہوا گوشت حلال ہی سمجھا جائے گا۔
حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ مشرکوں کا لایا ہوا یا پکایا ہوا گوشت حلال سمجھ لو، اور فقہاءنے اس کی تصریح کی ہے کہ اگر مشرک قصاب بھی کہے کہ اس جانور کو مسلمان نے کاٹا ہے تو اس کا قول مقبول نہ ہوگا۔
اس لیے مشرک کافر قصائی سے گوشت لینے میں بہت احتیاط اور پرہیز چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2057   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2057  
2057. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کئی لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ذکر کیا تھا یا نہیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم خود اس پر بسم اللہ پڑھ لو اور اسے کھالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2057]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کی غرض وسوسہ زدہ لوگوں کے خوف کو بیان کرنا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں جیسا کہ کوئی کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور شخص نے کیا ہوگا، اس سے وہ جانور بھاگ گیا اور اس کے ہتھے چڑھ گیا۔
پیش کردہ حدیث میں بھی اس قسم کا وسوسہ بیان ہوا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔
(2)
مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کانام ضرور لیا ہوگا۔
یہ شبہ کرنا کہ شاید اس نے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا ہو محض ایک وسوسہ اور شبہ ہے۔
اس کا خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ خود بسم اللہ پڑھ کر اسے استعمال کرلینا چاہیے۔
ان ہر دو روایات سے معلوم ہوا کہ وسوسے ان شبہات میں داخل نہیں ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
وسوسے جب تک دل میں جاگزیں نہ ہوں اور قرار نہ پکڑیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنے کی دلیل ہے، نیز یہ کہ مسلمانوں کے امور کمال پر محمول ہیں۔
خصوصاً اس زمانے میں جب ہر مسلمان دین اسلام سے بخوبی واقف ہو۔
(فتح الباري: 375/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2057