Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
7. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهْوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور وہی غالب ہے، حکمت والا“۔
حدیث نمبر: 7384
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حَرَمِيٌّ، حَدَّثَنَا شُعْبة، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَزَالُ يُلْقَى فِي النَّارِ". ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، وَعَنْ مُعْتَمِرٍ، سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَزَالُ يُلْقَى فِيهَا، وَتَقُولُ: هَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّى يَضَعَ فِيهَا رَبُّ الْعَالَمِينَ قَدَمَهُ، فَيَنْزَوِي بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، ثُمَّ تَقُولُ: قَدْ قَدْ بِعِزَّتِكَ وَكَرَمِكَ وَلَا تَزَالُ الْجَنَّةُ تَفْضُلُ حَتَّى يُنْشِئَ اللَّهُ لَهَا خَلْقًا، فَيُسْكِنَهُمْ فَضْلَ الْجَنَّةِ".
ہم سے عبداللہ بن ابی السود نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی بن عمارہ نے، کہا ہم شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے۔ (تیسری سند) اور خلیفہ بن خیاط نے اس حدیث کو معتمر بن سلیمان سے روایت کیا، کہا میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخیوں کو برابر دوزخ میں ڈالا جاتا رہے گا اور وہ کہے جائے گی کہ کیا ابھی اور ہے۔ یہاں تک کہ رب العالمین اس پر اپنا قدم رکھ دے گا اور پھر اس کا بعض بعض سے سمٹ جائے گا اور اس وقت وہ کہے گی کہ بس بس ‘ تیری عزت اور کرم کی قسم! اور جنت میں جگہ باقی رہ جائے گی۔ یہاں تک کہ اللہ اس کے لیے ایک اور مخلوق پیدا کر دے گا اور وہ لوگ جنت کے باقی حصے میں رہیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7384 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7384  
حدیث حاشیہ:
دوزخیوں کہے گی کہ ابھی بہت جگہ خالی ہے اور لاؤ اور لاؤ۔
اس حدیث سے قدم کا ثبوت ہوتا ہے۔
اہل حدیث نے ید اور وجہ اور عین اور اصبع کی طرح اس کی بھی تاویل نہیں کی لیکن تاویل کرانے والے کہتے ہیں قدم رکھنے سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دے گا لیکن یہ تاویل ٹھیک نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7384   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7384  
حدیث حاشیہ:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جس دن ہم جہنم سے کہیں گے:
کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی:
کیا کچھ اور بھی ہے؟ (ق 30/50)
مذکورہ حدیث اس آیت مبارکہ کی تشریح ہے۔
اس حدیث میں ہے کہ جب اللہ رب العالمین اپنا قدم جہنم میں رکھے گا تو جہنم اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کے کرم کی قسم اٹھا کر کہے گی:
بس، بس میں بھر گئی ہوں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے صفت عزت کو ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صفت باری تعالیٰ کو برقرار رکھا ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق نہیں ہیں کیونکہ مخلوق کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔

واضح رہے کہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین کا قدم ہے جسے وہ جہنم میں رکھیں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کے سلسلے میں صرف اسی صفت کا اعتبار ہوگا جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیان کیا ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نشاندہی کی ہو۔
اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت کے اثبات کے لیے قرآن وحدیث میں تین صورتیں ممکن ہیں:
۔
اللہ تعالیٰ کی صفت قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہو، مثلاً:
العزۃ اور قدم وغیرہ۔
۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء قرآن وحدیث میں مذکورہ ہوں۔
ان اسماء کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہوتی ہے، مثلاً السمیع اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔
اس کے ضمن میں صفت سمع ہے۔
۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی وصف صراحت کے ساتھ قرآن وحدیث میں مذکور ہو، مثلاً:
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان دنیا کی طرف نزول فرمانا۔

ان صفات کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان صفات کو ظاہر پر محمول کیا جائے اور کسی قسم کی تحریف سے کام نہ لیا جائے اور نہ ان کی بے جا تاویلات ہی کی جائیں۔
اور ظاہر سے مراد اس کے وہ معنی ہیں جو لفظ کے سامنے آتے ہی فوراً ذہن میں آجائیں، بعض اوقات کسی لفظ کے معنی سیاق کلام یا اضافت کی مناسبت سے معلوم ہوتے ہیں۔
الفاظ کے ظاہری معنی وہی مراد ہوں گے جو ذات باری تعالیٰ کے شایان شان ہوں جیسا کہ مذکورہ حدیث میں قدم کا اثبات ہے۔
اس لفظ سے مراد وہی معنی ہیں جو لفظ کے سنتے ہی ذہن میں آتے ہیں جسے ہم اپنی زبان میں پاؤں کہتے ہیں لیکن اس قدم سے مراد وہ قدم نہیں جو مخلوق کے لائق ہے بلکہ وہ قدم ہے جو اللہ رب العالمین کے لائق ِ شان ہو۔

صفات کے متعلق تین اعتقادی گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔
۔
تمثیل:
۔
اس سے مراد یہ اعتقاد ہے کہ جو صفات ثابت ہیں وہ مخلوق کی صفات کے مماثل ہیں۔
یہ عقیدہ باطل ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اس جیسی کوئی چیز نہیں (الشوریٰ 11/42)
تکییف:
۔
اس سے مراد صفات باری تعالیٰ کی کیفیت بیان کرنا ہے، یعنی بندے کا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت اس طرح اور اس طرح ہے۔
یہ عقیدہ بھی باطل ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ(لوگ اپنے)
علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔
"نیز فرمایا:
"جس چیز کا آپ کو کوئی علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑیں۔
(بني إسرائیل: 36)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی صفات کی اطلاع دی ہے، ان کی کیفیت سے ہمیں آگاہ نہیں کیا، لہذا اپنی طرف سے ان صفات کی کیفیت بیان کرنا ایسی بے مقصد گفتگو ہے جس کا نہ تو ہمیں علم ہے اور نہ ہمارے لیے اس کا احاطہ ہی ممکن ہے۔
۔
تاویل:
۔
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کے ایسے معنی بیان کرنا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کے خلاف ہوں اور لغت عرب میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو۔
"قدم" کے متعلق درج ذیل تاویلات کی گئی ہیں۔
۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مستحق عذاب ہوں گے جہنم کے مطالبے پر انھیں جھونک دیا جائے گا۔
اس تاویل کی تردید خود حدیث کےالفاظ سے ہوتی ہے۔
۔
اس سے مراد ایسی مخلوق ہے جس کا نام قدم ہوگا۔
اس کے متعلق کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں ہے محض ایک گپ ہے جسے ہانک دیا گیا ہے۔
۔
اس سے مراد زجر وتوبیخ ہے اور جہنم کو خاموش کرانا مقصود ہے جیسا کہ کسی چیز کو مٹانے کا ارادہ ہوتو کہا جاتا ہے کہ میں نے اسے قدموں تلے روند ڈالا ہے۔
لغت عرب میں اس تاویل کی کوئی گنجائش نہیں۔

ہمارے رجحان کے مطابق صفت قدم کو حقیقت پر محمول کرتے ہوئے اس کے ظاہر معنی لیے جائیں اور اس کی کوئی تاویل نہ کی جائے، نیز اس سلسلے میں تمثیل وتکییف سے بچا جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7384   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3272  
´سورۃ قٓ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کہتی رہے گی «هل من مزيد» کوئی اور (جہنمی) ہو تو لاؤ، (ڈال دو اسے میرے پیٹ میں) (قٓ: ۳۰)، یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس میں رکھ دے گا، اس وقت جہنم «قط قط» بس، بس کہے گی اور قسم ہے تیری عزت و بزرگی کی (اس کے بعد) جہنم کا ایک حصہ دوسرے حصے میں ضم ہو جائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3272]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کوئی اور (جہنمی) ہو تو لاؤ،
(ڈال دو اسے میرے پیٹ میں) (قٓ: 30)

2؎:
یعنی ایک حصہ دوسرے حصہ سے چمٹ کر یکجا ہو جائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3272   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7179  
امام صاحب اللہ عزوجل کے فرمان، اس وقت کا خیال کرو، جب ہم جہنم سے کہیں گے۔ کیا تو بھر گئی ہے اور وہ کہے گی، کیا اور مل جائے گا(ق آیت30)کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"جہنم مسلسل لوگ جھونکے جائیں گے اور وہ کہے گی، کیا اور ہیں،حتی کہ رب العزت اس میں اپنا قدم رکھ دیں گے تو اس کا بعض حصہ کی طرف سمٹے گا اور وہ کہے گا۔ بس، بس تیری قوت اور کرم کی قسم! اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7179]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان حدیثوں میں اللہ کے قدم کا تذکرہ ہے،
اللہ کا قدم مخلوق کے قدم کی طرح نہیں ہے وہ اس کے شایان شان ہے اس لئے اس کی کیفیت یا شکل وصورت کو نہیں جانا جا سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7179   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7179  
امام صاحب اللہ عزوجل کے فرمان، اس وقت کا خیال کرو، جب ہم جہنم سے کہیں گے۔ کیا تو بھر گئی ہے اور وہ کہے گی، کیا اور مل جائے گا(ق آیت30)کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"جہنم مسلسل لوگ جھونکے جائیں گے اور وہ کہے گی، کیا اور ہیں،حتی کہ رب العزت اس میں اپنا قدم رکھ دیں گے تو اس کا بعض حصہ کی طرف سمٹے گا اور وہ کہے گا۔ بس، بس تیری قوت اور کرم کی قسم! اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7179]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان حدیثوں میں اللہ کے قدم کا تذکرہ ہے،
اللہ کا قدم مخلوق کے قدم کی طرح نہیں ہے وہ اس کے شایان شان ہے اس لئے اس کی کیفیت یا شکل وصورت کو نہیں جانا جا سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7179   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6661  
6661. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کہ نبی ﷺ نے فرمایا: دوزخ ہمیشہ یہ کہتی رہے گی: کیا کچھ مزید ہے؟ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اپنا قدم اس میں رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی: بس بس، مجھے تیری عزت کی قسم! اس کا ایک حصہ سکڑ کر دوسرے سے مل جائے گا۔ اس روایت کو شعبہ نے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6661]
حدیث حاشیہ:
روایت میں قد م کا لفظ آیا ہے جس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کی حقیقت کے اندر بحث کرنا بدعت ہے اور حقیقت کوعلم الہی کےحوالہ کر دینا کافی ہے۔
سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے۔
اللہ پاک ہر تشبیہ سے منزہ ہے۔
قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے۔
﴿لَیسَ کَمثلِهِ شَيئ﴾ (الشوریٰ: 11)
پس یہی کہنا مناسب آمنا کما ھو بأسمائه و صفاته بلا تأویل و تکیف۔
سند میں مذکور حضرت قتادہ بن نعمان انصاری عقبی بدری ہیں۔
بعد کی سب جنگوں میں شریک ہوئے۔
33ھ میں بعمر 65 سال وفات پائی۔
حضرت عمر فاروق نے آپ کا نماز جنازہ پڑھایا۔
فضلائے صحابہ میں سے تھے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6661   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6661  
6661. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ کہ نبی ﷺ نے فرمایا: دوزخ ہمیشہ یہ کہتی رہے گی: کیا کچھ مزید ہے؟ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اپنا قدم اس میں رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی: بس بس، مجھے تیری عزت کی قسم! اس کا ایک حصہ سکڑ کر دوسرے سے مل جائے گا۔ اس روایت کو شعبہ نے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6661]
حدیث حاشیہ:
(1)
قسم کی تین قسمیں ہیں:
صریح:
اس میں نیت اور ارادے کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ وہ اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہوتی ہے کہ اسے اٹھاتے ہی منعقد ہو جاتی ہے۔
٭ کنایہ:
وہ اپنے مفہوم اور مدعیٰ میں واضح نہیں ہوتی۔
اس میں انسان کے عزم و ارادے کو دیکھا جاتا ہے۔
نیت کی صورت میں وہ منعقد ہو جاتی ہے۔
٭ متردد:
اس کا واضح فیصلہ نہیں ہوتا۔
اگر اسے صریح سے ملایا جائے تو ارادہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر اسے کنائے سے ملایا جائے تو نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کو بعض لوگوں نے متردد قسم میں شمار کیا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق صفات ذات کو صریح سے ملانا چاہیے اور صفات فعل کو کنائے میں شمار کیا جائے۔
(2)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عزت الٰہی کی قسم سے منع کرتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عزت اس کی صفت ذات ہے اور اس کی قسم اٹھانا جائز ہے جیسا کہ روایت میں ہے لیکن حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ممانعت کا حکم محل نظر ہے کیونکہ اس روایت کی سند معیار صحت کے مطابق نہیں ہے۔
(فتح الباري: 665/11) (3)
صفت قدم کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب التوحید میں بیان کریں گے، البتہ اس بات کا اظہار ضروری خیال کرتے ہیں کہ اسے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی بر حقیقت تسلیم کیا جائے۔
اس کی تاویل کرنا علمائے سلف کا طریقہ نہیں۔
اس کی کیفیت بیان کرنا بھی بدعتی حضرت کا وتیرہ ہے۔
(4)
بعض حضرات کی طرف سے یہ تاویل کی گئی ہے کہ قدم سے مراد ایک مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا کیا تھا۔
ان کے سر کتوں اور چوپایوں کے سروں جیسے اور باقی اعضاء انسانوں جیسے ہیں۔
انہوں نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا۔
جب دوزخ زیادہ طلب کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس مخلوق کو اس میں ڈال دے گا۔
نعوذ بالله من ذالك۔
صفات باری تعالیٰ کے متعلق اس طرح رکیک تاویلات کرنا اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6661