�
تشریح: صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔ شرح قسطلانی رحمہ اللہ میں بھی یہ روایت یہاں نہیں ہے۔ بہرحال صحابہ کرام کو غیر ضروری سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا، وہ احتیاطاً خاموشی اختیار کر کے منتظر رہا کرتے تھے کہ کوئی باہر کا آدمی آ کر مسائل معلوم کرے اور ہم کو سننے کا موقع مل جائے۔ اس روایت میں بھی شاید وہی ضمام بن ثعلبہ مراد ہیں جن کا ذکر پچھلی روایت میں آ چکا ہے۔ اس کے تمام سوالات کا تعلق اصول و فرائض دین سے متعلق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر فرائض ہی کا ذکر فرمایا۔ نوافل فرائض کے تابع ہیں چنداں ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی اس لیے اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ اس سے سنن و نوافل کی اہمیت جو اپنی جگہ پر مسلم ہے وہ کم نہیں ہوئی۔
ایک بے جا الزام: صاحب ایضاح البخاری جیسے سنجیدہ مرتب کو خداجانے کیا سوجھی کہ حدیث طلحہ بن عبیداللہ جو کتاب الایمان میں بذیل باب الزکوٰۃ من الاسلام مذکور ہوئی ہے اس میں آنے والے شخص کو اہل نجد سے بتلایا گیا ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ ضمام بن ثعلبہ ہی ہیں۔ بہرحال اس ذیل میں آپ نے ایک عجیب سرخی ”دور حاضرہ کا ایک فتنہ“ سے قائم فرمائی ہے۔ پھر اس کی توضیح یوں کی ہے کہ ”اہل حدیث اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سنن کے اہتمام سے پہلو تہی کرتے ہیں۔“ [ايضاح البخاري،جلد4، ص: 386]
اہل حدیث پر یہ الزام اس قدر بے جا ہے کہ اس پر جتنی بھی نفریں کی جائے کم ہے۔ کاش آپ غور کرتے اور سوچتے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ جو جماعت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی وجہ سے آپ کے ہاں انتہائی معیوب ہے۔ وہ بھلا سنن کے اہتمام سے پہلو تہی کرے، یہ بالکل غلط ہے۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص ایسا کر گزرتا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے یوں کتنے مسلمان خود نماز فرض ہی سے پہلو تہی کرتے ہیں تو کیا کسی غیر مسلم کا یہ کہنا درست ہو جائے گا کہ مسلمانوں کے ہاں نماز کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
اہل حدیث کا تو نعرہ ہی یہ ہے۔
«ماعا شقيم بے دل دلدار ما محمد . . . ما بلبليم نالاں گلزار ما محمد صلى الله عليه وسلم» ہاں! اہل حدیث یہ ضرور کہتے ہیں کہ فرض و سنن و نوافل کے مراتب الگ الگ ہیں۔ کوئی شخص کبھی کسی معقول عذر کی بنا پر اگر سنن و نوافل سے محروم رہ جائے وہ اسلام سے خارج نہیں ہو جائے گا۔ نہ اس کی ادا کردہ فرض نماز پر اس کا کچھ اثر پڑے گا، اگر اہل حدیث ایسا کہتے ہیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ اس لیے کہ یہ تو خود آپ کا بھی فتوی ہے۔ جیسا کہ آپ خود اسی کتاب میں فرما رہے ہیں، آپ کے لفظ یہ ہیں۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بے کم وکاست عمل کرنے کی قسم پر دخول جنت کی بشارت دی کیونکہ اگر بالفرض وہ صرف انہیں تعلیمات پر اکتفا کر رہا ہے اور سنن و نوافل کو شامل نہیں کر رہا ہے۔ تب بھی دخول جنت کے لیے تو کافی ہے۔“ [ایضاح البخاری، جلد5،ص: 31]
صدافسوس کہ آپ یہاں ان کو داخل جنت فرما رہے ہیں اور پچھلے مقام پر آپ ہی اسے
”دور حاضرہ کا ایک فتنہ
“ بتلاتے ہیں۔ ہم کو آپ کی انصاف پسند طبیعت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح فرما دیں گے۔