حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ تُوضَعُ الْجَنَائِزُ عِنْدَ الْمَسْجِدِ".
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7332
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7332 کا باب: «بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کئی ایک مسائل کو ثابت کرنے کے لیے قائم فرمایا ہے جس کے کئی اجزاء ہیں۔ مثلا مکہ اور مدینہ کے علماء کے اجماع کا بیان، مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات کا بیان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ اور اس کا متبرک ہونا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا بیان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کا بیان وغیرہ۔
اس ایک باب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کئی ایک مسائل کو حل فرمانے کا قصد رکھتے ہیں جن کی طرف اشارہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب پیش کی گئی احادیث کے ذریعے فرمایا ہے، آپ نے تحت الباب تقریبا چوبیس احادیث پیش فرمائی ہیں جن کا باب سے تعلق جزء یا چند اجزاء کے ساتھ قائم ہے لیکن کوئی ایک حدیث مکمل طور پر باب کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ جو بات ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اہل مدینہ کی خبر معتبر ہے کیوں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشاہدہ کیا ہے، جیسے مہاجرین اور انصار اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر اور قبر کا مشاہدہ کرنے والے حضرات جن کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں فرمایا ہے، وہ تمام چیزیں مراد ہیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے باب کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ مدینہ تمام شہروں میں افضل ہے جہاں برے لوگ نہیں ٹھہر سکتے، وہاں کے لوگ حتی کہ علماء بھی اچھے ہی ہوں گے، مگر یہ فضیلت حیات نبوی کے ساتھ خاص تھی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«قال ابن بطال عن المهلب: فيه تفضيل المدينة على غيرها بما خصها الله به من أنها تنفي الخبث، و رتب على ذالك القول بحجية إجماع أهل المدينة، و تعقب بقول ابن عبدالبر أن الحديث دال على فضل المدينة، و لكن ليس الوصف المذكور لها فى جميع الأزمنه، بل هو خاص بزمن النبى صلى الله عليه وسلم لأنه لم يكن يخرج منها رغبة من الإقامة معه إلا من لا خير فيه.» [فتح الباري لابن حجر: 261/14]
”ابن بطال رحمہ اللہ مہلب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے مدینہ کی دیگر علاقوں پر تفضیل ظاہر ہوتی ہے اس امر کے ساتھ جو اللہ تعالی نے اسے خاص فرمایا کہ وہ مدینہ خبث کی نفی کرتا ہے اس پر اہل مدینہ کی حجیت کا قول مترتب ہے۔ اس کا جواب ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے قول سے تعاقب کیا جائے گا کہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دال تو ہے لیکن یہ اس کی صفت مذکور تمام زمانے میں عام نہیں ہے بلکہ یہ صفت عہد نبوی کے ساتھ خاص ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے اس میں اقامت اختیار کرنے سے وہی شخص اعراض کر سکتا ہے جس میں بھلائی نہ ہو۔“
علامہ مہلب رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے باب اور حدیث میں مناسبت بھی معلوم ہوئی اور ساتھ ہی ایک مسئلے کی وضاحت بھی۔ باب سے حدیث کا تعلق یہی ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں مدینہ منورہ کو فضیلت دی گئی ہے، یہی مطابقت باب کے ایک جزء سے ہے۔
اب جہاں تک اہل مدینہ کے عمل کا تعلق ہے تو اس پر تفصیلی گفتگو ہم ان شاء اللہ اس باب کے اختتام پر فائدے میں درج کریں گے۔ دوسری حدیث جو سائب بن یزید سے مروی ہے اس کا باب سے مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ فتح الباری میں موجود ہے:
«ومناسة هذا الحديث للترجمة أن قدر الصاع مما اجتمع عليه أهل الحرمين بعد العهد النبوي و استمر، فلما ذار بنو أمية فى الصاع لم يتركوا اعتبار الصاع النبوي.» [فتح الباري لابن حجر: 263/14]
”حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت یہ ہے کہ صاع کی مقدار وہی رہی جس پر عہد نبوی کے اہل حرمین متفق ہو گئے تھے، تو جب بنو امیہ نے صاع میں زیادتی کی تو (اس کے باوجود بھی) عہد نبوی والے صاع کا اعتبار کرنا چھوڑا نہ گیا (بلکہ باقی رہا)۔“
لہذا باب اور حدیث میں مناسبت کی جہت ان تفصیلات کی روشنی میں یہ قرار پائی کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں اس (صاع) کی مقدار بڑھ گئی ہو گی مگر احکام شرعیہ میں جیسے صدقہ فطر وغیرہ ہے اسی صاع کے اعتبار سے ہو گا جو اہل مدینہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔
جو حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس کا باب سے مناسبت اس طرح سے ہے کہ مسجد کے قریب یہ مقام جہاں انہیں رجم کیا گیا تھا تاریخی طور پر متبرک ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر نماز جنازہ بھی اسی جگہ ادا کیا کرتے تھے، لہٰذا یہاں سے اس جگہ کا متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہیں سے باب کے جزء کے ساتھ مناسبت بھی قائم ہوتی ہے۔ [ارشاد الساري: 89/12]، [عمدة القاري للعيني: 88/25]
فائدہ:
کیا اہل مدینہ کا ہر عمل حجت ہے؟
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ کا عمل مطلق حجت ہے حالانکہ یہ بات محل نظر ہے بلکہ خود امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ بات معتمد نہ تھی، امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اصل اہمیت قرآن و حدیث ہی کو حاصل تھی، ایک واقعہ اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتا ہے، ہارون رشید نے جب امام مالک رحمہ اللہ کو پیش کش کی تھی کہ آپ کی مؤطا کو قانون قرار دیا جائے، چنانچہ لکھا گیا ہے:
«انه شاور مالكا فى أن يعلق الموطأ فى الكعبة، و يحمل الناس على ما فيه، فقال: لا تفعل، فان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا فى الفروع، و تفرقوا فى البلدان، و كل سنة مضت، قال: وفقك الله يا أبا عبدالله.» [حجة الله البالغه: 116/1]، [مفتاح السعادة 87/2]
”خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا کو ملک کا قانون قرار دے کر کعبہ میں لٹکا دیا جائے تاکہ لوگ اس کی اتباع پر مجبور ہوں، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فروع میں اختلاف تھا اور وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے، جو کچھ ان سے منقول ہے سب سنت ہے، ہارون نے معاملہ سمجھ کر فرمایا: اللہ تعالی آپ کو خیر کی توفیق عطا کرے۔“
اس حوالے سے یہ واضح ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ مطلق مدینے کے عمل کو حجت قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ ہر صحابی کی حدیث کو دین سمجھتے تھے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب «الأحكام فى أصول الأحكام» میں اس مسئلے پر بھی تفصیلی بحث فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف اہل مدینہ کو سنت کا علم رکھنے والا قرار دینا ناجائز ہے، چنانچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و أما قولهم: إن أهل المدينة أعلم بأحكام رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن سواهم، فهو كزب و باطل، و إنما الحق أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم و هم العالمون بأحكامه سواء بقي منهم من بقي بالمدينة أو خرج منهم من خرج.» [الاحكام فى اصول الاحكام: 684/4]
”اور ان کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ احکام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ جانتے تھے اپنے سے علاوہ کے، تو یہ جھوٹ ہے اور باطل ہے، لہٰذا جو صحیح اور حق بات ہے تو وہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے احکامات کو جانتے تھے چاہے وہ مدینے میں باقی رہے یا وہ وہاں سے کوچ کر گئے ہوں۔“
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ موطا کی سرکاری حیثیت کو شمولیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«وهذا يدل على أن عمل أهل المدينة ليس عنده حجة لازمة لجميع الأمة . . . . .» [اعلام الموقعين: 297/2]
یہ اس بات پر دال ہے کہ اہل مدینہ کا عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی جمیع امت پر اسے قبول کرنا ضروری ہے، اور یہ بات کہ (اہل مدینہ کا عمل حجت ہے) امام مالک رحمہ اللہ نے نہ ہی مؤطا میں یہ بات کی ہے اور نہ کسی اور جگہ، بلکہ مطلب صرف ایک واقع کا اظہار ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ عمل اہل مدینہ تمام امت پر مطلق حجت ہے سراسر غلط اور باطل ہے بلکہ جمہور اس کے مخالف ہیں، صاحب فقہ الاسلام نے بڑی عمدہ بات کہی، آپ رقمطراز ہیں:
”جمہور کا خیال ہے کہ مدینہ کو عمل میں باقی شہروں پر کوئی مرتبہ حاصل نہیں ہے، اختلاف کے وقت سنت ہی کی اتباع اصل شئی ہے، کسی عالم کا قول دوسرے پر حجت نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک میں پھیل گئے تھے، سب صاحب علم تھے، اصل چیز سنت ہے، کسی شہر کا علم تشریع کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔“ [فقه الاسلام از شيخ احمد: ص 170]
بلکہ اگر غور کیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اہل مدینہ کا عمل حجت نہیں تھا، کیونکہ آپ رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں ایسی روایات پیش کی ہیں جو اہل مدینہ کے عمل کے خلاف ہیں، دوسری مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ آپ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
«عمن أخذ بحديث حدثه ثقة عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أتراه من ذالك فى سعة؟ فقال: لا والله يصيب الحق، و ما الحق الا واحد، قولان مختلفان يكونان صوابًا جميعًا؟ و ما الحق و الصواب الا واحد.» [جامع بيان العلم وفضله عن اشهب: 102/2]
”حدیث کسی سے لی جائے؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ثقہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے روایت کرتا ہو، پھر پوچھا گیا کہ کیا اس بارے میں آپ کے نزدیک کوئی وسعت ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم نہیں ہے حتی کہ حق تک رسائی نہ ہو جائے، اور حق تو صرف ایک ہی ہوتا ہے، بھلا دو مختلف اقوال بھی باہم درست ہو سکتے ہیں؟ نہیں، حق اور صواب تو صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔“
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ کے کیا معاملات تھے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اہل مدینہ کا عمل مفتیوں، امراء اور بازاروں پر «محتسبين» کے حکم کے مطابق تھا، رعیت ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی، پس اگر مفتی فتوی دیتے تو والی اسے نافذ کرتا اور محتسب اس کے مطابق عمل کرتا، اسی طرح وہ فتوی معمول بہ ہو جاتا، لیکن یہ چیز قابل التفات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سنت ہیں، لہٰذا ان دونوں میں سے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جائے گا، پس ہمارے نزدیک اس عمل پر تحکیما زیادہ شدید ہے اور اس کے مقابلے میں دوسری چیز (متاخرین اہل مدینہ ان کا عمل) اگر خلاف سنت ہو تو ترک کیے جانے کے شدید مستحق ہے۔“
نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے متعین کے برخلاف اہل مدینہ کا عمل بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف حجت نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بھی امت میں سے بعض ہیں (یعنی کل نہیں ہیں)، لہٰذا اس بات کا جواز موجود ہے کہ وہ صحیح خبر ان تک نہ پہنچی ہو۔“ [حصول المامول من علم الاصول: ص 59]
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسوٹی صرف سنت نبوی ہی ہو گی، اس کے خلاف اہل مدینہ کا عمل، کوفہ، بصرہ، شام، یمن، مصر، دمشق، بالفرض کوئی بھی معروف یا غیر معروف علمی شہر یا غیر علمی شہر ہو، کسوٹی ہرگز نہیں بن سکتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كيف أترك الخبر لأقوال أقوام لو عامرتهم لما حجتهم بالحديث .» [الاحكام فى اصول الاحكام للامدی: 165/2]
”میں خبر (یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو اقوال سے کس طرح ترک کر سکتا ہوں، اگر میں ان لوگوں کے مابین موجود ہوتا تو ان سے حدیث کی حجت پر بحث کرتا۔“
بس کسوٹی صرف قرآن و حدیث ہی ہے یہی گفتگو کا حاصل ہے۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 303
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7332
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث انتہائی اختصار سے بیان کی ہے۔
اس میں بہت سی تفصیلات ہیں۔
انھیں معلوم کرنے کے لیے کتاب الحدود حدیث: 6841 کا مطالعہ کریں۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کی نماز مسجد کے قریب مذکورہ مقام پر پڑھایا کرتے تھے، اس وجہ سے اسے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7332
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3635
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ: لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ، فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبْتُمْ إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ارْفَعْ يَدَكَ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالُوا: صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ . . .»
”. . . انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ رجم کے بارے میں تورات میں کیا حکم ہے؟ وہ بولے یہ کہ ہم انہیں رسوا کریں اور انہیں کوڑے لگائے جائیں۔ اس پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جھوٹے ہو۔ تورات میں رجم کا حکم موجود ہے۔ تورات لاؤ۔ پھر یہودی تورات لائے اور اسے کھولا۔ لیکن رجم سے متعلق جو آیت تھی اسے ایک یہودی نے اپنے ہاتھ سے چھپا لیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ اب وہ سب کہنے لگے کہ اے محمد! عبداللہ بن سلام نے سچ کہا۔ بیشک تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رجم کے وقت دیکھا۔ یہودی مرد اس عورت پر جھکا پڑتا تھا۔ اس کو پتھروں کی مار سے بچاتا تھا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3635]
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ}:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں قرآن پاک کی آیات مبارکہ ذکر فرمائی ہے جس میں اہل کتاب کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کا ہونا اور آپ کو پہچاننا ثابت ہوتا ہے، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ رجم کے متعلق حدیث پیش فرمائی ہے، لہٰذا بظاہر ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«دخول هذه الترجمة فى أبواب علامات النبوة من جهة أنه أشار فى الحديث الي حكم التوراة وهو امي لم يقرأ التوراة قبل ذالك فكان الأمر كما أشار اليه» [فتح الباري لابن حجر: 546/7]
ترجمۃ الباب کا اس باب ”علامات النبوۃ“ میں داخل کرنے کی غرض کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات کی طرف اشارہ فرمایا کہ (تورات میں رجم کا کیا حکم ہے؟) حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات نہیں پڑھی تھی، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تورات کی طرف اشارہ کرنا یہی بات علامات النبوۃ سے مطابقت رکھتی ہے۔
حافظ صاحب کے اس جواب سے ”علامات النبوۃ“ سے حدیث کی مناسبت بنتی ہے، مگر ترجمۃ الباب سے پھر بھی مناسب قائم نہیں ہوتی، علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی قریب قریب یہی مناسبت دی، چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«من جهة أنه أشار فى الحديث الي حكم التوراة، والنبي صلى الله عليه وسلم سألهم عما فى التوراة فى حكم من زني، والحال أنه لم يقرأ التوراة ولا وقف عليها قبل ذالك، فظهر الامر كما أشار اليه، وهو ايضا من أعظم علامات النبوة .» [عمدة القاري للعيني: 242/16]
”حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں تورات کے حکم کی طرف اشارہ فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تورات کے بارے میں سوال کیا کہ زنا کی سزا تورات میں تم کیا پاتے ہو؟ فی الحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نہ ہی تورات پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات پڑھی تھی، پس (اس حدیث سے) ظاہر ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (رجم کی آیت) کی طرف اشارہ کیا جو تورات میں موجود تھی، پس یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی علامات نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے اب بھی مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے، کیونکہ علامہ صاحب رحمہ اللہ زیادہ تر وہی کچھ رقم فرماتے ہیں جو کچھ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، بس کہیں کہیں صرف الفاظ مختلف ہوتے ہیں، جیسا کہ مذکورہ اقتباسات آپ دیکھ سکتے ہیں۔
لہٰذا علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی ترجمہ الباب سے کسی بھی مناسبت کو پیش نہیں کیا بلکہ کتاب النبوہ کے متعلق تطبیق فراہم کر دی، بعین اسی طرح سے جس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ اللہ نے فتح الباری میں دی۔
اللہ کی توفیق سے یہ حقیر اور ناکارہ بندہ کہتا ہے کہ:
ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے مگر بہت گہرائی کے ساتھ۔
یہودی لوگ اپنے مسئلے کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور ارادہ یہ تھا کہ جس سزا کا تعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ہم اس کی مخالفت کریں گے اور رجم کی آیت کو چھپا لیں گے، پہلی مناسب تو یہ ہے کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں اپنی کتاب میں پڑھ چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم”امّی“ ہیں، اسی لیے انہوں نے تورات میں رجم کی آیت پر ہاتھ رکھا، چنانچہ آج بھی بائبل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے”امّی“ ہونے کی صفت موجود ہے۔ بائبل کہتی ہے۔
”پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اس کو پڑھ اور وہ کہے کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔“ [يسعياه: 14/29]
بائبل کا یہ فقرہ آج بھی موجود ہے اور یہ واضح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی ہے، یقیناًً امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ طریقہ استنباط کتنا اعلیٰ قسم کا ہے کہ آپ اس صفت کی طرف حدیث کے ذریعے اشارہ فرما رہے ہیں کہ وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ”امّی“ ہیں، اسی لئے یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر تورات کی آیت کو چھپایا۔
ترجمہ الباب سے حدیث کی دوسری مناسبت یہ ہے کہ:
ترجمۃ الباب میں جو آیت نقل فرمائی ہے، اس میں «يكتمون الحق . . . . . . . الآية» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں بھی یہی مفہوم موجود ہے کہ وہ جانتے تھے کہ تورات میں رجم کی سزا موجود ہے اور جانتے ہوئے اسے چھپا لیا، پس حدیث کے دوسرے جزء سے باب کی مناسبت یہاں قائم ہوتی ہے۔
لہٰذا حدیث کے دو جزء ہوئے، پہلا جزء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کا تورات میں ہونا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امّی ہیں، اور دوسرا جزء یہودیوں کا آیات رجم کا چھپانا، الحمدللہ حقیر نے دونوں جزء کی تطبیق پیش کر دی، اللہ تعالیٰ کی مدد اور اسی کی توفیق سے۔
فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجودہ بائبل میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور آپ کی شہادتوں کے بارے میں بائبل میں کئی ایک مقامات پر تفصیلی فقرات موجود ہیں جو اس بات کی واضح ترین دلیل ہیں کہ بائبل خود بھی اہل کتاب پر حجت تمام کرتی ہے، ہمارے طالب علم کو یہ بات ضرور جاننی چاہیے کہ دیگر بڑے مذاہب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں موجود ہیں، تاکہ طالب علم دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر اسلام کی حجت کو تمام کر دیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جب عیسائیوں نے سترہ سوالات کیے تھے کہ آپ ہمارے ان اعتراضات کے جوابات دیں تو ہم اسلام قبول کر لیں گے، ان کے اعتراضات اور سوالات کے جوابات کے لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک ضخیم کتاب تحریر فرمائی جس کا نام «الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح عليه السلام» ہے۔
آپ رحمہ اللہ نے ان کے ایک ایک اعتراض کے کئی پہلو سے جوابات دئیے، غور کیجئے، صرف سترہ سوالات کے جوابات پر ہزار صفحات سے زیادہ ضخیم کتاب تحریر فرما دی۔۔۔ انہی کے شاگرد رشید علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے ایک کتاب تحریر فرمائی بنام «هداية الحياري فى اجوبة اليهود والنصاريٰ» اس کتاب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشن گوئیاں ذکر کی گئی ہیں، اس کے علاوہ علامہ قرافی رحمہ اللہ نے بھی ایک مستقل کتاب تحریر فرمائی ہے، «الاجوبة الفاخرة عن الأسلة الفاجرة» اس کتاب میں امام قرافی رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشن گوئیوں پر اکیاون بشارتوں کا ذکر فرمایا ہے، جو علمی اعتبار سے بہترین کاوش ہے۔
اس کے علاوہ اردو میں علامہ کیرانوی رحمہ اللہ کی کتاب”اظہار حق“ بھی اس نوعیت کی بہترین کتاب ہے، جس میں علامہ کیرانوی رحمہ اللہ نے بیس کے قریب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کا ذکر فرمایا ہے۔
محترم قارئین یہ تمام کتب عسائیت کے خلاف اور ان کے اعتراضات کے جوابات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کے لئے بہترین علمی مواد فراہم کرتی ہیں، استیعاب مقصود نہیں ہے، اس کے باوجود ہم یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں پر بائبل کے چند مقامات محترم قارئین کے سامنے پیش کریں گے جس سے یہ فائدہ ضرور ہو گا کہ ہمارے قارئین خصوصا ہمارے طالب علم ان حوالوں کو یاد کر کے پھر انہی کے ذریعے عیسائی حضرات کو اسلام کی دعوت دیں گے، انشاءاللہ!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئیاں موجودہ بائبل میں
➊ یوحنا کی انجیل میں ہے:
”اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟ تو اس نے اقرار کیا، اور انکار نہ کیا، بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں، انہوں نے اس سے پوچھا، پھر کون ہے؟ کیا ایلیاہ ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں ہوں، کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔“
(کیا تو وہ نبی ہے؟) یہ الفاظ قابل غور ہیں۔۔۔
مذکورہ فقرے پر غور کیجئے، جب کاہن سے پوچھا گیا کہ تو کون ہے، کیا مسیح ہے، یا پھر ایلیاں تو اس نے نفی میں جواب دیا، مگر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا تو صرف اتنا کہا کہ کیا تو وہ نبی ہے؟ یعنی یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے کہ بغیر نام لیے ہی ان کا تعارف تھا انہیں، کمال کی بات دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ بائبل کی مختلف لوگوں نے شروحات بھی لکھی ہیں، مگر اس فقرے کے اس حصہ کی شرح جس میں”کیا تو وہ نبی ہے؟“ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، کسی نے بھی اس کی شرح نہیں کی کیونکہ اس کی شرح کرنے سے عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش کا بھانڈا لوگوں میں پھوٹ جاتا ہے۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بائبل میں مذکور دوسری بشارت:
”اور اس نے کہا: خداوند سینا سے آیا اور شعر سے ان پر آشکار ہوا، وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار قدسیوں میں سے آیا، اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشی شریعت تھی۔“ [استثناء: 1،2،3/33]
خداوند سینا سے آیا، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے دین کا ظہور ہے اور اس کی وحدانیت کا پرچار ہے کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے موسٰی علیہ السلام پر وحی اتاری اور جبل شعر سے ارجنٹائن کا وہ پہاڑ مراد ہے جس سے عیسیٰ علیہ السلام کا دین ظاہر ہوا اور فاران سے مراد مکہ مکرمہ کا جبل نور ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا آغاز ہوا، دس ہزار قدسیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم مراد ہیں، جو کہ فتح مکہ کے دن دس ہزار کی تعداد میں تھے، یہ پیشن گوئی ہوبہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آئی، مگر عیسائی علماء کو یہ بشارت ان کی سازش کھولنے کے لیے کافی تھی، لہٰذا انہوں نے بائبل میں تحریف کی اور دس ہزار کا جملہ ہٹا کر لاکھوں کر دیا جو کہ بائبل کے محرف ہونے پر کھلی دلیل ہے۔
➌ تیسری بشارت:
”اور میں باپ سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں دوسرا فارقلیط بخشے گا ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔“ [يوحنا: 16/14]
فارقلیط یہ اسم مبارک یونانی زبان میں ہے، جس کا عربی ترجمہ”احمد“ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ» [الصف: سورة 6، آية 61]
”اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے (میری قوم) بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں، جن کا نام احمد ہے۔“
قارئین کرام بائبل میں خاص طور پر”فارقلیط“ کے نام سے نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی گئی ہے۔
➍ چوتھی بشارت:
”اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، سو ٹھیک کہتے ہیں، سب ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تیرے مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں ان کا حساب لوں گا۔“ [استثناء: 18،19/18]
کتاب الاستشناء کی بشارت سو فیصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادر آتی ہے، کیوں کہ مذکورہ فقرے میں موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہا: گیا کہ وہ نبی جو میں بھیجوں گا، آپ جیسا ہو گا۔۔۔
اور ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام میں کئی ایک مماثلتیں موجود ہیں، مثلاً:
➊ موسیٰ علیہ السلام نے ہجرت کی۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کی۔
➋ موسیٰ علیہ السلام نے نکاح کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نکاح کیا۔
➌ موسیٰ علیہ السلام کے ایک رفیق تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی رفیق ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔
➍ موسیٰ علیہ السلام پر جادو ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو ہوا۔
➎ موسیٰ علیہ السلام فطری پیدائش پر پیدا ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی۔
➏ موسیٰ علیہ السلام فطری طور پو انتقال فرما گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی فطری طور پر ہوئی۔
➐ موسیٰ علیہ السلام نے حدود کو قائم کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدود کو قائم کیا۔
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام میں کئی مماثلت موجود ہیں، مگر یہ مماثلت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پوری نہیں ہوتیں، لہٰذا جن کے بارے میں پیشنگوئی ہے اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
➎ پانچویں بشارت:
یوحنا کی انجیل میں ہے:
”مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ روح حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔“ [يوحنا 12،14/16]
یہ بشارت بعین طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صادر آتی ہے، اس فقرے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روح کہا گیا۔
➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچائی کی راہ دکھلانے والے ہیں۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کی سچی خبریں دیتے ہیں۔
یہ تمام اوصاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں موجود ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی حق کے روح ہیں، کیوں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اگر کسی نے آسمانی صحیح اور سچی خبریں دیں تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، جیسا کہ فقرے کی ابتداء میں عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ آپ کو راہ حق بتلائے گا، قرآن مجید میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
«وانك لتهدي الى صراط مستقيم .» [الشوريٰ: 52/42]
”بےشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم راہ راست کی رہبری کر رہے ہیں۔“
مذکورہ بائبل کے فقرے کی تائید قرآن مجید کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راہ حق کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں، فقرے کی تیسری بشارت کی طرف غور کیجئے کہ ”وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، جو کچھ سنے گا وہی کہے گا“ یہ فقرہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صادر آتا ہے، جس کی تائید قرآن مجید کی آیت بھی کرتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وما ينطق عن الهوٰي . اِن هوَ اِلاّ وَحي يوحيٰ .» [النجم: 3،4/53]
”اور نہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں، وہ تو صرف وحی ہوتی ہے، جو اتاری جاتی ہے۔“
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے تھے، جو جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آتے،، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی امت تک پہنچا دیتے۔
استثناء کے فقرے کی چوتھی نشانی پر غور کیجئے کہ وہ نبی مستقبل کی خبریں دیں گے۔۔۔
قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی کریم صلی اللہ نے جو پیشن گوئیاں قیامت تک کے لئے کی ہیں، وہان گنت مقامات پر موجود ہیں، ہمارے ناقص مطالعہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی پیشن گوئیاں سو میں سے اسّی فیصد ثابت ہو چکی ہیں ہیں باقی بیس فیصد میں سے دس فیصد کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور باقی قیامت تک ان پیشنگوئیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پورا کر دیا جائے گا، یعنی قیامت تک یہ پیشنگوئیاں ان شاء اللہ پوری ہوں گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کی اقسام، علامات کبریٰ اور علامات صغریٰ ہیں، یقیناًً علامات صغریٰ تقریباً پوری ہو چکی ہیں اور علامات کبریٰ بھی اپنے اختتام کو ہیں۔۔۔۔۔ لہٰذا یہاں موقع نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئیوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، تفصیل کے لئے کتب احادیث سے کتاب الفتن اور آثار قیامت کے أبواب کو بغور پڑھا جائے۔
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ آج بھی بائبل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر پیشن گوئیاں موجود ہیں جو عیسائی حضرات اور ان کے علماء پر حجت ہیں۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 39
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6819
´بلاط میں رجم کرنا`
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَهُودِيٍّ وَيَهُودِيَّةٍ، قَدْ أَحْدَثَا جَمِيعًا، فَقَالَ لَهُمْ: مَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ، قَالُوا: إِنَّ أَحْبَارَنَا أَحْدَثُوا تَحْمِيمَ الْوَجْهِ وَالتَّجْبِيهَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: ادْعُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِالتَّوْرَاةِ، فَأُتِيَ بِهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، وَجَعَلَ يَقْرَأُ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ لَهُابْنُ سَلَامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ فَإِذَا آيَةُ الرَّجْمِ تَحْتَ يَدِهِ: فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا". قَالَ ابْنُ عُمَرَ:" فَرُجِمَا عِنْدَ الْبَلَاطِ، فَرَأَيْتُ الْيَهُودِيَّ أَجْنَأَ عَلَيْهَا . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو لایا گیا، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کتاب تورات میں اس کی سزا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء نے (اس کی سزا) چہرہ کو سیاہ کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا تجویز کی ہوئی ہے۔ اس پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! ان سے توریت منگوائیے۔ جب توریت لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ لیا اور اس سے آگے اور پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ (اور جب اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو) آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں رجم کر دیا گیا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انہیں بلاط (مسجد نبوی کے قریب ایک جگہ) میں رجم کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہودی عورت کو مرد بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔“ [صحيح البخاري/كتاب المحاربين: 6819]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6819 باب: «بَابُ الرَّجْمِ فِي الْبَلاَطِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر باب میں بھی «بلاط» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں بھی، مگر ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے، ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«البلاط و غيره فى ذالك سواء.»
”اس میں بلاط اور غیر بلاط کا کیا فرق ہے؟“
دراصل بلاط اس جگہ کو بھی کہتے ہیں جو فرشی ہوتے ہیں، پتھروں اور اینٹوں سے بنائے گئے، اور بلاط سے مراد مسجد نبوی کے دروازے کے پاس ایک معروف جگہ جہاں پتھر بچھا کر فرش سا بنایا گیا تھا۔ صحیح بخاری کی دیگر احادیث بھی اس پر دال ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المظالم میں فرمایا:
«عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلَاطِ، فَقُلْتُ: . . . . .» (1)
دوسری حدیث کتاب الجہاد میں ذکر فرمائی، چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں:
«عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰهِ الْأَنْصَارِيَّ . . . . . فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ، وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلَاطِ.» (2)
ابن اثیر رحمہ اللہ بلاط کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«البلاط ضرب من الحجارة تفرش به الأرض، ثم سمى المكان بلاطًا اتساعًا، و هو موضع معروف بالمدينة.» (3)
ابن اثیر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ ”بلاط“ اس فرش کو کہتے ہیں، جو پتھروں اور اینٹوں سے بنایا گیا ہو، بعد میں یہ نام مسجد نبوی کے سامنے ایک پتھروں کا فرش تھا اس حوالے سے یہ معروف ہو گیا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس نکتہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«في رواية المستملي ”بالبلاط“ بالموحدة بدل ”في“ ففهم منه بعضهم أنه يريد أن الآلة التى يرجم بها تجوز بكل شيئي حتي بالبلاط.» (4)
”مستملی کے نسخے میں «بالبلاط» ہے، اس سے بعض نے یہ سمجھا کہ مراد وہ آلہ ہے، جس کے ساتھ رجم کیا جائے، یعنی ہر چیز کے ساتھ اسے رجم کرنا درست ہے، حتی کہ بلاط کے ساتھ بھی، یہ ان پتھروں اور اینٹوں وغیرہ کو کہتے ہیں جن سے گھر، فرش، وغیرہ بنائے جائیں۔“
ان گفتگو سے یہ معلوم ہوا کہ لفظ «بلاط» کا معنی ایک وہ جگہ بھی ہے جو مسجد نبوی کے پاس ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کو عام معنوں میں مستعمل کیا گیا ہے، جیسا کہ پچھلی سطروں میں اس پر گفتگو ہوئی، ابن بطال رحمہ اللہ کا اعتراض ہے کہ بلاط اور غیر بلاط میں کیا فرق ہے؟ تو اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و يحتمل عندى فائدتين تقصران: إحداهما أن نبّه على أن الرجم لا يختص بماكن مخصوص لأنه مرة رجم بالبلاط و مرة بالمصلي، و هو الحديث الذى ترجم عليه يلي هذه الترجمة.» (1)
”یعنی ابن بطال پر ترجمۃ الباب کا پیش کرنا اشکال کا باعث بنا، میرے نزدیک ترجمۃ الباب کا احتمال یہ ہے کہ اس میں دو فائدے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رجم کے لیے کوئی مخصوص جگہ متعین نہیں ہے، (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) کبھی رجم ”بلاط“ کی جگہ پر کروایا تو کبھی ”مصلی“ کی جگہ پر (جیسا کہ بعد کے باب سے ظاہر ہوتا ہے)۔“
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان اس امر پر ہے کہ رجم کسی بھی جگہ کیا جا سکتا ہے، لفظ ”بلاط“ کو استعمال کر کے امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ عام مراد لیا ہے، کیوں کہ ”بلاط“ ہر دو معنوں میں معروف اور مستعمل ہے۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زنا کے لیے اظہار اور تشہیر ضروری ہے، کیوں کہ «باب من أمر بضرب الحد فى البيت» کے تحت جو حدیث تھی، اس کا تعلق حد الشرب سے ہے کیوں کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: « ﴿وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ » [النور: 2] اس آیت سے تشہیر اور اظہار کا ثابت ہونا واضح ہے، لہذا اس باب میں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ زنا کی سزا کے لیے کہیں بھی سزا دی جائے، مگر وہ جگہ ایسی ہو جہاں یہ قاعدہ ساقط نہ ہو کہ « ﴿وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ » [النور: 2] ”اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 249
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1329
´جنازہ کی نماز عیدگاہ اور مسجد دونوں میں جائز ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ , وَامْرَأَةٍ زَنَيَا , فَأَمَرَ بِهِمَا فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ . . .»
”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا، جنہوں نے زنا کیا تھا، مقدمہ لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1329]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اشارہ فرمایا کہ جنازہ کی نماز عیدگاہ اور مسجد دونوں میں جائز ہے مگر دلیل کے طور پر جو حدیث پیش کی ہے وہ سنگسار کے بارے میں ہے کہ دو زانیوں کو مسجد کے پاس سنگسار کیا گیا۔ اس میں مطابقت کے بہت دقیق پہلو ہیں۔ پہلی بات پر غور فرمائیں کہ عیدگاہ اور مسجد کا حکم ایک ہی ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يتعرض المصنف لكون الميت بالمصلي أو لأن المصلي عليه كان غائبًا وألحق حكم المصلي بالمسجد بدليل ما تقدم فى العيدين وفي الحيض من حديث أم عطية . . .» [فتح الباري، ج4، ص173]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے میت کا عید گاہ میں ہونا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ میت وہاں موجود نہ تھی بلکہ غائب تھی اور عیدگاہ کا حکم تو مسجد کے ساتھ ملحق ہے ساتھ حدیث ام عطیہ کے کہ حیض والی عورتیں عیدگاہ سے کنارے رہیں سو یہ دلیل ہے اس کی کہ مسجد اور عیدگاہ کا حکم ایک ہے جس چیز سے مسجد میں پرہیز کرنا ضروری ہے اس سے عیدگاہ میں بھی پرہیز کرنا ضروری ہو گا۔
مندرجہ بالا حدیث کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح طور پر حدیث پیش کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں نماز پڑھائی لہٰذا جب عیدگاہ میں نماز ہو سکتی ہے تو مسجد میں نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھا جا سکتا؟
اور جہاں تک تعلق ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث کی جس میں سنگسار کا حکم ہے تو اس حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت یوں ہو گی کہ وہ دونوں مرد و زن مصلی جنازہ کے قریب رجم کئے گئے جو مسجد نبوی کے اندر تھا۔ یہیں سے مطابقت ظاہر ہوتی ہے کہ باب سے جواز ثابت ہو گیا۔ لہٰذا جو نماز جنازہ ہوتی ہو گی وہ مسجد ہی میں ہوتی ہو گی اور یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب سے حدیث کی کتب احادیث میں واضح طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا ثابت ہے۔
◈ امام عبداللہ سالم البصری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وقد روي ابن ابي شيبه وغيره: أن عمر صلى على ابن بكر فى المسجد، وأن صهيبًا صلى على عمر فى المسجد وزاد فى روايته: ووضعت الجنازة فى المسجد تجاه المنبر، وهذا يقتضي الاجماع على جواز ذالك» [ضياء الساري، ج11، ص453]
یعنی ابن ابی شیبہ وغیرہ نے روایت کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں ادا کی اور عمر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ سیدنا صھیب رضی اللہ عنہ نے مسجد میں ادا فرمائی اور دوسری روایت میں ہے کہ جنازہ منبر کے سامنے مسجد میں رکھا گیا اور یہ اس بات کے اقتضاء ہونے کا اجماعی جواز ہے۔
فائدہ:
نماز جنازہ بلا کراہیت مسجد میں ادا کرنا جائز ہے جس کی واضح دلیل امّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، آپ فرماتی ہیں:
«لما توفي سعد بن ابي وقاص دخلوا به المسجد حتي اصلي عليه فانكروا ذالك عليها فقالت والله لقد صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابني بيضاء فى المسجد سهيل وأخيه رواه مسلم وفي رواية ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل بن أبيضاء إلا فى جوف المسجد .» [رواه الجماعة إلّا البخاري]
سعد رضی اللہ عنہ کے جنازے پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی ان پر جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پرنماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی۔“ ایک اور روایت میں صراحت ہے کہ ان کی نماز جنازہ بیچ مسجد میں ادا کی گئی تھی۔
◈ امام شوکانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«والحديث يدل على جواز ادخال الميت فى المسجد والصلاة عليه فيه وبه قال الشافعي وأحمد وإسحاق والجمهور» ”حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا اور جنازے کا داخل کرنا جائز ہے۔ امام شافعی رحمہ الله، امام أحمد رحمہ الله، اسحاق اور جمہور کا بھی یہی مذہب ہے۔“
جہاں تک تعلق ہے میت کے ناپاک اور پاک ہونے کا تو صحیح مسلم میں واضح طور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ مسلمان ناپاک نہیں ہوتا۔ لہٰذا مؤمن ناپاک نہیں ہوتا چاہے وہ زندہ یا مردہ ہو۔ بنوبیضاء تین بھائی تھے۔ سہل، سہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاء کہا گیا ہے۔ ان کا نام رعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری تھا۔
◈ صاحب مرعاۃ عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہیت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیوں کہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔“ تفصیل کے لیے مرعاة المفاتيح دیکھئے۔
◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں جنازہ ادا کرنا بلاکراہیت جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ جیسا کہ امام ماوردی نے صراحت کی ہے۔“ [التوضيح، ج10، ص11، روضة الطالبين: 131/2، الحاوي: 50/3]
◈ ابن العربی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر مسجد میں نماز پڑھی۔ [التوضيح، ج10، ص12]
ایک اشکال اور اس کا جواب:
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے جنازہ مسجد میں پڑھا، پھر اس کے لئے کچھ نہیں ہے۔ [ابوداؤد: 3191]
◈ امام خطابی رحمہ الله نے اس روایت کو ضعیف گردانا ہے۔ [معالم السنن: 272/1]
◈ اس پر أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی قول ہے۔ [المسائل برواية عبدالله، ص146]
◈ ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ خبر باطل ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور یہ خبر کس طرح سے صحیح ہو گی؟ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سہیل رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔ [المجروين: 262/1]
❀ ابن ماجہ میں «فليس عليه شيئ» کے الفاظ ہیں اور شرح السنۃ میں «فلا اجر له» کے الفاظ وارد ہیں، جو صحیح الفاظ ہیں وہ ہیں «لا شيئ له» یعنی اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ديكهئے: [الأحكام الوسطيٰ، ج2، ص141]
◈ امام ابوعمر فرماتے ہیں:
«والصلاة فى المسجد قول جمهور أهل العلم، وهى السنة المحمول بها فى الخليفتين . . .» [الاستذكار لابن عبدالبر، ج8، ص 272۔ 273]
”نماز جنازہ کی ادائیگی مسجد میں جائز ہے، یہ قول جمہور اہل علم کا ہے اور یہ سنت بھی ہے۔ کیونکہ اس پر دونوں خلفاء (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کا عمل رہا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شیخین کے اس عمل کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«وهذا يقتضي الاجماع على جواز ذالك» یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلفاء کے جنازے مسجد میں ادا کرنے کا عمل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ ادا اجماعی طور پر جائز ہے۔
لہٰذا ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ وہ حدیث جس میں «فلا اجر له» وغیرہ کے الفاظ ہیں درست نہیں ہیں اور جس میں یہ الفاظ ہیں کہ اس کے لیے کچھ نہیں تو یہاں سے مراد یہ ہو گا کہ اس پر کچھ گناہ نہیں۔۔۔ کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ جس کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو وہ کام اجر سے خالی ہو۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 264
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 532
´زانی کو سنگسار کیا جائے گا`
«. . . 245- وبه: أنه قال: إن اليهود جاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له أن رجلا منهم وامرأة زنيا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تجدون فى التوراة فى شأن الرجم؟“ فقالوا: نفضحهم ويجلدون. فقال عبد الله بن سلام: كذبتم، إن فيها الرجم، فأتوا بالتوراة فاتلوها. فنشروها فوضع أحدهم يده على آية الرجم فقرأ ما قبلها وما بعدها، فقال له عبد الله بن سلام: ارفع يدك، فرفع يده فإذا فيها آية الرجم، فقالوا: صدق يا محمد، فيها آية الرجم. فأمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجما. قال عبد الله بن عمر: فرأيت الرجل يحني على المرأة يقيها الحجارة. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ ان میں سے ایک مرد و عورت نے آپس میں زنا کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”تم تورات میں رجم کے بارے میں کیا پاتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم (زانیوں کو) ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔“ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا ہے، تورات میں رجم والی آیت موجود ہے، تورات لاؤ اور اسے پڑھو پھر انہوں نے تورات کھولی تو ان میں سے ایک آدمی نے رجم (سنگسار) والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، پھر اس نے آگے پیچھے سے پڑھا تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اپنا ہاتھ اٹھا، پھر اس نے ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم تھی یہودیوں نے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے سچ کہا:، یہاں رجم والی آیت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انہیں رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر اسے پتھروں سے بچانے کے لئے جھک، جھک جاتا تھا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 532]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3635، 6841، ومسلم 27/1699، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ جس چیز کو فریق مخالف حجت تسلیم کرتا ہے تو اسے اس کے خلاف پیش کرنا صحیح اور برحق ہے۔
➋ شادی شدہ زانی کو رجم (سنگسار) کرنا برحق ہے اور صحیح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے حدیث سابق: 41، 54
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ایک گروہ آیا اور آپ کو قُف (ایک وادی) کی طرف تشریف لانے کی دعوت دی تو آپ وہاں ان کے مدرسے میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم میں سے ایک آدمی نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا ہے لہٰذا آپ فیصلہ کریں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تکیہ رکھا تھا جس پر آپ بیٹھے تھے پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس تورات لے آؤ۔ جب تورات لائی گئی تو آپ تکیے سے نیچے اتر گئے اور اس تکیے پر تورات رکھی اور فرمایا: میں تجھ پر ایمان لا یا اور جس نے تجھے نازل کیا ہے اس پر ایمان لایا۔ پھر آپ نے فرمایا: اس شخص کو بلاؤ جو تم میں سے بڑا عالم ہے۔ پھر ایک مضبوط نوجوان لایا گیا پھر انہوں نے مالک عن نافع کی روایت جیسا قصہ رجم بیان کیا۔ [سنن ابي داود: 4449 وسنده حسن]
➍ جب تحریف شدہ تورات کو احتراماً اوپر تکیے پر رکھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور کتب احادیث کو بھی زمین سے بلند رکھنا چاہئے اور ان کا ازحد احترام کرنا چاہئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مخالفین کی مقدس کتابوں کی اُن کے سامنے (یا ان کی غیر حاضری میں) توہین نہیں کرنی چاہئے۔
موجودہ تورات میں لکھا ہوا ہے کہ ”اگر کوئی مرد کسی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔ یوں تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔
اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اُسے شہر میں پاکر اُس سے صحبت کرے۔ تو تم ان دونوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور اُن کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں۔ لڑکی کو اسلئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنے ہمسایہ کی بیوی کو بے حرمت کیا۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔“ [استثناء باب 21 فقره: 22 تا 24، بائبل اردو ص187]
معلوم ہوا کہ موجودہ تورات میں بھی رجم کی سزا موجود ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنے والے عیسائیوں پولسیوں کی محترف انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑیگا اور یہی آدمیوں کا سکھائیگا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائیگا لیکن جوان پر عمل کرے گا اور ان ک تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائیگا۔۔۔“ [متي كي انجيل ب 5 فقره: 17 تا 20، عهد نامه جديد ص 8]
➎ یہودی جھوٹے لوگ ہیں۔ ➏ اسلامی حکومت میں اہلِ ذمہ (کفار ومشرکین) پر ان کی اپنی کتابوں کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔
➐ شادی شدہ زانی پر رجم کا انکار کرنے والے اپنے عمل کی رُو سے یہودیوں کے نقشِ قدم پر گامزن ہیں۔
➑ باطل مذاہب ومسالک کا رد کرنے کے لئے ان کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور ان کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئیں تاکہ وہ کسی کذب بیانی سے کام نہ لے سکیں اور ان پر اِتمامِ حجت بھی کردی جائے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 245
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4446
´دو یہودیوں کے رجم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کر لیا ہے، تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم تورات میں زنا کے معاملہ میں کیا حکم پاتے ہو؟“ تو ان لوگوں نے کہا: ہم انہیں رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگ جھوٹ کہتے ہو، اس میں تو رجم کا حکم ہے، چنانچہ وہ لوگ تورات لے کر آئے، اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ لیا، پھر وہ اس کے پہلے اور بعد کی آیتیں پڑھنے لگا، تو عبداللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4446]
فوائد ومسائل:
1) شرعی احکام کو باطل کرنا یا انہیں چھپانا یہودیوں کی صفت ہے۔
2) اہل کتاب اور دیگر کفار کے نکاح قابل اعتباراور صحیح ہوتے ہیں ورنہ انہیں شادی شدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
3) رجم کا حکم سابقہ ملت موسوی میں بھی رائج تھا، مگر بعد کے لوگوں نےاسے معطل کر چھوڑا تھا۔
4) جس کو سنگسارکیا جانا ہو، اس کو باندھنا کوئی ضروری نہیں ہے۔
(خطابی)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4446
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4449
´دو یہودیوں کے رجم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہود کے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر قف ۱؎ لے گئے آپ ان کے پاس بیت المدارس (مدرسہ) میں آئے تو وہ کہنے لگے: ابوالقاسم! ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کر لیا ہے، آپ ان کا فیصلہ کر دیجئیے، ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک گاؤ تکیہ لگایا، آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھے، پھر آپ نے فرمایا: ”میرے پاس تورات لاؤ“ چنانچہ وہ لائی گئی، آپ نے اپنے نیچے سے گاؤ تکیہ نکالا، اور تورات کو اس پر رکھا اور فرمایا: ”میں تجھ پر ایمان لایا اور اس نبی پر جس پر اللہ نے تجھے نازل کیا ہے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4449]
فوائد ومسائل:
1) سابقہ کتب تورات، زبور، انجیل میں اگرچہ تحریف ہو چکی ہے، مگر بالاجمال ان کے منزل من اللہ ہونے پر ہمارا ایمان ہے۔
2) اور ان کا ادب و احترام بھی واجب ہے۔
اور بے حرمتی کرنا حرام ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4449
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1436
´اہل کتاب کو رجم کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1436]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
امام ترمذی نے جس قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے:
یہود نبی اکرمﷺ کے پاس ایک ایسے مرد اور عورت کو لائے جن سے زنا کا صدور ہوا تھا،
اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے پوچھا:
اس کے متعلق توراۃ میں کیا حکم ہے؟ کیونکہ ہمارے یہاں اس کی سزا رجم ہے،
ان لوگوں نے کہا:
کوڑے کی سزا ہے،
یا چہرے پر کالا پوت کر عوام میں رسوا کیا جانا ہے،
عبد اللہ بن سلام نے کہا:
تم کذب بیانی سے کام لے رہے ہو،
اس میں بھی رجم کا حکم ہے،
چنانچہ توراۃ طلب کی گئی،
اسے پڑھا جانے لگا تو پڑھنے والے نے آیت رجم کو چھپا کر اس سے ماقبل اور بعد کی آیات پڑھیں،
پھر عبداللہ بن سلام کے کہنے پر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم موجود تھی،
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں رجم کا حکم دیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1436
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4437
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جو زنا کر چکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے حتی کہ یہودیوں کے ہاں پہنچ گئے اور ان سے پوچھا: ”تم زنا کرنے والے کے لیے توراۃ میں کیا حکم پاتے ہو؟“ انہوں نے کہا، ہم ان کا منہ کالا کر دیتے ہیں اور ان کو سواری پر سوار کر دیتے ہیں اور ہم ان کے چہرے ایک دوسرے کے مخالف کر دیتے ہیں، یعنی چہرے ایک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4437]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
احصان کا لغوی معنی،
احصان کا اصل معنی منع کرنا ہے،
عورت،
اسلام،
پاکدامنی،
حریت اور نکاح سے محصنہ شمار ہوتی ہے،
امام ثعلب نے کہا،
ہر پاک دامن عورت محصنہ ہے اور ہر شادی شدہ عورت محصنہ ہے،
حاملہ عورت کو بھی محصنہ کہتے ہیں،
کیونکہ حمل نے اس کو تعلقات سے منع کر دیا،
مرد جب شادی شدہ ہو تو وہ محصن ہے،
امام زجاج نے کہا ہے مرد کا احصان اس کا شادی شدہ ہونا اور پاکدامن ہونا ہے اور ﴿الُمحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاء﴾ کا معنی،
شادی شدہ عورتیں ہیں،
(تاج العروس،
ج 9،
ص 179،
مطبعہ خیریہ مصر۔
)
فوائد ومسائل:
زانی جوڑا اہل فدک سے تھا اور وہاں کے لوگوں نے اہل مدینہ کے یہودیوں کے پاس اس مقصد کے لیے بھیجا تھا کہ ان کو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ،
کیونکہ اس کی شریعت میں تخفیف و آسانی ہے،
اس لیے اگر وہ رجم سے کم سزا دیں تو قبول کر لینا،
ہم اللہ کے حضور کہہ سکیں گے کہ یہ تیرے ایک نبی کا فیصلہ تھا،
اس لیے بنو قریظہ اور بنو نضیر کے کچھ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو لے کر ان کی درسگاہ،
جہاں وہ تورات پڑھتے تھے چلے گئے اور تورات کو لایا گیا،
آپ نے عبداللہ بن صوریا نامی اس عالم کو کہا،
تورات پڑھ،
اس نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو پہلے ایک بہت بڑے یہودی عالم تھے،
ان کی موجودگی میں بھی دھوکہ دہی اور بددیانتی سے کام لینے سے گریز نہیں کیا،
اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے یہ قوم کس قدر دھوکہ باز اور بددیانت ہے،
یہ واقعہ 8ھ میں پیش آیا،
اس حدیث سے شوافع اور حنابلہ نے استدلال کیا ہے کہ شادی شدہ کو رجم کرنے کے لیے اس کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے،
اہل ذمہ (مسلمان حکومت کی کافر رعایا)
کو مسلمانوں والی سزا دی جائے گی اور یہی صحیح ہے،
کیونکہ پبلک لاء سب کے لیے برابر ہوتا ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک محصن ہونے کے لیے اسلام شرط ہے،
کافر محصِن نہیں ہوتا،
اس لیے اس کو رجم نہیں کیا جائے گا اور مسلمان کی بیوی اگر ذمی عورت ہو تو وہ محصن نہیں ہو گا،
امام مالک کا بھی یہی قول ہے کہ کافر محصن نہیں،
لیکن ان کے نزدیک مسلمان کی بیوی اگر ذمی عورت ہو تو وہ محصن ہو گا۔
(مغنی ج 12،
ص 317،
318)
اور ایک قول کی رو سے امام احمد کے نزدیک بھی ذمہ عورت کا خاوند مسلمان،
محصن نہیں ہو گا۔
امام ابو حنیفہ کے نزدیک شادی شدہ کافر کو کوڑے لگائے جائیں گے اور امام مالک کے نزدیک تعزیر لگائی جائے گی،
کیونکہ کافر پر حد نہیں ہے،
احناف کے نزدیک یہودی جوڑے کو رجم کی سزا،
تورات کے حکم کی رو سے دی گئی تھی،
حالانکہ قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صریح خطاب ہے کہ اگر اہل کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلہ لائیں تو ﴿فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ﴾ ،
ان کے درمیان اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کیجئے،
نیز قرآن کی روشنی میں کافر عورتیں محصنات ہیں،
کیونکہ سورہ النساء میں فرمایا ہے:
﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ۔
۔
﴾ (سورة النساء: 24)
”شادی شدہ عورتیں تم پر حرام ہیں مگر وہ عورتیں جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔
“ اور امت کے نزدیک اس آیت میں محصنات سے مراد بالاتفاق شادی شدہ عورتیں ہیں،
وہ مسلمان ہوں یا کافر،
اس لیے شادی سے انسان محصن (احصان والا)
شمار ہو گا،
وہ کافر ہو یا مسلمان اور رجم میں وہی احصان مطلوب ہے جو شادی سے حاصل ہوتا ہے،
اس لیے علامہ تقی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حنابلہ اور شوافع کا موقف قوی ہے۔
(تکملہ ج 2 ص 474)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4437
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3635
3635. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ چند یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انھوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ”تم رجم کے متعلق تورات میں کیا پاتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہم انھیں رسوا کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے سے عبارت پڑھتا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ پھر انھوں نے کہا: اے محمد ﷺ!انھوں نے (عبد اللہ بن سلام ؓ نے) سچ فرمایا ہے۔ تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (بدکاروں)کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ عبد اللہ بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3635]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن سلام یہود ؓ کے بہت بڑے عالم تھے، جن کو یہودی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر مسلمان ہوگیے تو یہودی ان کو برا کہنے لگے۔
اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3635
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4556
4556. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں چند یہودی اپنے ایک مرد اور عورت کو لے کر حاضر ہوئے۔ ان دونوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ نے ان یہودیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تم میں سے کوئی زنا کا مرتکب ہو تو تم اس سے کیا سلوک کرتے ہو؟“ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کا منہ کالا کر دیتے ہیں اور انہیں مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ گویا ہوئے: ”کیا تمہیں تورات میں رجم کا حکم نہیں ملا؟“ وہ کہنے لگے: ہمیں تو اس میں ایسا کوئی حکم نہیں ملا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بول اٹھے اور ان سے کہنے لگے: تم جھوٹے ہو۔ تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔ تورات لائی گئی تو ان کے بڑے مدرس نے جو انہیں تورات پڑھایا کرتا تھا اپنا ہاتھ آیت رجم پر رکھ دیا، پھر آگے پیچھے سے پڑھتے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے آیت رجم سے اس کا ہاتھ کھینچا (ہٹایا) اور فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4556]
حدیث حاشیہ:
علمائے یہود کی بد دیانتی تھی کہ وہ من مانی کارروائی کرتے اور توراۃ کے احکام میں ردو بدل کردیا کرتے تھے۔
جس کی ایک مثال مذکورہ روایت میں ہے۔
فقہائے اسلام میں سے بھی بعض کا رویہ ایسا رہا ہے کہ انہوں نے شرعی احکام کی رد و بدل کے لیے کتاب الحیل تصنیف کر ڈالی، جس میں اس قسم کے بہت سے حیلے سکھلائے گئے ہیں۔
خاص طور پر اہل بدعت نے مختلف حیلوں حوالوں سے تمام ہی منہیات کو جائز بنا رکھا ہے۔
ناچنا، گانا، غیر اللہ کو پکارنا، ان کے ناموں کا وظیفہ پڑھنا کون سا ایسا برا کام ہے جو اہل بدعت نے جائز نہ کر رکھا ہو۔
یہی لوگ ہیں جن کو عیسائیوں اور یہودیوں کا چربہ کہنا مناسب ہے۔
رجم کا معنی پتھروں سے کچل کچل کر مار دینا۔
حکومت سعودیہ عربیہ خلدھا اللہ میں آج بھی قرآنی قوانین جاری ہیں۔
أیدھا اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6819
6819. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا: ”تم اپنی کتاب (تورات) میں اس کی سزا کیا پاتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہمارے علماء نے اس جرم کی سزا چہرے کو کالا کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرانا کی تجویز رکھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! انہیں تورات لانے کا کہیں۔ تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک شخص نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے کی آیات پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ، کیا دیکھتے ہیں کہ آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کر دیا گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: انہیں بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔ میں نے یہودی آشنا کو دیکھا کہ وہ اپنی داشتہ کو بچانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6819]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ مسلم اسٹیٹ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے فیصلے ان کی شریعت کے مطابق کئے جائیں گے بشرطیکہ اسلام ہی کے موافق ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6819
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6841
6841. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس یہودی آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: رجم کے متعلق تم اپنی کتاب میں کیا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم انہیں ذلیل وخوار کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو کیونکہ تورات میں تو رجم کی سزا موجود ہے چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ جب اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کا ماقبل اور مابعد پڑھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں آیت رجم موجود تھی۔ یہودیوں نے کہا: یا محمد! اس نے سچ کہا ہے۔ اس میں آیت رجم موجود ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (زانی اور زانیہ) کے متعلق حکم دیا تو انہیں سنگسار کر دیا گیا۔ میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6841]
حدیث حاشیہ:
یہود کا اس طرح تحریف کرنا عام معمول بن گیا تھا۔
صد افسوس کہ امت مسلمہ میں بھی یہ برائی پیدا ہوگئی ہے۔
إلاماشاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6841
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7543
7543. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ”نبی ﷺ کے پاس ایک یہودی کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے یہودیوں سے پوچھا: تم ایسے (مجرموں) کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہم ان کا منہ کالا کرکے انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس بات میں سچے ہوتو رات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ۔“ چنانچہ وہ تورات لائے اور ایک آدمی سے جس پر وپ مطمئن تھے کہا: اے اعور! اسے پڑھ۔ چنانچہ اس نے پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچ کر اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے فرمایا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم چمک رہی تھی۔ اس نے کہا: اے محمد! ان دونوں کے لیے رجم کا حکم تو واقعی ہے لیکن ہم اس حکم کو آپس میں چھپا کرتےہیں۔ پھر آپ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر نےکہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7543]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ آنحضرت ﷺ عبرانی زبان نہیں جانتے تھے پھر جو آپ نےحکم دیا کہ توراۃ لاکر سناؤ۔
گویا ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7543
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3635
3635. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ چند یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انھوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ”تم رجم کے متعلق تورات میں کیا پاتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ہم انھیں رسوا کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے سے عبارت پڑھتا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم موجود تھی۔ پھر انھوں نے کہا: اے محمد ﷺ!انھوں نے (عبد اللہ بن سلام ؓ نے) سچ فرمایا ہے۔ تورات میں رجم کی آیت موجود ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (بدکاروں)کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ عبد اللہ بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3635]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تورات نہیں پڑھی تھی اور نہ اس واقعے سے پہلے اس سے کسی قسم کی واقفیت ہی رکھتے تھے اس کے باوجود آپ نے تورات کے حکم کی طرف اشارہ کیا فرمایا اور آپ کے اشارے کے مطابق تورات میں حکم رجم ظاہر ہوا۔
یہ علامات نبوت کی عظیم ترین دلیل ہے۔
2۔
دراصل یہودیوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر زانی اور زانیہ کا فیصلہ طلب کرو۔
اگر آپ رجم سنائیں تو اس سے صاف انکار کردیا جائے اور اگر کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اسے قبول کر لیا جائے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ہم سے کوڑوں پر اکتفا کرنے کے متعلق سوال کیا تو ہم کہہ دیں گے کہ تیرے آخر الزمان نبی کے حکم کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ واقعی آپ نبی برحق ہیں اور اس میں ذرابھر بھی شک نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ﴾ ”جب ان کے پاس وہ چیز (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)
آگئی جسے انھوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کر دیا۔
“ (البقرة: 89/2)
انھوں نے تورات میں پائی جانے والی نشانیوں کے باعث آپ کو اچھی طرح پہچان لیا تھا لیکن محض ضد کی وجہ سے انکار کر دیا جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق قرآن نے صراحت کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ﴾ ”اور انھوں نے ازراہ ظلم اور تکبر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے۔
“(کہ موسیٰ سچے ہیں) (النمل: 14/27)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3635
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4556
4556. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں چند یہودی اپنے ایک مرد اور عورت کو لے کر حاضر ہوئے۔ ان دونوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ نے ان یہودیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تم میں سے کوئی زنا کا مرتکب ہو تو تم اس سے کیا سلوک کرتے ہو؟“ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کا منہ کالا کر دیتے ہیں اور انہیں مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ گویا ہوئے: ”کیا تمہیں تورات میں رجم کا حکم نہیں ملا؟“ وہ کہنے لگے: ہمیں تو اس میں ایسا کوئی حکم نہیں ملا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بول اٹھے اور ان سے کہنے لگے: تم جھوٹے ہو۔ تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔ تورات لائی گئی تو ان کے بڑے مدرس نے جو انہیں تورات پڑھایا کرتا تھا اپنا ہاتھ آیت رجم پر رکھ دیا، پھر آگے پیچھے سے پڑھتے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے آیت رجم سے اس کا ہاتھ کھینچا (ہٹایا) اور فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4556]
حدیث حاشیہ:
1۔
شرعی احکا م کو باطل کرنا اور انھیں چھپانا یہودیوں کی صفت ہے۔
رجم کا حکم سابقہ ملت موسوی میں بھی رائج تھا، مگر بعد کے لوگوں نے کسی مصلحت کی بنا پر اسے معطل کرچھوڑا تھا۔
اسی طرح کا ایک اورواقعہ بھی احادیث میں منقول ہے، حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک یہودی کو لے کر گزرے جبکہ اس کا چہرہ کالا کیا ہواتھا اور وہ اسے گھما پھرا رہے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں قسم دے کر ان سے پوچھا:
"تمہاری کتا ب میں زانی کی حد کیا ہے؟" انھوں نے یہ بات اپنے ایک آدمی پر ڈال دی کہ وہ بتائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے قسم دے کر پوچھا:
”تمہاری کتاب میں زانی کی حد کیا ہے؟“ اس نے کہا:
سنگسار کرنا ہے لیکن جب ہمارے شرفاء میں زنا کاری عام ہوگئی تو ہم نے نا مناسب خیال کیا کہ صاحب حیثیت کو چھوڑدیا جائے اورغریب پر حد جاری کی جائے، سوہم نے اسے ترک کردیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تو اسے رجم کردیا گیا پھر آپ نے فرمایا:
"اے اللہ! میں وہ پہلا شخص ہوں جو تیری کتاب کے اس حکم کو زندہ کررہا ہوں جسے انھوں نے مردہ کرچھوڑا تھا۔
" (سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4447)
ایک روایت میں ہے:
پھر ہم نے کہا:
آؤہم کسی ایسی بات پر متفق ہوجائیں جو ہم صاحب حیثیت اور کمزور سب پر نافذ کرسکیں، چنانچہ ہم منہ کالا کرنے اور دھول دھپے پرمتفق ہوگئے اور رجم کرنا چھوڑدیا۔
(سنن أبي داود، الحدود، حدیث: 4448)
2۔
بہرحال رسول اللہﷺ نے رجم کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حکم کے مطابق کیا، تورات منگوا کر توان پر حجت قائم کی تھی تاکہ اللہ کا حکم زندہ ہوجائے جسے انھوں نے چھپا رکھا تھا۔
(عمدة القاري: 500/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4556
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6819
6819. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا: ”تم اپنی کتاب (تورات) میں اس کی سزا کیا پاتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہمارے علماء نے اس جرم کی سزا چہرے کو کالا کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرانا کی تجویز رکھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! انہیں تورات لانے کا کہیں۔ تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک شخص نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کے آگے پیچھے کی آیات پڑھنے لگا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ، کیا دیکھتے ہیں کہ آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کر دیا گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: انہیں بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔ میں نے یہودی آشنا کو دیکھا کہ وہ اپنی داشتہ کو بچانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6819]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسجد نبوی کے دروازے کے سامنے بازار تک ایک میدانی علاقہ تھا جس پر پتھر وغیرہ بچھے ہوئے تھے۔
اس جگہ کا نام بلاط تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رجم کی سزا دینے کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہ تھی بلکہ زانی کو کبھی عید گاہ میں رجم کیا جاتا اور کبھی مقام بلاط میں اسے سنگسار کرکے ختم کر دیا جاتا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ سنگسار کرنے کے لیے گڑھا کھودنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے بغیر بھی رجم کیا جا سکتا ہے کیونکہ مقام بلاط میں گڑھا کھودنا ممکن نہ تھا۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسجد اور اس کے آس پاس کا حکم ایک جیسا نہیں ہے کیونکہ بلاط مسجد کے قریب جگہ تھی اور اس کا حکم مسجد کا نہیں، جبکہ اس مقام پر رجم کیا اور مسجد میں رجم نہیں کیا جا سکتا۔
(2)
بعض اہل علم نے بلاط سے مراد وہ پتھر لیے ہیں جن سے زانی کو سنگسار اور رجم کیا جاتا ہے، یہ معنی بعید از عقل ہیں کیونکہ حدیث کے آخر میں ہے کہ یہودی جوڑے کو بلاط کے پاس رجم کیا گیا تھا۔
بہرحال اس سے مراد پتھر نہیں بلکہ وہ مقام ہے جہاں پتھر بچھے ہوئے تھے۔
(فتح الباري: 157/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6819
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6841
6841. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس یہودی آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: رجم کے متعلق تم اپنی کتاب میں کیا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم انہیں ذلیل وخوار کرتے ہیں اور انہیں کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو کیونکہ تورات میں تو رجم کی سزا موجود ہے چنانچہ وہ تورات لے آئے۔ جب اسے کھولا تو ایک شخص نے رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کا ماقبل اور مابعد پڑھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں آیت رجم موجود تھی۔ یہودیوں نے کہا: یا محمد! اس نے سچ کہا ہے۔ اس میں آیت رجم موجود ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں (زانی اور زانیہ) کے متعلق حکم دیا تو انہیں سنگسار کر دیا گیا۔ میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6841]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ذمی، اہل اسلام کی طرف رجوع کریں تو اہل اسلام اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےتورات کا حکم اس لیے پوچھا تھا تاکہ انھیں الزام دے کر خاموش کرایا جائے۔
درج ذیل واقعے سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا اور اس سے پوچھا:
”کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟“ انھوں نے کہا:
ہاں، پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک عالم کو بلایا اور اسے فرمایا:
”میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی تھی! بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟“ اس نے کہا:
نہیں، اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ نہ کرتا۔
بات یہ ہے کہ ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور ہمارے قابو آ جاتا تو اس پر حد جاری کر دیتے، پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ہم ایسی سزا پر اتفاق کر لیں جسے شریف ورذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کر دیا۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے اللہ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔
“ پھر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیا گیا، تب یہ آیت اتری:
”اے رسول! آپ ان لوگوں سے غمزدہ نہ ہوں جو کفر میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں......“ (المائدة: 5: 41)
یہودی کہا کرتے تھے کہ محمد کے پاس چلو، اگر وہ تمھیں منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو اسے اجتناب کرو۔
(صحیح مسلم، الحدود،حدیث: 4440(1700) (2)
قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اختیار ہے کہ یہودیوں کے جھگڑوں میں فیصلہ کریں یا نہ کریں لیکن اگر فیصلہ کریں تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بے لاگ فیصلہ کرنا ہوگا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6841
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7543
7543. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ”نبی ﷺ کے پاس ایک یہودی کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے یہودیوں سے پوچھا: تم ایسے (مجرموں) کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہم ان کا منہ کالا کرکے انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس بات میں سچے ہوتو رات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ۔“ چنانچہ وہ تورات لائے اور ایک آدمی سے جس پر وپ مطمئن تھے کہا: اے اعور! اسے پڑھ۔ چنانچہ اس نے پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچ کر اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے فرمایا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم چمک رہی تھی۔ اس نے کہا: اے محمد! ان دونوں کے لیے رجم کا حکم تو واقعی ہے لیکن ہم اس حکم کو آپس میں چھپا کرتےہیں۔ پھر آپ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر نےکہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7543]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبرانی زبان نہیں جانتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تورات لانے کا حکم دیا اور وہ عبرانی زبان میں تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کلام اللہ کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔
اب دواحتمال ہیں:
ایک یہ کہ تورات پڑھنے والا عبرانی زبان میں پڑھتا، پھر اس کا عربی زبان میں ترجمہ کرتا، اس صورت میں آیت رجم پر ہاتھ رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے جو عبرانی زبان جانتے تھے انھیں اس امر کا پتا نہ چل سکے کہ تورات میں رجم کرنے کا حکم موجود ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ اسے عربی زبان میں پڑھتا۔
اس صورت میں آیت رجم پر اس لیے ہاتھ رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حکم کو چھپایا جائے۔
بالآخر یہ چوری پکڑی گئی اور بدکاری کے مرتکب مرد، عورت دونوں کو رجم کردیا گیا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ترجمہ اور اصل میں فرق واضح ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ترجمہ انسانی کوشش وکاوش اور بندے کا فعل ہے۔
بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں جبکہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7543