صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
3. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ:
باب: بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 7291
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ غَضِبَ، وَقَالَ: سَلُونِي، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟، فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن ابی بردہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7291 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7291
حدیث حاشیہ:
کسی نے پوچھا میری اونٹنی اس وقت کہا ہے؟ کسی نے پوچھا قیامت کب آئے گی؟ کسی نے پوچھا کیا ہر سال حج فرض ہے وغیرہ وغیرہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7291
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7291
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے وقت مسجد میں تشریف لائے، نماز سے فراغت کے بعد منبرپرچڑھے اور قیامت کا ذکر فرمایا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوالات کرنے کی اجازت دی تو لوگوں نے بے فائدہ قسم کے سوال پوچھنے شروع کر دیے، مثلاً:
میری گم شدہ اونٹنی کہاں ہے؟ قیامت کب آئے گی؟ کیا حج ہرسال فرض ہے؟ کیا صفا پہاڑی سونا بن سکتی ہے؟ میرا باپ کون ہے؟ میرا انجام کیا ہوگا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے بلامقصد سوالوں پر غصہ آیا۔
چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے۔
اس لیے انھوں نے معذرت کی اور عرض کی:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سے درگزر فرمائیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث 7294 و فتح الباري: 331/13)
2۔
ایک روایت میں ہے کہ جب عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا:
”تیرا باپ حذافہ ہے۔
“ وہ اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے اس کا ذکر کیا تو اس کی ماں اسے کہنے لگی:
تجھے معلوم ہے کہ ہم نے دور جاہلیت گزارا ہے۔
شاید تو میری رسوائی کا باعث بن جاتا، اس نے جواب دیا:
میں اپنے باپ کے متعلق جاننا چاہتا تھا خواہ وہ کوئی ہوتا۔
(مسند أحمد: 503/2)
3۔
اس قسم کے سوالات پر پابندی لگانا ضروری تھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر انھیں ظاہر کردیا جائے تو تمھیں ناگوار گزرے۔
“ (المآئده: 101)
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی اور کہا:
ہم اس قسم کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(فتح الباري: 331/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7291
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 92
´بےجا سوالات پر استاد کا ناراض ہونا`
«. . . قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]
� تشریح:
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبر ہونے کی بنا پر وحی و الہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہو جاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جو چاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 92
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6125
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرمﷺ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ کو ناگوار گزرا، جب سوالات زیادہ ہونے لگے، آپ ناراض ہو گئے، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”مجھ سے جو مرضی ہے پوچھ لو۔“ تو ایک آدمی نے کہا: میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ ایک اور آدمی کھڑا ہوا، اس نے بھی پوچھا، میرا باپ کون ہے؟ اے اللہ کے رسو ل ﷺ! آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔“ تو ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6125]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ دوسرا سوال کرنے والا،
سعد بن سالم مولیٰ شیبہ بن ربیعہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6125
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:92
92. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سے چند ایسی باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے مزاج کے خلاف تھی۔ جب اس قسم کے سوالات کی آپ کے سامنے تکرار کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا، پھر لوگوں سے فرمایا: ”اچھا جو چاہو مجھ سے پوچھو۔“ اس پر ایک شخص نے عرض کیا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ حذافہ ہے۔“ پھر دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا باپ سالم ہے جو شیبہ کا غلام ہے۔“ پھر جب حضرت عمر ؓ نے آپ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:92]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافقین بھی ہوتے تھے۔
وہ آپ سے ناگفتہ بہ سوالات کرتے۔
ایک دن بے تکے سوالات شروع ہوئے توآپ نے فرمایا کہ آج تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو۔
آپ نے یہ بات غصے میں فرمائی، اس لیے ہرسوال پر غصہ بڑھتا گیا۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ کو لوگ ان کے نسب کے متعلق بہت چڑایا کرتے تھے۔
انھوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سوال کردیا کہ میرا باپ کون ہے؟ پھر حضرت سعد بن سالم مولی شیبہ نے بھی اس قسم کا سوال کرڈالا۔
اگرچہ بشر ہونے کی حیثیت سے آپ غیب دان نہیں تھے لیکن اللہ کے برگزیدہ رسول ہونے کی حیثیت سے وحی کے ذریعے سے ایسے احوال سے آگاہی ہوجاتی جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ انورسے غصے کا اندازہ لگایا تودیگر حاضرین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسے سوالات سے بازرہنے کا وعدہ فرمایا۔
2۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت غصہ دیکھ کر دوزانو بیٹھ گئے اور کہنے لگے:
ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 93)
ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے اور دوزانو بیٹھ کر مذکورہ الفاظ بھی کہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 247/1)
۔
3۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کثرت سوالات اور لایعنی تکلفات ایک مکروہ عمل ہے، نیز کسی صاحب علم سے لغو اوربے ہودہ سوالات کرنا سراسر نادانی اور جہالت ہے کیونکہ اس قسم کے سوالات کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 92