صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7286
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:" قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ، فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ: يَا ابْنَ أَخِي هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ، فَتَسْتَأْذِنَ لِي عَلَيْهِ؟، قَالَ: سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَاسْتَأْذَنَ لِعُيَيْنَةَ فَلَمَّا دَخَلَ، قَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ وَمَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ، فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ بِأَنْ يَقَعَ بِهِ، فَقَالَ الْحُرُّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ سورة الأعراف آية 199 وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ فَوَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ".
مجھ سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے ‘ ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حذیفہ بن بدر مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے الحر بن قیس بن حصن کے یہاں قیام کیا۔ الحر بن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے۔ قرآن مجید کے علماء عمر رضی اللہ عنہ کے شریک مجلس و مشورہ رہتے تھے، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا: بھتیجے! کیا امیرالمؤمنین کے یہاں کچھ رسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے یہاں حاضری کی اجازت لے دو؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت چاہی (اور آپ نے اجازت دی) پھر جب عیینہ مجلس میں پہنچے تو کہا کہ اے ابن خطاب، واللہ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے، یہاں تک کہ آپ نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کر لیا۔ اتنے میں الحر نے کہا: امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا «خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين» کہ ”معاف کرنے کا طریقہ اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔“ اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ پس واللہ! عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ آیت انہوں نے تلاوت کی تو آپ ٹھنڈے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7286 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7286
حدیث حاشیہ:
یہ عیینہ بن حصن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسلمان ہو گیا تھا پھر جب طلیحہ اسدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو عیینہ بھی اس کے معتقدوں میں شریک ہو گیا۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں طلیحہ پر مسلمانوں نے حملہ کیا تو وہ بھاگ گیا لیکن عیینہ قید ہو گیا۔
اس کو مدینہ لے کر آئے۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا توبہ کر۔
اس نے توبہ کی۔
سبحان اللہ! علم کی قدردانی جب ہوتی ہے جب بادشاہ اور رئیس عالموں کو مقرب رکھتے ہیں۔
علم ایسی ہی چیز ہے کہ جوان میں ہو یا بوڑھے میں‘ ہر طرح اس سے افضلیت پیدا ہوتی ہے۔
ایک جوان عالم درجہ اور مرتبہ میں اس سو برس کے بوڑھے سے کہیں زائد ہے جو کمبخت جاہل لٹھ ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں جہاں اور فضیلیتں جمع تھیں وہاں علم کی قدردانی بھی بدرجہ کمال ان میں تھی۔
سبحان اللہ! خلافت ایسے لوگوں کو سزا وار ہے جو قرآن وحدیث کے ایسے تابع اور مطیع ہوں۔
اب ان جاہلوں سے پوچھنا چاہیے کہ عیینہ بن حصن تو تمہارا ہی بھائی تھا پھر اس نے ایسی بد تمیزی کیوں کی اگر ذرا بھی علم رکھتا ہوتا تو ایسی بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکالتا۔
حر بن قیس جو عالم تھے‘ ان کی وجہ سے اس کی عزت بچ گئی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے وہ مار کھاتا کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7286
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7286
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے پاس وقاف تھے، یعنی کتاب اللہ کے احکام پر فوراً عمل کیا کرتے تھے اور جو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے والا ہو وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اقتدا کرتا ہے۔
2۔
اس حدیث سے علم اور اہل علم کی قدردانی کا پتا چلتا ہے کہ یہ اس وقت ہوتی ہے جب بادشاہ اور حکمران ان سے مشاورت کریں اور انھیں اپنے ہاں جگہ دیں۔
امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر بھی علماء قراء اور نیک سیرت عبادت گزار بوڑھے اور نوجوان تھے۔
علم ہی ایک ایسی چیزہے جو بوڑھوں اور جوانوں میں افضلیت پیدا کرتی ہے۔
3۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس کے وقت کوئی دربان نہیں ہوتا تھا۔
ان کی مجلس میں داخل ہونے کے لیے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی، البتہ جب تنہا ہوتے اور آرام کا وقت ہوتا تو اس وقت ان کے پاس جانے کے لیے اجازت لینی پڑتی تھی، اس لیے عیینہ کو تنہائی میں آپ سے ملاقات کے لیے اجازت لینی پڑی لیکن اس نے آداب واحترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آتے ہی ”اے خطاب کے بیٹے!“ سے بات شروع کی۔
یہ اس کی قساوت قلبی (سخت دلی)
اوربڑوں کے مقام ومرتبے سے عدم معرفت تھی۔
اگر اسے علم ہوتا تو ایسی گستاخی اور بدتمیزی نہ کرتا اور بے ادبی کی بات منہ سے نہ نکالتا۔
حضرت حربن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرمداخلت نہ کرتے تو اسے ایسی سزا ملتی کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا۔
4۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کی اہمیت وافادیت کو ثابت کیا ہے جو اپنی جگہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7286