Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7284
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ"، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ: عَنْ اللَّيْثِ عَنَاقًا وَهُوَ أَصَحُّ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھر گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔ ابوبکیر اور عبداللہ بن صالح نے لیث سے «عناقا» (کی بجائے «عقلا») کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7284 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7284  
حدیث حاشیہ:
کیونکہ زکوٰۃ میں تو بکری کا بچہ تو آ جاتا ہے مگر رسی زکوٰۃ میں نہیں دی جاتی۔
بعضوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محمد بن مسلمہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تو وہ ہر شخص سے زکوٰۃ کے جانور باندھنے کے لیے رسی بھی لیتے‘ اسی طرح تبعاً رسی بھی زکوٰۃ میں دی جاتی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7284   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7284  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ تین حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
کچھ لوگ دین اسلام سے برگشتہ ہو کر (پھر کر)
کفر کی طرف لوٹ گئے اور شرائع اسلام کا انکار کر کے بت پرستی اختیار کر لی۔
بعض لوگ ختم نبوت کے منکر ہو گئے اور انھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کو بطور متبنیٰ مان لیا۔
ان دونوں قسم کے لوگوں سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتال کر کے ان کا خاتمہ کر دیا۔
ان سے جنگ کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ہمنوا تھے۔
ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتا تھا۔
ان کا موقف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کو زکاۃ دینا ضروری نہیں۔
ان کے خلاف قتال کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلاف کیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زکاۃ کو نماز پر قیاس کرتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کرنے کا ارادہ کیا جبکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عموم سے حدیث سے استدلال کیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں بیان ہونے والے "حَّقِ اسلام" کے الفاظ سے بھی اپنے موقف کو مضبوط کیا۔
اس وضاحت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مطمئن ہوگئے۔

واضح رہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ شہادتیں کا اقرار کر لیں، نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں۔
جب وہ یہ کام کرنے لگیں گے توانھوں نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے پھر ان کا (باطنی)
حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہوگا۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 25)
یہ حدیث حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یاد نہ تھی اگر یاد ہوتی تو وہ قیاس کے بجائے اسے پیش کرتے اور نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے سامنے تھی وگرنہ وہ اس کے ہوتے ہوئے حدیث کے عموم سے فائدہ نہ اٹھاتے۔
عین ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن سے یہ فیصلہ کن حدیث مروی ہے بحث وتکرار کے وقت وہاں موجود نہ ہوں کیونکہ اگروہاں موجود ہوتے تو اسے پیش کرکے اس اختلاف کو فوراً ختم کیا جا سکتا تھا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں (عناقا)
کے بجائے لفظ (عقلاً)
کو صحیح قرار دیا ہے کیونکہ زکاۃ میں بکری کا بچہ تو آجاتا ہے مگر رسی زکاۃ میں نہیں دی جاتی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7284