Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
71. بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَبَعْدَهَا:
باب: تکبیر ہوتے وقت اور تکبیر کے بعد صفوں کا برابر کرنا۔
حدیث نمبر: 718
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنِّي أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِي".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے عبدالعزیز بن صہیب سے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صفیں سیدھی کر لو۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 718 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 718  
حدیث حاشیہ:
یہ آپ ﷺ کے معجزات میں سے ہے کہ جس طرح آپ سامنے سے دیکھتے اسی طرح پیچھے مہر نبوت سے آپ دیکھ لیا کرتے تھے۔
صفوں کو درست کرنا اس قدر اہم ہے کہ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کا بھی یہی دستور رہا کہ جب تک صف بالکل درست نہ ہوجاتی یہ نماز شروع نہیں کیا کرتے تھے۔
عہد فاروقی میں اس مقصد کے لیے لوگ مقرر تھے جو صف بندی کرائیں، مگر آج کل سب سے زیادہ متروک یہی چیز ہے۔
جس مسجد میں بھی چلے جاؤ صفیں اس قدر ٹیڑھی نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ، اللہ پاک مسلمانوں کو اسوہ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 718   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:718  
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ صفوں کو درست کرنے میں کوتاہی نہ کیا کرو، تمہاری غفلت کا مجھے علم ہوجاتا ہے کیونکہ میں جس طرح تمہیں آگے سے دیکھتا ہوں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔
چونکہ یہ خرق عادت رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ ہے اور وحی سے ثابت ہے، اس لیے اس پر یقین کرنا چاہیے اور عقلاً ایسا ممتنع بھی نہیں۔
(عمدة القاري: 354/2)
یاد رہے ایسا صرف نماز میں ہوتا ہے تھا جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں وضاحت کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 718   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 814  
´سیدھے کھڑے ہو جاؤ کتنی بار کہنا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، برابر ہو جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح تمہیں اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 814]
814 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تین دفعہ کہنا مستحب ہے ورنہ یہ ضرورت پر موقوف ہے۔ اگر صفیں درست ہوں تو ایک دفعہ کہنا بھی ضروری نہیں اور اگر صفوں میں خرابی تین دفعہ کہنے کے باوجود باقی رہے تو ظاہر ہے زیادہ مرتبہ کہا جائے گا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کی حالت میں پچھلی صفوں کو دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے درست اور قول مختار اسی کو قرار دیا ہے نیز یہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 666/1 تحت حدیث: 418]
اس کی تاویل کر کے اسے اس کے ظاہری مفہوم سے پھیرنا مسلک سلف کے خلاف ہے تاہم یہ دیکھنا صرف نماز کی حد تھا (یعنی دوران امامت میں) نہ کہ ہر وقت آپ اپنے پیچھ کا مشاہدہ کرسکتے تھے نیز کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر ایک آنکھ تھی اس سے آپ ہمیشہ دیکھتے رہتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کے دونوں کندھوں پر سوئی کے ناکے کے برابر دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں۔ بہرحال یہ سب تخمینے اور اندازے ہیں دلیل ان کی پشت پناہی نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 666/1]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 814   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 846  
´فوت شدہ نماز کی جماعت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہنے سے پہلے آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی صفوں کو درست کر لیا کرو، اور باہم مل کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 846]
846 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً راویٔ کتاب یا ناسخ کی غلطی سے یہاں لکھی گئی، نیز یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ (فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 815: 816)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 846   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1118  
´پورے طور پر سجدہ کرنے کے حکم کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم رکوع اور سجدہ پوری طرح کرو، اللہ کی قسم! میں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے تمہیں رکوع اور سجدہ کی حالت میں دیکھتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1118]
1118۔ اردو حاشیہ:
➊ رکوع اور سجدہ نماز کی جان ہیں۔ انہیں پورے آداب و سنن سمیت ادا کرنا انہیں مکمل کرنا ہے۔ اعتدال و اطمینان اختیار کیا جائے۔ سجدے کو کھلا کیا جائے۔ تسبیحات و اذکار خشوع و خضوع سے کیے جائیں۔
➋ رکوع اور سجدے کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھے مقتدیوں کو دیکھ لینا، آپ کا معجزہ تھا۔ بعض نے اسے کنکھیوں سے دیکھنے سے تعبیر کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ کنکھیوں سے زیادہ دور تک نہیں دیکھا جا سکتا، جب کہ آپ کا فرمان مطلق ہے، یعنی سب نمازیوں کو آپ دیکھ سکتے تھے، صرف چند افراد کو نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1118   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1364  
´امام سے پہلے سلام پھیرنے سے ممانعت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: میں تمہارا امام ہوں، تو تم مجھ سے رکوع و سجود اور قیام میں جلدی نہ کرو، اور نہ ہی سلام میں، کیونکہ میں تمہیں اپنے آگے سے بھی دیکھتا ہوں، اور پیچھے سے بھی، پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم وہ چیزیں دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں تو تم ہنستے کم، اور روتے زیادہ، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے جنت اور جہنم دیکھی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1364]
1364۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض نے انصراف کے معنیٰسلام کے بعد اٹھ کر جانا مراد لیے ہیں لیکن یہ معنیٰ مراد لینا بعید ہیں کیونکہ سیاق کلام تقاضا کرتا ہے کہ اس سے مراد نماز میں سلام پھیرنا ہی ہے کیونکہ آپ نے رکوع، سجود اور قیام کا ذکر فرمایا، سلام کا ذکر نہیں کیا تو یہاں انصراف سے سلام ہی مراد ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ فرمان کہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ بھی دلالت کرتا ہے کہ جس جلدی سے منع کیا گیا ہے وہ نماز سے سلام پھیرنے میں جلدی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس سے سلام ہی مراد لیا ہے۔ دیکھیے: [شرح صحیح مسلم للنووي، الصلاة، باب تحریم سبق الإمام……… حدیث: 426]
➋ نماز میں امام سے جلدی کرنے کے متعلق دیکھیے، حدیث: 922 کا فائدہ۔
➌ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں پیچھے دیکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 814 کا فائدہ: 2)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1364   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 960  
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رکوع اور سجود کامل طریقہ سے کیا کرو، اللہ کی قسم! میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے سے دیکھتا ہوں، جب تم رکوع کرتے ہو اور جب تک سجدہ کرتے ہو، اور سعید کی حدیث میں إذا کی جگہ ما کا لفظ نہیں ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:960]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھاتے وقت پیچھے سے دیکھنے کی طاقت،
اس طرح عنائیت فرمائی تھی جس طرح عام انسانوں کو سامنے سے دیکھنے کی قوت بخشی ہے،
اور یہ دیکھنا حقیقتاً تھا،
اس میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے،
لیکن اس روایت میں یہ استدلال کرنا کہ ہر وقت شش جہات میں دیکھتے تھے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں غلط ہے کیونکہ ان احادیث کا تعلق صرف نماز سے ہے آگے پیچھے سے نہیں اور جماعت آپﷺ دنیوی زندگی میں کرواتے تھے اب آپﷺ کا اس دنیا سے تعلق ختم ہو چکا ہے برزخی زندگی حاصل ہے کہ اس کے لیے آپﷺ کے شہید ہونے کی دلیل بنانا کہ آپﷺ قیامت کے دن امت کے بارے میں گواہی دیں گے،
صحیح نہیں ہے کیونکہ گواہی تو آپﷺ کی امت بھی دے گی تو کیا وہ بھی دیکھ رہی ہے۔
﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ﴾ رسول تم پر گواہ ہوں گے،
سے پہلے فرمایا:
﴿لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو،
اورمنافقوں کو خطاب کر کے فرمایا:
﴿وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ﷭ (التوبة)
اور فرما دیجئے! تم عمل کرو،
اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔
تو کیا مومن بھی،
منافقوں کے ظاہر وباطن کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ نے مومنوں کو دیکھنے کی یہ نعمت دی ہے اور وہ نعمت دے کر چھینتا نہیں ہے اس کی نعمت دائمی ہوتی ہے تو پھر مومن بھی ہر جگہ دیکھ رہے ہیں،
سورہ حج میں فرمایا:
﴿لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾ (تاکہ تم لوگوں پر گواه ہو جاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
تم پر گواه ہو جائیں)

آپﷺ کی گواہی تو آپﷺ کی امت کے لیے ہے اور امت کی گواہی سب کے لیے ہے تو کیا امت سب لوگوں کے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔
اصل حقیقت وہی ہے جس کو علامہ سعیدی نے بلا وجہ فلسفہ بگھارنے کے بعد شیخ عبدالحق سے نقل کیا ہے جس کا آخری جملہ یہ ہے کہ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمی یابد مگر آنچہ دریا باندویرا پروردگارتبارک وتعالیٰ خواہ درنماز باشد یادرغیرآں پس حالت نماز ہو یا غیر نماز اللہ تعالیٰ کے بتلائے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چیز کاعلم نہیں ہوتا۔
(شرح صحیح مسلم اردو علامہ سعیدی: 1/ 1226)
پھر ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ﴾ کا جواب بھی عجیب وغریب دیا ہے کہ اس حدیث میں درایت کی نفی ہے۔
علم اور بصر کی نفی نہیں ہے درایت کا معنی ہے،
اپنی عقل سے از خود جاننا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امور غیبیہ کو اللہ کی تعلیم سے جانتے ہیں،
ازخود نہیں جانتے۔
(شرح صحیح مسلم: 1/ 1225)
جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بتا دی اس کے جاننے کا کونسا انسان جو آپﷺ پر ایمان رکھتا ہے،
انکار کر سکتا ہے۔
اصل چیز تو یہ ثابت کرنا ہے کہ ہر چیز کاعلم اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دے دیا ہے اور اس کے لیے حنفی اصول فقہ کے مطابق قطعی دلیل کی ضرورت ہے،
قرآن مجید میں مشرکوں کو خطاب کر کے فرمایا:
﴿قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْرَاكُمْ بِهِ﴾ اگراللہ چاہتا تو میں تمھیں نہ سناتا اور نہ وہ تمھیں اس سے آگاہ کرتا تو کیا مشرک اپنی عقلوں سے خود جان لیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 960   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 976  
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صفوں کو پورا کرو، میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:976]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
معلوم ہوتا ہے اتمام،
اقامت کے معنی میں ہے کیونکہ صحیح بخاری میں اَتِمُّوا کی جگہ أَقِیمُوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 976   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 719  
719. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو درست کر لو اور باہم مل کر کھڑے ہو جاؤ کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:719]
حدیث حاشیہ:
تراصوا کا مفہوم یہ ہے کہ چوناگچ دیوار کی طرح مل کر کھڑے ہو جاؤ۔
کندھے سے کندھا، قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ ملا لو۔
سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ﴾ (الصف: 4)
اللہ پاک ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں شیشہ پلائی ہوئی دیواروں کی طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں۔
جب نماز میں ایسی کیفیت نہیں کرپاتے تو میدان جنگ میں کیا خاک کرسکیں گے۔
آج کل کے اہل اسلام کا یہی حال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 719   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6644  
6644. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم رکوع اور سجود کو پورے طور پر ادا کیا کرو، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب تم رکوع اور سجود کرتے ہو تو میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھ لیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6644]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں آپ کی قسم مذکورہے یہی باب سےمطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6644   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 725  
725. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنی صفوں کو درست رکھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:725]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری ؒ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لا کر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔
جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔
جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔
حضرت انس ؓ کا بیان بھی موجو دہے۔
نیز فتح الباری، جلد: 2 ص: 176 پر حضرت انس ؓ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ لو فعلت ذلك بأحدهم الیوم لنفر کأنه بغل شموس اگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔
جس پر حضرت انس ؓ کو ایسا کہنا پڑا۔
اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔
روی أبوداود و الإمام أحمد عن ابن عمر أنه علیه الصلوٰة والسلام قال أقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صله اللہ و من قطع صفا قطعه اللہ و روی البزار بإسناد حسن عنه علیه الصلوٰة و السلام من سد فرجة في الصف غفر اللہ و في أبي داود عنه علیه الصلوٰة والسلام قال خیارکم ألینکم مناکب في الصلوٰة۔
یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔
یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔
یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا خدا اس کو قطع کرے گا۔
بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔
ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔
وَعَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ:
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُسَوِّي صُفُوفَنَا كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهِ الْقِدَاحَ حَتَّى رَأَى أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا فَقَامَ حَتَّى كَادَ أَنْ يُكَبِّرَ فَرَأَى رَجُلًا بَادِيًا صَدْرُهُ مِنْ الصَّفِّ، فَقَالَ:
عِبَادَ اللَّهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ»
رَوَاهُ الْجَمَاعَة إلَّا الْبُخَارِيَّ فَإِنَّ لَهُ مِنْهُ:
«لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ» وَلِأَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُد فِي رِوَايَة قَالَ:
فَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يُلْزِقُ كَعْبَهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، وَمَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِهِ۔
(نیل الأطار ج: 3ص: 199)
یعنی نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔
یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔
ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔
آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔
بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔
ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔
اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخہ ملایا کرتا تھا۔
امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں:
عن إبراهیم أنه کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و به ناخذ لا ینبغي أن یترك الصف و فیه الخلل حتی یسووا و هو قول أبي حنفیة۔
یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔
امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔
جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغي للمأمومين أن یتراصوا و أن یسدو الخلل في الصفوف و یسووا مناکبهم وینبغي للإمام أن یأمرهم بذلك و أن یقف وسطهم یعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔
(شامی، ج: 1ص: 595)
یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔
اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں، جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔
باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے عجیب فتوی:
ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔
(تفہیم البخاری پ: 3 ص: 108)
بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چونا گچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔
درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔
مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔
(حوالہ مذکور)
تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔
اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔
پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟ اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔
چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔
ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔
"لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
'' یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 725   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:419  
419. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور نماز اور رکوع کے متعلق فرمایا:بےشک میں تمہیں اپنے پیچھے سے اس طرح دیکھتا ہوں، جس طرح سامنے سے دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:419]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مصالح مساجد کی طرف اشارہ فرمایا کہ امام کو چاہیے وہ مقتدیوں کے احوال پر نظر رکھے۔
اگر وہ نماز وغیرہ صحیح نہ پڑھتے ہوں تو انھیں تنبیہ کرے۔
اگر اسے دائیں بائیں التفات کرنا پڑے تو اس میں چنداں حرج نہیں۔
البتہ یہ التفات گوشہ چشم سے ہونا چاہیے اپنا منہ اور سینہ قبلے کی طرف رکھے، کیونکہ چہرے کا انحراف کراہت اور سینے کا انحراف فساد نماز کا حکم رکھتا ہے۔
بعض شارحین نے رکوع کی مناسبت سے خشوع سے مراد سجدہ لیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک بہتر ہے کہ خشوع کو اپنے عموم پر رکھا جائے تاکہ تمام افعال نماز اس میں آجائیں خاص طور پر رکوع کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں کوتاہی زیادہ ہوتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جلد بازی میں بہت سے لوگ رکوع کا اتمام نہیں کرتے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں خشوع کے بجائے سجود کے الفاظ ہیں۔
(فتح الباري: 666/1)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں پچھلی سمت سے بھی سامنے کی طرح دیکھتا ہوں۔
اس روایت کے متعلق شارحین کے کئی اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس سے مراد آپ کا معلوم کرلینا ہے، خواہ بذریعہ وحی ہو یا بطریق الہام ان کے ذریعے سے آپ کو مقتدی حضرات کی حرکات و سکنات بتادی جاتی تھیں مگر یہ درست نہیں، کیونکہ اس سے پیٹھ پیچھے کی قید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ دائیں بائیں کے لوگوں کو کسی قدر التفات نظر سے دیکھ لیتے ہوں گے، مگر یہ رائے بھی بے وزن ہے، کیونکہ اس میں آپ کی کیا خصوصیت رہی۔
دیوار قبلہ میں آئینے کی طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے نمازیوں کی تصاویر آجاتی تھیں جس سے آپ صورت حال سے مطلع ہو جاتے تھے۔
عام مشائخ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، لیکن اس پر قرآن و سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔
رسول اللہ ﷺ کو پشت مبارک میں قوت باصرہ عطا فرمائی گئی تھی، پھر آگے وضاحت ہے کہ قوت باصرہ مہرنبوت میں تھی یا دونوں کندھوں کے درمیان سوئی کی نوک کی طرح آنکھیں عطا کی گئی تھیں۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ اس موقف کو بھی محققین نے مسترد کردیا ہے کہ اگر ايسی بات ہوتی تو سیرت ہوتی تو سیرت نگار آپ کے احوال میں اس کا تذکرہ کرتے۔
سب سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے کہ سامنے کی طرح پیچھے بھی دیکھنا رسول اللہ ﷺ کے خصائص سے تھا اور وہی علم وادراک حقیقی کا سبب تھا جو بطور خرق عادت (معجزہ)
آپ کو حاصل تھا۔
امام بخاری ؒ کا پسندیدہ موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ انھوں نے اسی روایت کو علامات نبوت میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا بھی رجحان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعام انسانوں کی مقررہ عادت کے خلاف انھی آنکھوں سے ہرسمت دیکھنے کی طاقت عطا فرما دی تھی۔
اس لیے بعید نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے نماز میں یہ خصوصیت ہو کہ آپ مقتدیوں کو بلا جہت دیکھتاہوں، لیکن یہ حالت کلی طور پر نہیں رہتی تھی کہ اس سے مسئلہ علم غیب کشیدکیا جا سکے، کیونکہ ابو بکرہ کی روایت میں ہے کہ وہ مسجد میں آئے جبکہ جماعت ہو رہی تھی۔
انھوں نے دور ہی سے رکوع کر لیا۔
نماز کے بعد دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں تنبیہ فرمائی۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ہانپتے کانپتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت بلند آواز سے (حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ)
کے الفاظ کہے۔
رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد دریافت فرمایا کہ بآواز بلندیہ کلمات کہنے والا کون تھا؟ بتانے پر معلوم ہوا کہ وہ فلاں شخص تھا اگر آپ کو ہمیشہ بحالت نماز پیچھے سے نظر آتا رہتا تو دریافت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کو خشوع اور اتمام ارکان کی طرف توجہ دینی چاہیے، نیز امام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو نماز سے متعلقہ مسائل واحکام پر متنبہ کرتا رہے۔
خاص طور پر اگر ان میں کوتاہی نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے میں پوری توجہ کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 667/1)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 419   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:719  
719. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اپنی صفوں کو درست کر لو اور باہم مل کر کھڑے ہو جاؤ کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:719]
حدیث حاشیہ:
(1)
صف بندی کے متعلق رسول اللہ ﷺ بہت اہتمام فرماتے اور اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی بہت تاکید کرتے تھے۔
اس روایت میں (تراصوا)
کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صف بندی کے وقت اس طرح کھڑے ہونا چاہیے کہ درمیان میں کسی قسم کا کوئی شگاف نہ ہو، نیز اس حدیث سے پتہ چلا کہ تکبیر ہوجانے کے بعد نماز شروع کرنے سے پہلے گفتگو کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ نماز کی مصلحت سے متعلق ہو۔
(فتح الباري: 270/1) (2)
بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نمازیوں کی صفیں، آسمان میں فرشتوں کی صفوں کے مقابل ہوتی ہیں، اس لیے صف بندی کا خصوصی اہتمام کیا گیا اور اچھی طرح مل کر کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ فرشتوں کے ساتھ پوری پوری مشابہت ہوجائے۔
(3)
ایک رویت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نماز کے وقت صفوں کو پیوست کرو،قریب قریب ہوجاؤاور اپنی گردنوں کو برابر کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں دیکھتا ہوں کہ شیطان بکری کے بچے کی طرح تمہاری صفوں کےشگافوں میں گھس آتا ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 667)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 719   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:725  
725. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اپنی صفوں کو درست رکھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اپنے ساتھی کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:725]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے صف بندی کے متعلق متعدد احادیث پیش کی ہیں اور مذکورہ عنوان اس سلسلے کا آخری عنوان ہے۔
اس میں آپ نے بتایا کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے کندھے سے کندھا، قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہو۔
اس کے متعلق حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت انس ؓ کا بیان نقل ہوا ہے کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑے ہوتے تھے۔
(2)
بعض روایات میں حضرت انس ؓ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ اگر میں آج اپنے ساتھی کے قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سرکش خچر کی طرح بدکتا اور دور بھاگتا ہے۔
(فتح الباري: 274/2)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا عہد ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس سنت سے غافل ہونے لگے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدم سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بن گیا تھا جس پر حضرت انس ؓ کو اظہار افسوس کرنا پڑا۔
امام محمد ؒ امام نخعی ؒ کا قول نقل کرتے ہیں:
صفیں اور کندھے برابر کرو، انھیں باہم پیوست رکھو کہیں شگافوں سے شیطان دخل اندازی نہ کرے۔
(3)
امام محمد ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی اسی پر عمل ہے کہ صف میں کوئی شگاف نہیں چھوڑنا چاہیے تاآنکہ انھیں درست نہ کر لیا جائے۔
امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔
(کتاب الآثار للشیباني، باب إقامة الصفوف و فضل الصف الأول: 192/1 -
195)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ جب تک صفیں درست نہ ہوجاتیں نماز شروع نہ کرتے۔
عہد فاروقی میں اس کارخیر کے لیے کارندے تعینات تھے مگر آج سب سے زیادہ متروک یہی عمل ہے، حالانکہ یہ کوئی اختلافی نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 725   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:742  
742. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم اپنا رکوع اور سجود ٹھیک ٹھیک ادا کیا کرو۔ اللہ کی قسم! جب تم رکوع اور سجدہ کرتے ہو تو میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ اور کبھی فرمایا: میں اپنی پس پشت سے تمہیں دیکھتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:742]
حدیث حاشیہ:
(1)
فقہی اعتبار سے نماز میں خشوع مستحب اور پسندیدہ ہے، البتہ نماز کی روح ہونے کے اعتبار سے لازمی ہے۔
لیکن اگر اسے ضروری قرار دیا جاتا تو اکثر لوگوں کی نمازیں باطل ہوجاتیں، اس لیے خشوع کے بغیر نماز ہوجاتی ہے اگرچہ وہ ناقص اور روح سے خالی ہوگی۔
خشوع انتہائی سکون کا نام ہے۔
پھر اس کا تعلق ظاہری اعضاء سے ہے اور خضوع کا تعلق دل سے ہوتا ہے اگرچہ خشوع کامل یہ ہے کہ انسان ظاہر اور باطن سے اللہ کی طرف متوجہ ہو۔
امام بخاری ؒ نے لفظ خشوع اس لیے اختیار کیا ہے کہ ظاہر اعضاء اور جوارح کا فعل ہے اور انسان کے اختیار میں ہے جبکہ خضوع دل کا فعل اور غیر اختیاری ہے، اس بنا پر اختیاری فعل پر عنوان قائم کیا ہے تاکہ دل کے افعال کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں موجود کچھ لوگوں سے ایسی حرکات سرزد ہوئیں جو نماز کے منافی تھیں، مثلا:
حدیث میں ہے کہ ایک دن آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو پچھلی صفوں میں کھڑے ہوئے آدمی نے نماز اچھی طرح نہ پڑھی تو آپ نے تنبیہ کے طور پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
اس طرح ایک شخص نے دوران نماز میں رسول اللہ ﷺ سے مسابقت کی تاکہ معلوم کرے کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کا علم ہوتا ہے یا نہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو اسے منع فرمایا، اس طرح کے دیگر واقعات دیکھنے کے بعد آپ نے بطور تنبیہ فرمایا جو حدیث ابو ہریرہ اور حدیث انس میں بیان ہوا ہے۔
امام بخاری ؒ نے ان دونوں احادیث کو اس عنوان کے تحت اکٹھا بیان فرمایا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی واقعے سے متعلق ہیں۔
(فتح الباري: 298/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 742