Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
6. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعِلْمِ:
باب: شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا۔
حدیث نمبر: 63
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْنَا: هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَبْتُكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي سَائِلُكَ، فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ، فَقَالَ: سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، فَقَالَ: أَسْأَلُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ: آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ"، وَرَوَاهُ مُوسَى، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا () محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے ثابت سے، انہوں نے انس سے، انہوں نے یہی مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 63 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63  
تشریح:
مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔

حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 63  
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔
مسنداحمد میں حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یوں ہے "فأناخ بعیره علی باب المسجد" یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔
اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللهم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔
اللهم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت پورے اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔
ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔
حضرت امام بخاری  کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔
پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔
کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ ﷺ سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔
لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:63  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حج کا ذکر نہیں ہے کیونکہ روایت میں اختصار ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں حج کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص پرحج فرض ہے جوزادسفر کی استطاعت رکھتا ہو۔
(صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 102(12)
نیز حضرت ضمام کی آمد 9ہجری میں ہوئی تو اس وقت حج فرض ہوچکا تھا کیونکہ ان کا تعلق بنوسعد سے ہے جو قبیلہ ہوازن کا ایک بطن(حصہ)
ہے اور قبیلہ ہوازن غزوہ حنین کے بعد مسلمان ہوا تھا۔
(فتح الباری: 201/1)

اس حدیث سے خبر واحد کے حجت ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی آپ بیتی قوم کے سامنے بیان کی تو انھوں نے اس کااعتبار کیا اور مسلمان ہوگئے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگردادا کی شہرت زیادہ ہوتواس کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباری: 202/1)

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت سے عالی سند کے افضل ہونے پر استدلال کیا ہے،نیز اس کا حصول ایک بہترین مشغلہ ہے کیونکہ حضرت ضمام نے اپنی آمد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد سے یہ تمام باتیں معلوم کررکھی تھیں لیکن خود حاضر ہوکر دریافت کیا۔
اس سے معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہے اور کسی دوسرے شیخ سے روایت لینے سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہے تو ملاقات کرکے عالی سند حاصل کرلینی چاہیے(فتح الباری: 201/1)
۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ غرض وقراءت کا طریقہ بھی معتبر ہے،اس میں کوئی خامی نہیں کہ اس کا اعتبار نہ کیاجائے جیساکہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی دینی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیں اور آپ نے ان کی تصدیق وتصویب فرمائی،پھرحضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کے پاس گئے انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور سب کے سب ایمان لے آئے۔
نوٹ:
۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ابومحمد بن صغانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نسخہ بغداد یہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث درج ہے،دیگر کسی نسخے میں اس حدیث کا وجود نہیں ملتا،لہذا ہم نے بھی اسے قلم زد کردیا ہے۔
(فتح الباری: 203/1)
یاد رہ کہ ہمارے ہندی مطبوعہ نسخوں میں موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 63   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2094  
´روزے کی فرضیت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر آیا، اسے مسجد میں بٹھایا پھر اسے باندھا، (اور) لوگوں سے پوچھا: تم میں محمد کون ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو ہم نے اس سے کہا: یہ گورے چٹے آدمی ہیں، جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، آپ کو پکار کر اس شخص نے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: میں نے تمہاری بات سن لی (کہو کیا کہنا چاہتے ہو) ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2094]
اردو حاشہ:
(1) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے…
(2) ابن عبدالمطلب عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوۂ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ] (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2842، وصحیح مسلم، الجهاد، حدیث 1776)
(3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔
(4) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2094   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2095  
´روزے کی فرضیت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک شخص اونٹ پر سوار آیا، اس نے اسے مسجد میں بٹھا کر باندھا (اور) لوگوں سے پوچھا: تم میں محمد کون ہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے اس سے کہا: یہ گورے چٹے آدمی ہیں جو ٹیک لگائے ہوئے ہیں، تو (اس) شخص نے (پکار کر) آپ سے کہا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: میں نے تمہاری ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2095]
اردو حاشہ:
یہ مخالفت بھی سند میں ہے۔ اس میں عبیداللہ بن عمر لیث بن سعد کی مخالفت یوں کرتے ہیں کہ لیث اسے بواسطہ سعید المقبری شریک بن عبداللہ سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، یہی روایت راجح ہے، ابوحاتم اور امام دارقطنی نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن عمر نے سعید المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے روایت کیا ہے۔ بہرکیف اس اختلاف سے متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ صحیحین وغیرہ میں یہ روایت اسی طرح آتی ہے۔ دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ: 20 235)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2095   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 619  
´زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 619]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ ہمیں سورہ مائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا،
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔

2؎:
اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔

3؎:
اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے،
مسلم کی روایت میں ((وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلاَ أَنْقُصُ)) کے الفاظ آئے ہیں۔

4؎:
یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے،
مؤلف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائز نہیں،
صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے،
اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت سمعت،
سمعنا،
حدثنا،
حدثني،
أخبرنا،
أخبرني،
أنبأنا،
أنبأني کے صیغے استعمال کرتا ہے،
اس کے بر خلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع،
يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کر روایت کرتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 619   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 102  
حضرت انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ہمیں (بلا ضرورت) رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھ دار بدوی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے سوال کرے اور ہم سنیں۔ تو ایک بدوی آیا اور کہنے لگا: اے محمد (ﷺ)! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا اس نے ہمیں بتایا، آپ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا: تو آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپؐ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:102]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَهْلُ الْبَادِيَة:
اعرابی،
بدوی یا جنگلی لوگ،
جن میں جہالت اور جفا (درشتی و ترشی)
عام ہے۔
(2)
اَلْعَاقِلُ:
دانشمند،
سمجھ دار۔
(3)
زَعْم:
محض گمان یا ظن کے معنی میں نہیں،
بلکہ یقین قول (بات)
کے معنی میں استعمال ہوا ہے،
اس لیے آپ نے تصدیق کی۔
(4)
نَصَبَ:
گاڑنا،
پیوست کرنا۔
(5)
جِبَال:
جبل کی جمع ہے،
پہاڑ۔
فوائد ومسائل:
(1)
سوال کی بندش کرنے میں قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی آیت کی طرف اشارہ ہے:
﴿لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ (المائدہ: 101)
ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لیے ناگواری کا باعث بنیں۔
اصل بات یہ ہے کہ نئے نئے سوالات کرنا انسانی فطرت ہے،
لیکن اس عادت کو اگر بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان غیر متعلق اور بے فائدہ چیزوں کے متعلق سوالات کرنا شروع کر دیتا ہے،
اور اس کا رجحان موشگافیوں کی طرف بڑھ جاتا ہے،
وہ بال کی کھال اتارتا ہے،
جس سے عمل کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے،
حالانکہ اصل مقصد عمل ہے،
نیز رسول سے زیادہ سوال کرنے کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ پابندیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
(جیسا کہ بنو اسرائیل کے گائے کے بارے میں سوالات سے یہ بات ظاہر ہے)
جس سے عمل میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور جذبہ عمل مزید کمزور ہو جاتا ہے،
اس وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غیر ضروری اور بے مقصد سوال کرنے سے روک دیا گیا،
اس لیے وہ براہ راست بہت کم سوال کرتے تھے،
اور اس بات کے آرزو مند رہا کرتے کہ کوئی عاقل اور سمجھ دار اعرابی آئے،
جو سوال کرنے کی کیفیت،
آداب اور ضرورت کو سمجھتا ہو،
وہ آپ سے سوال کرے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو سننے کا موقع مل جائے۔
(2)
قسم بعض دفعہ محض تاکید اور تقریر کے لیے اٹھائی جاتی ہے،
کسی شک وشبہ کو دور کرنا مقصود نہیں ہوتا۔
(3)
سائل کو جواب دیتے وقت اس کی حیثیت ومقام اور معاشرتی سطح کا لحاظ رکھنا چاہیے،
رسول اللہ ﷺ کے ہاں بدویوں کے لیے بڑی وسعت وکشادگی تھی،
وہ سوالات میں بڑی جرأت وجسارت دکھاتے اور بے دھڑک جو چاہتے پوچھ لیتے۔
بسا اوقات سخت رویہ اختیار کرتے وہ شہری تہذیب وسلیقہ یا ادب وآداب کا لحاظ نہ رکھتے،
لیکن آپ کے رخ انوار پر ملال ظاہر نہ ہوتا،
خندہ روئی سے جواب دیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 102