Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
حدیث نمبر: 7277
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن مرہ نے خبر دی، کہا میں نے مرۃ الہمدانی سے سنا، بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعت) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7277 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7277  
حدیث حاشیہ:
آخرت عذاب قبر حشر نشر یہ سب کچھ ضرور ہو کر رہے گا۔
دوسری مرفوع حدیث میں ہے جابر رضی اللہ عنہ کی کلُ بدعة ضلالة اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے من أَحدَثَ في أمرِنا ھذا ما لیس منهُ فھُوَ رد اور عرباض بن ساریہ کی حدیث میں ہے إیاکُم ومحدثاتِ الاُمورِ فإن کل بدعة ضلالة اس کو ابن ماجہ اور حاکم اور ابن حبان نے صحیح کہا۔
حافظ نے کہا بدعت شرعی وہ ہے جو دین میں نئی بات نکالی جائے جس کی اصل شرع سے نہ ہو۔
ایسی ہر بدعت مذموم اور قبیح ہے لیکن لغت میں بدعت ہر نئی بات کو کہتے ہیں۔
اس میں بعض بات اچھی ہوتی ہے اور بعض بری۔
امام شافعی نے کہا ایک بدعت محمود ہے جو سنت کے موافق ہو‘ دوسری مذموم جو سنت کے خلاف ہو اور امام بیہقی نے مناقب شافعی میں ان سے نکالا‘ انہوں نے کہا نئے کام دو قسم کے ہیں ایک تو وہ جو کتاب وسنت اور آثار صحابہ اور اجماع کے خلاف ہیں‘ وہ بدعت ضلالت ہیں۔
دوسرے وہ جو ان کے خلاف نہیں ہیں وہ گو محدث ہوں مگر مذموم نہیں ہیں۔
میں کہتا ہوں بدعت کی تحقیق میں علماء کے مختلف اقوال ہیں اور انہوں نے اس باب میں جداگانہ رسائل اور کتابیں تصنیف کئے ہیں اور بہتر رسالہ مولانا اسماعیل صاحب کا ہے ایضاح الحق۔
ابن عبد السلام نے کہا بدعت پانچ قسم ہے بعضی بدعت واجب ہے جیسے علم صرف اور نحو کا حاصل کرنا جس سے قرآن وحدیث کا مطلب سمجھ میں آئے۔
بعضے مستحب ہیں جیسے تراویح میں جمع ہونا‘ مدرسے سے بنانا‘ سرائیں بنانا۔
بعضے حرام ہیں جو خلاف سنت ہیں جیسے قدریہ مرجیہ مشبہ کے بدعات بعضے مباح ہیں جیسے مصافحہ نماز فجر یا نماز عصر کے بعد اور کھانے پینے کی لذتیں وغیرہ بعضے مکروہ اور خلاف اولیٰ۔
میں کہتا ہوں ابن عبد السلام کی مراد بدعت سے بدعت لغوی ہے۔
بیشک اس کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں۔
لیکن بدعت شرعی جس کی کوئی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو اور قرون ثلٰثہ کے بعد دین میں نکالی جائے وہ نری گمراہی ہے ایسی بدعت کوئی اچھی نہیں ہو سکتی اور صرف ونحو کا علم حاصل کرنا یا مدرسے سے سرائیں بنانا یا نماز تراویح میں جمع ہونا بدعت شرعی نہیں ہے کیونکہ ان کی اصل کتاب وسنت سے پائی جاتی ہے اور ان میں کی بعضی باتیں صحابہ اور تابعین کے وقت میں شروع ہو گئی تھیں۔
بدعت شرعی وہ ہے جو صحابہ اور تابعین اورتبع تابعین کے بعد دین میں نکالی جائے اور اس کی اصل کتاب اور سنت سے نہ ہو۔
رہا مصافہ عصر اور فجر کی نماز کے بعد تو گو ابن عبد السلام نے اس کو مباح کہا مگر اکثر علماء نے اس کو بدعت مذموم قرار دیا ہے۔
اسی طرح عیدین کے دن مصافحہ اور معانقہ سے منع کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7277   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7277  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں کتاب وسنت کی اہمیت اور انھیں عمل میں لانے کی ترغیب بیان کی گئی ہے جو عنوان کا مقصد ہے۔
مزید برآں بدعت کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔
بدعت شرعی یہ ہے کہ کتاب وسنت میں جس کی کوئی بنیاد نہ ہو اور قرون ثلاثہ کے بعد اسے دین کا حصہ بنا دیا جائے۔
ایسا کرنا جرم ہے کیونکہ دین میں اصل توقیف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی راہ نکالی جو اس (دین)
سے نہیں وہ مردود ہے۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2697)
نیز فرمایا:
جس نے کوئی ایسا کام کیا جوہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ بھی مردود ہے۔
(صحیح مسلم، الأقضیة، حدیث: 4493(1718)

بدعت کی دو قسمیں ہیں:
الف۔
اقوال واعتقاد میں بدعت:
اس میں گمراہ فرقوں کے اقوال وعقائد شامل ہیں۔
ب۔
عبادات میں بدعت:
اللہ تعالیٰ کی عبادت غیر شرعی طریقے سے کرنا۔
اس کی چند قسمیں ہیں:
۔
نفس عبادت ہی بدعت ہو، مثلاً:
کوئی ایسی عبادت ایجاد کرلی جائے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں، جیسے عید میلا۔
۔
مشروع عبادت میں اضافہ کر دیا جائے، مثلاً:
ظہر یا عصر کی نماز میں پانچویں رکعت کا اضافہ کرنا۔
۔
عبادت مشروع ہو لیکن اس کی ادائیگی کا طریقہ غیر شرعی ہو، مثلاً:
مشروع اذکارکو اجتماعی آواز سے پڑھنا۔
۔
مشروع عبادت کو ایک وقت کے ساتھ خاص کر دیا جائے، مثلاً:
شعبان کی پندرھویں شب کو نماز کا اہتمام کرنا کیونکہ نماز تو مشروع ہے لیکن اسے کسی وقت کے ساتھ خاص کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔
بہرحال حدیث بالا کے مطابق دین میں ہرنیا کام بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7277