Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ
کتاب: خبر واحد کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:
باب: ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا۔
حدیث نمبر: 7260
وحَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ:" بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَعْرَابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ لِي بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ لَهُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأْذَنْ لِي، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْ: فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا وَالْعَسِيفُ الْأَجِيرُ فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَأَخْبَرُونِي، أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي، أَنَّ عَلَى امْرَأَتِهِ الرَّجْمَ، وَأَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرُدُّوهَا، وَأَمَّا ابْنُكَ فَعَلَيْهِ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ لِرَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا، فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ دیہاتیوں میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ فرما دیجئیے۔ اس کے بعد ان کا مقابل فریق کھڑا ہوا اور کہا انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور مجھے کہنے کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کیا کرتا تھا، «عسيف» بمعنی «الأجير» مزدور ہے، پھر اس نے ان کی عورت سے زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا ہو گی لیکن میں نے اس کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دیا (اور لڑکے کو چھڑا لیا) پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی بیوی پر رجم کی سزا لاگو ہو گی اور میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطنی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، باندی اور بکریاں تو اسے واپس کر دو اور تمہارے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے اور اے انیس! (قبیلہ اسلم کے ایک صحابی) اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو۔ چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا پھر انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر ڈالا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7260 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7260  
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس سے نکلی کہ آپ نے ایک شخص واحد کو ایذا کا حکم دیا۔
اس نے حکم شرعی یعنی رجم جاری کیا۔
بعضوں نے کہا آپ نے ہر فریق کی جو ایک تن تنہا تھا بات قبول کی اس کی تصدیق فرمائی۔
امام ابن قیم نے فرمایا‘ خبر واحد تین قسم کی ہے ایک یہ کہ قرآن کے موافق ہو‘ دوسرے یہ کہ اس میں قرآن کی تفصیل ہو‘ تیسرے یہ کہ اس میں ایک نیا حکم ہو جو قرآن میں نہیں ہے۔
بہر حال میں اس کا اتباع واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جداگانہ حکم دیا۔
پس اگر خبر واحد وہی قابل قبول ہو جو قرآن کے موافق ہے تو رسول کی اطاعت علیحدہ اور خاص نہیں ہوئی اور حنفیہ جو کہتے ہیں کہ قرآن پر زیادتی خبر واحد سے نہیں ہوسکتی بلکہ خبر مشہور یا متواتر ہونا ضرور ہے۔
انہوں نے بہت سے مسائل میں اپنے اس اصول کے خود خلاف کیا ہے جیسے نبیذ تمر سے وضو کے جواز اور نصاب سرقہ اور مہر دس درہم سے کم نہ ہونا اور ایک عورت اور اس کی پھو پھی یا خالہ میں جمع حرام ہونا اور شفعہ یا رہن اور صدہا مسائل میں جن میں آحادیث وارد ہیں اور باوجود اس کے حنفیہ نے اس سے کلام اللہ پر زیادت کی ہے۔
میں کہتا ہوں حنفیہ کا کوئی اصول جمتا ہی نہیں ہے۔
اصول میں تو یہ لکھتے ہیں کہ خبر واحد اور قول صحابی بھی حجت ہے یترك به القیاس اور پھر صدہا مسائل میں حدیث کے خلاف قیاس پر عمل کرتے ہیں۔
اصول میں لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ پر زیادت کے لیے خبر مشہور یا متواتر ضرور ہے اور پھر مسائل میں خبر واحد سے زیادت کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں وہاں خبر مشہور کو بھی یہ بہانہ کر کے مخالف کتاب اللہ ہے ترک کر دیتے ہیں۔
مثلاً یمین مع الشاهد الواحد کی احادیث کو۔
غرض یہ عجب اصول ہیں جو کچھ سمجھ میں نہیں آتے اور حق یہ ہے کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصول نہیں ہیں خود پچھلوں نے قائم کئے ہیں اور وہی حق تعالیٰ کے پاس جواب دار بنیں گے اللہ انصاف نصیب کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7260   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7260  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان کے ساتھ مناسبت کئی اعتبار سے ہے۔
"پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو فریق حاضر ہوئے اور ہر فریق ایک ایک آدمی پر مشتمل تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر تصدیق فرمائی اور ہر ایک کے متعلق فیصلہ صادر فرمایا:
دوسری تطبیق اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی حضرت انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس عورت کی طرف بھیجا تاکہ اسے صورت حال سے آگاہ کرے۔
اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی بات سنی اور اعتراف جرم کرلیا۔
پھر ایک ہی آدمی نے اس پر رجم کی حد جاری کی۔

بہر حال اس حدیث سے بھی خبر واحد کی حجیت روز روشن کی طرح واضح ہے نیز اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کتاب اللہ کا اطلاق کیا گیا ہےکیونکہ شرعی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر گفتگو نہیں کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7260