حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث سے خاندانی نسب سے منتقل ہونا مراد نہیں کیونکہ خاندانی نسب دوسری طرف منتقل کرناحرام ہے۔
ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ نسب کے اعتبارسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار سے افضل ہیں۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
ہجرت کے بعد نصرت اسلام سے بڑھ کر کوئی فضیلت نہیں اور انصار اسی وجہ سے بلند مقام تک پہنچے ہیں۔
2۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر مجھے ہجرت کے باعث انصار پر فضیلت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ہوتا۔
3۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ جن احادیث میں لفظ
(لَوْ) کے استعمال کی ممانعت ہے وہ علی الاطلاق نہیں، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسے استعمال نہ کرتے۔
اس امتناعی حکم کے خاص مواقع ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اگر کسی کارخیر کا ارادہ کرے اور اسے کرنے کی ہمت بی ہوتو کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس کی بجاآوری میں کوتاہی نہ کرے، وہاں اگر مگر کے استعمال سے اس میں کوتاہی نہ کرے۔
۔
اگرامور دنیا سے کوئی چیز فوت ہو جائے یا کسی مصیبت کی وجہ سے نقصان ہو جائے تو اس کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر راضی رہے وہاں اگر مگر کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض نہ کرے۔
اگر ان میں جھوٹ شامل ہو جائے تو انتہائی سنگین صورت اختیار کر جاتا ہےمثلاً:
منافقین نے ایک موقع پر کہا تھا:
”اگر ہم میں ہمت ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکلتے۔
“ (التوبة: 43/9) ایک دوسرے مقام پر یہ کہا:
”اگر وہ ہماری بات مانتے تو وہاں قتل نہ کیے جاتے۔
“ (آل عمران: 168) ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر بے اعتمادی اور اپنی تدبیر پر بھروسا ثابت ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 282/13)