مسند احمد
أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ
0
635. حَدِیث صَفوَانَ بنِ عَسَّال المرَادِیِّ
0
حدیث نمبر: 18095
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، سَمِعَ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ؟ فَقُلْتُ: ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، قَالَ:" فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ" . قُلْتُ: حَكَّ فِي نَفْسِي مَسْحٌ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَوْ فِي صَدْرِي بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَكُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُكَ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، كَانَ" يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ" . قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ الْهَوَى؟ قَالَ: نَعَمْ، بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَهُ فِي مَسِيرَةٍ، إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ جَهْوَرِيٍّ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقُلْنَا: وَيْحَكَ، اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ، فَإِنَّكَ قَدْ نُهِيتَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَغْضُضُ مِنْ صَوْتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَاءَ"، وَأَجَابَهُ عَلَى نَحْوٍ مِنْ مَسْأَلَتِهِ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَأَجَابَهُ نَحْوًا مِمَّا تَكَلَّمَ بِهِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ؟ قَالَ:" هُوَ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" . قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يُحَدِّثُنَا حَتَّى قَالَ:" إِنَّ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ لَبَابًا مَسِيرَةُ عَرْضِهِ سَبْعُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ عَامًا، فَتَحَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلتَّوْبَةِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَلَا يُغْلِقُهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْه" .
زربن حبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی پاس حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا حصول عمل کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں انہوں فرمایا اللہ کے فرشتے طالب علم کے لئے " طلب علم پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے " اپنے پر بچھا دیتے ہیں . زربن حبیش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ میرے دل میں پیشاب پائخانے کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے کھٹک پیداہوئی ہے آپ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اس لئے میں آپ سے یہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں کہ آپ نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ تین دن تک اپنے موزے نہ اتاریں الاّیہ کہ کسی کو جنابت لاحق ہوجائے لیکن پیشاب ' پائخانے اور نیند کی حالت میں اس کے اتارنے کا حکم نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہ کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو " خواہش " کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھے کہ ایک بلند آواز والا دیہاتی آیا اور کہنے لگا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اس سے کہا ارے او! آواز نیچی کر، اس کی ممانعت کی گئی ہے اس نے کہا کہ میں تو اپنی آواز پست نہیں کروں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی بات کرو اور اس انداز میں اسے جواب دیا جیسے اس نے سوال کیا تھا، اس نے کہا یہ بتائیے کہ اگر ایک آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہو لیکن ان میں شامل نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان (قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ پھر وہ ہمیں مسلسل حدیثیں سناتے رہے حتیٰ کہ فرمایا مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کے لئے کھلا ہوا ہے اس کی مسافت ستر سال پر محیط ہے اللہ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق کے دن کھولا تھا وہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن