صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
51. بَابُ الاِسْتِخْلاَفِ:
باب: ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کر جائے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 7218
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قِيلَ لِعُمَرَ: أَلَا تَسْتَخْلِفُ، قَالَ:" إِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ، مِنِّي أَبُو بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْ، فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: رَاغِبٌ رَاهِبٌ، وَدِدْتُ أَنِّي نَجَوْتُ مِنْهَا كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ لَا أَتَحَمَّلُهَا حَيًّا وَلَا مَيِّتًا".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو کیوں نہیں منتخب کر دیتے، آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو خلیفہ منتخب کرتا ہوں (تو اس کی بھی مثال ہے کہ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو (اس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس بزرگ نے (خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لیے) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر لوگوں نے آپ کی تعریف کی، پھر انہوں نے کہا کہ کوئی تو دل سے میری تعریف کرتا ہے کوئی ڈر کر۔ اب میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں میں اللہ کے ہاں برابر برابر ہی چھوٹ جاؤں، نہ مجھے کچھ ثواب ملے اور نہ کوئی عذاب میں نے خلافت کا بوجھ اپنی زندگی بھر اٹھایا۔ اب مرنے پر میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7218 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7218
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط انہوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کو خلیفہ نہیں کیا‘ مسلمانوں کی رائے پر چھوڑا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ کر گئے تو وہ ایسے رستے چلے جس میں دونوں کی پیروی ہو جاتی ہے یعنی کچھ مشورہ پر چھوڑا کچھ مقرر کردیا۔
انہوں نے چھ آدمیوں کو اس وقت افضل اور اعلیٰ تھے‘ معین کیا پھر ان چھ میں سے کسی کی تعیین مسلمانوں کی رائے پر چھوڑدی۔
گویا دونوں سنتوں پر عمل کیا۔
دوسرے تقویٰ شعاری دیکھئے کہ عشرہ مبشرہ میں سے سعید بن زید بھی زندہ تھے مگر ان کا نام تک نہ لیا‘ اس خیال سے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ رشتہ رکھتے تھے۔
ہائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مسلمانوں میں کون بے نفس اور عادل مصنف پیدا ہوا ہے۔
ان کا ایک ایک کام ایسا ہے جو ان کی فضیلت پہچاننے کے لیے کافی ہے اور افسوس ہے ان عقل کے اندھوں پر جو ایسے فرد فرید کو جسکا نظیر اسلام میں نہیں ہوا برا جانتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7218
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے سلسلے میں انتہائی محتاط طریقہ اختیار فرمایا۔
انھوں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ مسلمانوں کی صوابدید پر اسے چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نامزدگی کی تھی تو انھوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس میں دونوں حضرات کی پیروی تھی۔
کچھ لوگوں کے مشورے پر چھوڑدیا اور کچھ نامزدگی کر دی۔
انھوں نے چھ آدمیوں کی کمیٹی بنادی جو اس وقت تمام مسلمانوں سے افضل تھے، پھر ان چھ میں کسی کا تعین مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑدیا۔
2۔
بہرحال خلافت کے سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں حضرات کے طریقے کو اختیار فرمایا۔
۔
۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7218