Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
43. بَابُ كَيْفَ يُبَايِعُ الإِمَامُ النَّاسَ:
باب: امام لوگوں سے کن باتوں پر بیعت لے؟
حدیث نمبر: 7201
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ وَالْمُهَاجِرُونَ، وَالْأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ الْخَنْدَقَ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ، فَأَجَابُوا نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدَا.
ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی میں صبح کے وقت باہر نکلے اور مہاجرین اور انصار خندق کھود رہے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! خیر تو آخرت ہی کی خیر ہے۔ پس انصار و مہاجرین کی مغفرت کر دے۔ اس کا جواب لوگوں نے دیا کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر بیعت کی ہے ہمیشہ کے لیے جب تک وہ زندہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7201 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7201  
حدیث حاشیہ:
مولانا وحید الزماں رحمہ اللہ نے دعائے نبوی اور انصار کے شعر کا ترجمہ شعر یوں ادا کیا ہے فائدہ جو کچھ کہ ہے وہ آخرت کا فائدہ بخش دے انصار اور پردیسیوں کو اے خدا! انصار کے شعر کا اردو منظوم ترجمہ یوں کیا ہے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیعت ہم نے کی جان جب تک ہے لڑیں گے کافروں سے ہم سدا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7201   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 703  
´قبروں کو اکھیڑنے اور ان کی جگہ مسجد بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو اس کے ایک کنارے بنی عمرو بن عوف نامی ایک قبیلہ میں اترے، آپ نے ان میں چودہ دن تک قیام کیا، پھر آپ نے بنو نجار کے لوگوں کو بلا بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، آپ ان کے ساتھ چلے گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے سوار ہیں، اور بنی نجار کے لوگ آپ کے اردگرد ہیں، یہاں تک کہ آپ ابوایوب رضی اللہ عنہ کے دروازے پر اترے، جہاں نماز کا وقت ہوتا وہاں آپ نماز پڑھ لیتے، یہاں تک کہ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے، پھر آپ کو مسجد بنانے کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نجار کے لوگوں کو بلوایا، وہ آئے تو آپ نے فرمایا: بنو نجار! تم مجھ سے اپنی اس زمین کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس میں مشرکین کی قبریں، کھنڈر اور کھجور کے درخت تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکین کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، اور کھنڈرات ہموار کر دیئے گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجور کے درختوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب لائن میں رکھ دیا، اور چوکھٹ کے دونوں پٹ پتھر کے بنائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پتھر ڈھوتے، اور اشعار پڑھتے جاتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے، وہ لوگ کہہ رہے تھے: اے اللہ! بھلائی صرف آخرت کی بھلائی ہے، انصار و مہاجرین کی تو مدد فرما۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 703]
703 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ہجرت کے موقع پر تشریف آوری کا ذکر ہے۔ آپ مدینہ منورہ کی مضافاتتی بستی قباء میں ٹھہرے تھے۔ آپ چند دن یہاں ٹھہرے رہے، چار یا چودہ دن۔
➋ بنو نجار آپ کا ننھیال تھا۔ ہاشم کی بیوی اور عبدالمطلب کی والدہ اس قبیلے سے تھیں۔ آپ نے ان کی عزت افزائی کرنی چاہی، اس لیے انہیں پیغام بھیجا۔
➌ بکریوں کے باڑے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بکریاں باندھی جاتی ہوں۔
➍ یہ احاطہ آپ کی عا رضی رہائش گاہ کے بالکل سامنے تھا۔ آپ نے اسے مسجد اور اپنی رہائش کے لیے مناسب خیال فرمایا۔
مشرکین کی قبریں چونکہ مشرکین کی قبریں قابل احترام نہیں ہیں، لہٰذا انہیں اکھیڑا جا سکتا ہے۔ یہ قبریں پر ان ی تھیں۔ ان کے قریبی ورثاء فوت ہوچکے ہوں گے ورنہ مسلمان ورثاء کی دل شکنی بھی منع ہے۔ روایات میں ہے کہ وہ احاطہ بنونجار کے دو یتیم بچوں کا تھا، اسی لیے آپ نے باوجود پیش کش کے بلاقیمت لینا منظور نہ کیا بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہہ کر ان بچوں کو قیمت دلوائی۔
رجز ایک قسم کا شعر اور ہم آہنگ سا کلام ہوتا ہے۔ اس میں وزن بھی ہوتا ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگ میں یا کسی خاص موقع پر اس قسم کا کلام پڑھ لیا تو آپ شاعرنہ بن گئے کیونکہ شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کو بطور پیشہ اور فن اپناتا ہے، نہ کہ وہ جو کبھی کبھار کوئی ہم آہنگ اور باوزن کلام بول لے جس میں شعر کہنے کا کوئی قصد بھی نہ ہو یا کسی کا کہا: ہوا شعر پڑھ لے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 703   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث742  
´مسجد کس جگہ بنانی جائز ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی زمین قبیلہ بنو نجار کی ملکیت تھی، جس میں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم مجھ سے اس کی قیمت لے لو، ان لوگوں نے کہا: ہم ہرگز اس کی قیمت نہ لیں گے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنا رہے تھے اور صحابہ آپ کو (سامان دے رہے تھے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: سنو! زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے، اے اللہ! تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مسجد کی تعمیر سے پہلے جہاں نماز کا وقت ہو ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 742]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسجد کے لیے زمین خریدنا جائز ہے اور زمین کا مالک مسجد کی انتظامیہ کے ہاتھ زمین فروخت کرسکتا ہے۔
اسی طرح مسجد کے دوسرے کاموں کے لیے مثلاً:
تعمیرومرمت، پانی اور بجلی کے نظام کی تنصیب کی محنت پر اجرت وصول کرنا جائز ہے۔

(2)
مسجد کے لیے زمین مفت دے دینا یا مسجد کے کام بلامعاوضہ کردینا اور مسجد کی ضرورت کی اشیاء بلا قیمت دے دینا افضل اور بہت ثواب کا باعث ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ ثواب کے کام میں بنفس نفیس شریک ہوتے تھے۔
اس طرح یا قبیلے کا معزز فرد اور عالم اگر خود ایسے کاموں میں شریک ہوتو اچھی بات ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو ترغٰیب ہوتی ہےاور جو لوگ پہلے سے کام میں شریک ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

(4)
غیر مسلموں کی قبروں کا وہ احترام نہیں جو مسلمانوں کی قبروں کا ہے اس لیے انھیں بوقت ضرورت مسمار کیا جا سکتا ہے۔

(5)
قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے لیکن اگر قبروں کے نشانات ختم ہوجائیں تو وہ جگہ عام زمین کے حکم میں ہوجائے گی پھر وہاں مسجد بنائی جاسکتی ہے۔

(6)
اسی طرح بت خانہ اور گرجا وغیرہ مسمار کرکے وہاں مسجد تعمیر کرنا درست ہے۔
یا عمارت میں اس انداز سے تبدیلی کرلی جائےکہ ظاہری طور پر بت خانہ یا گرجا معلوم نہ ہو مسجد معلوم ہو۔

(7)
ایسے شعر پڑھنا اور سننا جائز ہیں جن کے الفاظ ومعانی میں کوئی خلاف شریعت چیز نہ ہو لیکن موسیقی کے آلات کا استعمال حرام ہے۔

(8)
جہاں مسجد قریب نہ ہو وہاں کسی بھی مناسب جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس سے اس جگہ پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوں گے جب تک مسجد کی نیت سے عمارت بنالی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 742   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3857  
´ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم لا عيش إلا عيش الآخره فأكرم الأنصار والمهاجره» بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی تکریم فرما ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3857]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہاد میں لائے ہیں،
یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3857   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4676  
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ خندق کے دن کہہ رہے تھے، ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر تاحیات بیعت کی ہے، حماد کو شک ہے، کہ شاید على الاسلام [صحيح مسلم، حديث نمبر:4676]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مدینہ کے شمال کے علاوہ باقی اطراف لاوے کی چٹانوں،
پہاڑوں اور باغات سے گھرے ہوئے تھے،
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہر اور تجربہ کار کمانڈر کی حیثیت سے خندق صرف شمال کی جانب کھدوائی کہ بڑا لشکر صرف ادھر ہی سے حملہ آور ہو سکتا ہے،
آپﷺ نے ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا کام سونپا اور مسلمانوں نے پوری محنت اور دلجمعی سے خندق کھودنی شروع کر دی،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کی ترغیب بھی دیتے اور عملاً بھی اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4676   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2835  
2835. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مہاجرین اور انصار نے مدینہ طیبہ کے ارد گرد خندق کھودنا شروع کی تو وہ اپنی کمر پر مٹی اٹھا کر باہر لاتے اور یہ کہتے تھے۔ ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد ﷺ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی ہے جب تک ہم خود زندہ ہیں۔ نبی ﷺ ان کے جواب میں فرماتے تھے: اے اللہ! آخرت کی بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں، لہٰذا تو مہاجرین وانصار میں برکت عطا فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2835]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں مدینہ شریف کے اردگرد خندق کھودنے کا ذکر ہے۔
یہی ترجمۃ الباب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2835   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 428  
428. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ (جب ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو عمرو بن عوف نامی قبیلے میں پڑاؤ کیا جو مدینے کی بالائی جانب واقع تھا، نبی ﷺ نے ان لوگوں میں چودہ شب قیام فرمایا، پھر آپ نے بنونجار کو بلایا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے (حضرت انس ؓ کہتے ہیں:) گویا میں نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں، ابوبکر صدیق آپ کے ردیف اور بنونجار کے لوگ آپ کے گرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر سامنے اپنا پالان ڈال دیا۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لیں، حتی کہ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلا کر فرمایا: اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ ہمارے ہاتھ بیچ دو۔ انھوں نے عرض کیا: ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:428]
حدیث حاشیہ:
بنونجار سے آپ ﷺ کی قرابت تھی۔
آپ کے دادا عبدالمطلب کی ان لوگوں میں ننہال تھی۔
یہ لوگ اظہارخوشی اوروفاداری کے لیے تلواریں باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے اور خصوصی شان کے ساتھ آپ کولے گئے۔
آپ نے شروع میں حضرت ابوایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا، کچھ دنوں کے بعد مسجدنبوی کی تعمیرشروع ہوئی، اوریہاں سے پرانی قبروں اور درختوں وغیرہ سے زمین کو صاف کیا۔
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ کھجور کے ان درختوں کی لکڑیوں سے قبلہ کی دیوار بنائی گئی تھی۔
ان کو کھڑاکرکے اینٹ اور گارے سے مضبوط کردیاگیاتھا۔
بعض کا قول ہے کہ چھت کے قبلہ کی جانب والے حصہ میں ان لکڑیوں کو استعمال کیا گیاتھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 428   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:428  
428. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ (جب ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو عمرو بن عوف نامی قبیلے میں پڑاؤ کیا جو مدینے کی بالائی جانب واقع تھا، نبی ﷺ نے ان لوگوں میں چودہ شب قیام فرمایا، پھر آپ نے بنونجار کو بلایا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے (حضرت انس ؓ کہتے ہیں:) گویا میں نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہیں، ابوبکر صدیق آپ کے ردیف اور بنونجار کے لوگ آپ کے گرد ہیں، یہاں تک کہ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے گھر سامنے اپنا پالان ڈال دیا۔ آپ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں پڑھ لیں، حتی کہ آپ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنو نجار کے لوگوں کو بلا کر فرمایا: اے بنو نجار! تم اپنا یہ باغ ہمارے ہاتھ بیچ دو۔ انھوں نے عرض کیا: ایسا نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم! ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:428]
حدیث حاشیہ:

عنوان یہ ہے کہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر وہاں مسجد بنانا جائز ہے اور دلیل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابر کو مساجد بنانا ناجائز ہے۔
ان کی قبروں کو مساجد بنانے کی دوصورتیں ممکن ہیں:
۔
قبروں کو اکھاڑانہ جائے بلکہ انھیں باقی رکھ کر مسجد بنادی جائے۔
اس صورت میں بت پرستی سے مشابہت ہوگی، جوناجائز ہے۔
۔
قبروں کو اکھاڑ کرمسجد بنائی جائے۔
اس صورت میں قبور انبیاء علیہم السلام کی اہانت لازم آگئے گی، لہذا یہ صورت بھی ناجائز ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے مقابرکو مساجد بنانا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔
اس کے برعکس مشرکین وکفار کی قبروں کو مساجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ انھیں اکھاڑ کر جو کچھ ان سے برآمد ہوا سے باہر پھینک دیا جائے اور صاف زمین پر مسجد تعمیر کی جائے۔
کفار ومشرکین کی قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے، کیونکہ ان کی اہانت ممنوع نہیں، نیز (وما يكره من الصلاة في القبور)
عنوان کا دوسرا جز نہیں بلکہ مشرکین کی قبروں کو مساجد میں تبدیل کرنے کی دوسری دلیل یا علت ہے اور اس کا عطف قول پر ہے۔
عنوان کے معنی یہ ہوں گے:
کیا مشرکین کی قبور کو اکھاڑ کر مساجد بنادیاجائے۔
کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قبور انبیاء علیہم السلام کو مساجد بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور اس لیے کہ قبروں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
(وما يكره من الصلاة في القبور)
عنوان کا دوسرا جز نہیں، اس لیے کہ قبروں میں نماز مکروہ ہونے کے متعلق امام بخاری ؒ آئندہ ایک عنوان قائم کررہےہیں جس کے الفاظ یہ ہیں:
(باب كراهية الصلاة في المقابر) (صحیح البخاري، الصلاة، باب: 52)
اگر (وما يكره من الصلاة في القبور)
کو عنوان کا جز تسلیم کیاجائے تو ابواب کا تکرار ہوتا ہے جو اصولاً درست نہیں، کیونکہ اگر تراجم کی غرض ایک ہوتو الفاظ کی تبدیلی سے بھی تکرار ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر الفاظ ایک ہوں اور اغراض الگ الگ ہوں تو یہ تکرار نہیں ہوتا لیکن یہاں دونوں ابواب کی غرض ایک ہے اور الفاظ بھی تقریباً ملتے جلتے ہیں۔
اس طرح کا تکرار تراجم بخاری میں نہیں ہے، لہذا (وما يكره من الصلاة في القبور)
کو عنوان علت قراردیا جائے گا، اسے عنوان کا جز نہیں بنایا جائے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس جگہ مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے وہاں پہلے مشرکین کا قبرستان تھا اور یہ قبرستان بنو نجار کی ملکیت تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔
ابتداء میں ان حضرات نے قیمت لینے سے انکار کردیا، تاہم اس کی قیمت ادا کرکے اسے خرید لیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبرستان اگروقف نہ ہو بلکہ کسی کی ملکیت ہوتو اسے فروخت یاہبہ کرنا جائز ہے۔
اس کے برعکس اگروقف ہوتواس کی خریدوفروخت یا اسے کسی دوسرے کو ہبہ کرنا جائز نہیں۔

حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ بیضاوی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہودونصاریٰ قبور انبیاء علیہم السلام کو سجدہ تعظیمی کرتے اور انھیں قبلہ بناتے تھے، یعنی ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، اس لیے ان پر لعنت کی گئی، اگر کسی صالح بزرگ کے قرب میں محض برکت سے کے خیال سے مسجد بنائی جائے تووعید میں داخل نہ ہوگی۔
(فتح الباري: 680/1)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ممانعت نبوی صرف اس خطرے کے پیش نظر ہے کہ قبر کو وثن اور بت نہ بنالیا جائے، لیکن ان کے نزدیک اگرا س بات کا اندیشہ نہ ہو تو ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔
ہمیں افسوس ہے کہ حافظ ا بن حجر ؒ جیسے حساس شخص نے اس رائے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، حالانکہ گزشتہ قوموں میں شرک باللہ اور توسل بغیر اللہ کے لیے چور دروازہ یہاں سے ہی کھلتارہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلے کی نزاکت کے پیش نظر بڑی شدت کے ساتھ اس کی تردید فرمائی کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے انبیاء علیہم السلام وصالحین کی قبروں پر مساجد تعمیر کرلیں اور یہ بھی فرمایا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی مرجاتاتو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے تھےاور اس میں اس کی تصاویر آویزاں کردیتے تھے۔
یہی لوگ قیامت کے دن بدترین انسان ہوں گے۔
قرآن کریم نے اس قسم کی ذہنیت کے حامل لوگوں کی بات نقل کی ہے کہ اصحاب کہف کے مرنے کے بعد لوگوں نے طے کیا کہ انھیں اپنے حال پر چھوڑدیا جائے اور غار کا دروازہ بندکردیا جائے، لیکن شہر کے بااثر لوگوں نے برملاکہا کہ ہم ان کی یادگار کے طور پر ان کی قبروں پر مسجد بنائیں گے۔
(الکھف: 21: 18)
ان کامقصد بھی غالباً یہی تھا کہ ہم ان کے اجسام اور ان کی تربت سے برکت کے لیے اس مسجد میں نمازیں پڑھیں گے،اس لیے حافظ ا بن حجر ؒ کی نقل کردہ رائے صحیح نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 428   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2834  
2834. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ (غزوہ خندق کے روز) خندق کی طرف نکلے تو دیکھا کہ مہاجراور انصار سخت سردی میں خندق کھود رہے ہیں جبکہ ان کے پاس کوئی نوکر وغیرہ نہیں تھے جو ان کا یہ کام کرتے۔ آپ ﷺ نے جب ان کی مشقت اور بھوک وغیرہ دیکھی تو فرمایا: اے اللہ!عیش تو آخرت ہی کی ہے، لہٰذا تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔ اس کے جواب میں مہاجرین اور انصار نے کہا: ہم وہ ہیں جنھوں نے حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی ہے جب تک ہم زندہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2834]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺنے خندق کھودنے میں خود حصہ لیاتاکہ دوسرے صحابہ کرام ﷺ آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس معرکہ حق وباطل میں سرگرم عمل ہوں۔

عرب میں خطرے کے وقت خندق کھودنے کا رواج نہیں تھا۔
حضرت سلمان فارسی ؓکے مشورے سے رسول اللہ ﷺنے خندق کھودنے کاحکم دیا۔
واضح رہے کہ یہ غزوہ 4ہجری میں ہوا۔
امام بخاری ؒ کا بھی اسی طرف میلان ہے۔
اب دور حاضر میں حالات بدل گئے ہیں، جنگ زمین پر نہیں بلکہ فضا میں لڑی جاتی ہے، اس لیے اس کے مطابق جنگی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2834   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2835  
2835. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مہاجرین اور انصار نے مدینہ طیبہ کے ارد گرد خندق کھودنا شروع کی تو وہ اپنی کمر پر مٹی اٹھا کر باہر لاتے اور یہ کہتے تھے۔ ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد ﷺ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی ہے جب تک ہم خود زندہ ہیں۔ نبی ﷺ ان کے جواب میں فرماتے تھے: اے اللہ! آخرت کی بھلائی کے علاوہ کوئی بھلائی نہیں، لہٰذا تو مہاجرین وانصار میں برکت عطا فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2835]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺنے مہاجرین وانصار کے لیے مختلف الفاظ میں یہ دعا متعدد دفعہ فرمائی، مثلاً:
اے اللہ!تو انھیں عزت عطا فرما۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2961)
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
اے اللہ! تو ان کی اصلاح فرما۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3795)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2835   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4100  
4100. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ انصار و مہاجرین نے مدینہ طیبہ کے اردگرد خندق کھودنا شروع کی۔ وہ اپنی پشتوں پر مٹی اٹھا رہے تھے اور کہتے تھے: ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت محمد ﷺ سے اسلام پر بیعت کی ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ نبی ﷺ انہیں جواب دیتے ہوئے فرماتے تھے: اے اللہ! خیروبرکت تو صرف اخروی زندگی میں ہے، اس لیے تو انصار و مہاجرین کو برکت عطا فرما۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ان مجاہدین کے لیے چلو بھر جو لائے جاتے اور بدبودار چربی میں انہیں پکایا جاتا اور اس قسم کی خوراک کو مہاجرین کے سامنے رکھ دیا جاتا جبکہ وہ بہت بھوکے ہوتے تھے۔ اس قسم کا بدمزہ کھانا حلق کو پکڑتا اور اس میں پھنس جاتا تھا اور اس سے بو آتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4100]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ شاعر نہیں تھے اور نہ شعر کہنا آپ کی شان ہی تھی مذکورہ شعرحضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کا تھا جو اس موقع پر آپ نے پڑھاتا کہ صحابہ کرام ؓ کے جذبات میں مزید تیزی آئے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع پر شعر پڑھا۔
اے اللہ!عضل اور قارہ پر لعنت فرما، ان کی وجہ سے ہمیں پتھر اٹھانے کی زحمت ہوئی ہے۔
(فتح الباري: 493/7)
ایک روایت میں حضرت براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ مٹی اٹھارہےتھے اور بطن مبارک مٹی سے اٹا ہوا تھا اور آپ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے درج ذیل شعار پڑھتے تھے۔
اے اللہ! اگرتونہ ہوتا توہم راہ راست نہ پاتے نہ نماز پڑھتے اور نہ صدقہ خیرات کرتے۔
ہم پر سکون اور اطمینان نازل فرما، اور اگر ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت قدم رکھ ان دشمنوں نے ہمارے خلاف اقدام کیا ہے ہم اس بغاوت کا پرزور انکار کرتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2837)

حدیث کے آخر میں صحابہ کرام ؓ کے جذبہ جہاد کا بیان ہے کہ ناقص اور بدبودار کھانا ملنے کے باوجودان کے جوش و خروش میں کمی نہیں آتی تھی واقعی مجاہد کی یہی شان ہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4100