مسند احمد
مسنَد الشَّامِیِّینَ
0
539. حَدِیث عتبَةَ بنِ عَبد السّلَمِیِّ اَبِی الوَلِیدِ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 17648
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ ابْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " كَانَتْ حَاضِنَتِي مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنٌ لَهَا فِي بَهْمٍ لَنَا، وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا، فَقُلْتُ: يَا أَخِي، اذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا، فَانْطَلَقَ أَخِي وَمَكَثْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ، فَأَقْبَلَ طَيْرَانِ أَبْيَضَانِ كَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَأَقْبَلَا يَبْتَدِرَانِي، فَأَخَذَانِي فَبَطَحَانِي إِلَى الْقَفَا، فَشَقَّا بَطْنِي، ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِي، فَشَقَّاهُ فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَيْنِ سَوْدَاوَيْنِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: قَالَ يَزِيدُ فِي حَدِيثِهِ: ائْتِنِي بِمَاءِ ثَلْجٍ فَغَسَلَا بِهِ جَوْفِي، ثُمَّ قَالَ: ائْتِنِي بِمَاءِ بَرَدٍ، فَغَسَلَا بِهِ قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ: ائْتِنِي بِالسَّكِينَةِ، فَذَارَّهَا فِي قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: حِصْهُ، فَحَاصَهُ، وَخَتَمَ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَقَالَ حَيْوَةُ فِي حَدِيثِهِ: حُصْهُ فَحُصْهُ وَاخْتِمْ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اجْعَلْهُ فِي كِفَّةٍ، وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِهِ فِي كِفَّةٍ، فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْأَلْفِ فَوْقِي، أُشْفِقُ أَنْ يَخِرَّ عَلَيَّ بَعْضُهُمْ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ أُمَّتَهُ وُزِنَتْ بِهِ لَمَالَ بِهِمْ، ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَكَانِي، وَفَرِقْتُ فَرَقًا شَدِيدًا، ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى أُمِّي فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِي لَقِيتُهُ، فَأَشْفَقَتْ عَلَيَّ أَنْ يَكُونَ أُلْبِسَ بِي، قَالَتْ: أُعِيذُكَ بِاللَّهِ، فَرَحَلَتْ بَعِيرًا لَهَا فَجَعَلَتْنِي وَقَالَ يَزِيدُ: فَحَمَلَتْنِي عَلَى الرَّحْلِ، وَرَكِبَتْ خَلْفِي حَتَّى بَلَغْنَا إِلَى أُمِّي، فَقَالَتْ: أَوَأَدَّيْتُ أَمَانَتِي وَذِمَّتِي؟ وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِي لَقِيتُ، فَلَمْ يَرُعْهَا ذَلِكَ، فَقَالَتْ: إِنِّي رَأَيْتُ خَرَجَ مِنِّي نُورًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ" .
حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء میں آپ کے ساتھ کیا احوال پیش آئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دودھ پلانے والی خاتون کا تعلق بنو سعد بن بکر سے تھا، ایک دن میں ان کے ایک بیٹے کے ساتھ بکریوں میں چلا گیا، ہم نے اپنے ساتھ توشہ بھی نہیں لیا تھا اس لئے میں نے کہا کہ بھائی والدہ کے پاس جا کر توشہ لے آؤ، وہ چلا گیا اور میں بکریوں کے پاس رکا رہا۔ اسی دوران گدھ کی طرح دو سفید پرندے آئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کیا یہ وہی ہے؟ دوسرے نے اثبات میں جواب دیا، چنانچہ وہ تیزی سے میری طرف بڑھے، مجھے پکڑ کر چت لٹایا اور میرے پیٹ کو چاک کردیا، پھر میرے دل کو نکال کر اسے چیرا، پھر اس میں سے خون کے دو سیاہ جمے ہوئے ٹکڑے نکالے اور ایک نے دوسرے سے کہا کہ میرے پاس ٹھنڈا پانی لے کر آؤ اور انہوں نے اس سے میرا پیٹ دھویا، پھر اس نے برف کا پانی منگوایا اور اس سے میرے دل کو دھویا، پھر سکینہ منگوایا اور اسے میرے قلب میں بکھیر دیا، پھر دوسرے سے کہا کہ اب اسے سی دو، چنانچہ اس نے سلائی کردی اور مہر نبوت لگا دی۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے دوسرے کہا کہ ایک پلڑے میں انہیں رکھو اور دوسرے پلڑے میں ان کی امت کے ایک ہزار آدمیوں کو رکھو، اچانک مجھے اپنے اوپر ایک ہزار آدمی نظر آئے، مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں، پھر وہ کہنے لگا کہ اگر ان کی ساری امت سے بھی ان کا وزن کیا جائے تو ان ہی کا پلڑا جھکے گا، پھر وہ دونوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور مجھ پر شدید خوف طاری ہوگیا، میں اپنی رضاعی والدہ کے پاس آیا اور انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی اطلاع دی، جسے سن کر وہ ڈر گئیں کہ کہیں مجھ پر کسی چیز کا اثر تو نہیں ہوگیا اور کہنے لگیں میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ پھر انہوں نے اپنا اونٹ تیار کیا مجھے کجاوے پر بٹھایا اور خود میرے پیچھے سوار ہوئیں اور ہم سفر کر کے اپنی والدہ کے پاس آگئے انہوں نے میری والدہ سے کہا کہ میں اپنی امانت اور ذمہ داری ادا کرنا چاہتی ہوں، پھر انہوں نے میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بیان کیا لیکن میری والدہ اس سے مرعوب نہیں ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے آپ سے ایک نور نکلتے ہوئے دیکھا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، راجع ما قبله