حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اسْتَعْمَلَ ابْنَ الْأُتَبِيَّةِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ، فَلَمَّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَاسَبَهُ، قَالَ: هَذَا الَّذِي لَكُمْ وَهَذِهِ هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلَّا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَبَيْتِ أُمِّكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا؟، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ رِجَالًا مِنْكُمْ عَلَى أُمُورٍ مِمَّا وَلَّانِي اللَّهُ، فَيَأْتِي أَحَدُكُمْ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ وَهَذِهِ هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَبَيْتِ أُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا، فَوَاللَّهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ هِشَامٌ: بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا جَاءَ اللَّهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَلَا فَلَأَعْرِفَنَّ مَا جَاءَ اللَّهَ رَجُلٌ بِبَعِيرٍ لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بِبَقَرَةٍ لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٍ تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7197
حدیث حاشیہ:
1۔
حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے افسران کو سخت ہدایات جاری کرے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا:
”وہاں سے جو کچھ بھی تم میری اجازت کے بغیر لوگے وہ خیانت شمار ہوگا۔
“ (جامع الترمذي، الأحکام، حدیث: 1335)
پھران کی کڑی نگرانی کرے اور محاسبہ کرتا رہے چنانچہ ابن تسبیہ جب بہت سا مال لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب کے لیے اپنے کارندے بھیجے۔
اس نے پہلے سے ہی مال کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور کہنے لگا یہ تمھارا مال ہے اور یہ میرے نذرانے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملےکی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سخت نوٹس لیا اور بددیانتی پر باز پرس فرمائی۔
2۔
بہر حال جس حکومت کے افسران بددیانت ہوں گے اس کا ضرور ایک نہ ایک دن بیڑا غرق ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رشوت لینے والے بددیانت اور خائن افسران سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7197
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2946
´ملازمین کو ہدیہ لینا کیسا ہے؟`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا (ابن سرح کی روایت میں ابن اتبیہ ہے) جب وہ (وصول کر کے) آیا تو کہنے لگا: یہ مال تو تمہارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”عامل کا کیا معاملہ ہے؟ کہ ہم اسے (وصولی کے لیے) بھیجیں اور وہ (زکاۃ کا مال لے کر) آئے اور پھر یہ کہے: یہ مال تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے، کیوں نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2946]
فوائد ومسائل:
حکومت کا منصب دار ہوتے ہوئے متعینہ حق سے زیادہ لینا خواہ لوگ اپنی مرضی سے کیوں نہ دیں۔
اور اسے ہدیہ بتایئں تو وہ بیت المال کا حق ہے۔
اور قومی امانت ہے۔
اسے اپنے ذاتی تصرف میں لانا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2946
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:863
863- سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ازد“ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو اپنا اہلکار مقرر کیا اس کا نام ابن لتبیہ تھا۔ اسے صدقہ لینے کے لیے مقرر کیا گیا۔ جب وہ شخص آیا، تو اس نے کہا: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ہے اور یہ تحفے کے طور پر مجھے دیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا وجہ ہے؟ ہم کسی کو اہلکارمقرر کرکے اپنے کسی کام کے لیے بھیجتے ہیں، پھر وہ یہ آکر کہتا ہے، یہ آپ کا مال ہے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:863]
فائدہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اختصار کے ساتھ بیان کیا۔ نیز اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: ”ارشاد باری تعالیٰ تحصیل داروں کو بھی زکاۃ سے حصہ دیا جائے۔ نیز حاکم کو ان کا محاسبہ بھی کرنا چا ہیے“۔ [صحيح بخاري قبل ح 1500]
باطل تاویل کا سرعام رد کرنا چاہیے تا کہ کوئی دوسرا اس کا ارتکاب نہ کرے۔ مدارس کے سفیروں کو جو ہدیہ ملے وہ بھی مدارس کے بیت المال میں جمع کروایا جائے اور ان کی تنخواہ مقرر ہونی چاہیے ورنہ بیع مجہول حرام ہے۔
حافظ عبدالستار الحماد ﷾ لکھتے ہیں: مدارس کے سفیر جو وصول شدہ چندے سے خاص شرح فیصد حق الخدمت وصول کرتے ہیں، ایسا کرنا مجہول اجرت کے ضمن میں آتا ہے جسے محل نظر قرار دینا مناسب ہے۔ ممکن ہے کہ عامل مذکور نے مال زکاۃ سے اپنے مصارف پر کچھ خرچ کیا ہو، اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصول کردہ زکاۃ اور اخراجات کا اس سے حساب لیا ہے۔ [فتح الباري: 461/3]
ابن سعد نے اس کا نام عبداللہ بتایا ہے جو ایک قبیلے بنوتسب کی طرف منسوب تھا۔ [هدية القاري شرح صحيح البخاري: 298/3]
۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 862
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4738
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسد قبیلہ کے ایک ابن لتبیہ نامی انسان کو صدقہ کی وصولی کے لیے عامل مقرر فرمایا، تو جب وہ (صدقہ وصول کر کے) واپس آیا، کہنے لگا، یہ آپ کا مال ہے اور یہ میرا مال ہے جو مجھے تحفہ ملا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان فرمائی اور فرمایا: ”جس کارندے کو میں بھیجتا ہوں، اس کو کیا ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے یہ تمہارا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4738]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازد قبیلہ جسے بنو اسد کہتے ہیں،
کے ایک فرد کو یمن،
بنو سلیم کے صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا،
تو اس نے واپس آ کر کچھ مال کے بارے میں ہدیہ ہونے کا دعویٰ کیا،
تو آپ نے تمام کارندوں کو تنبیہ کرنے کے لیے بڑے کرنے کے لیے بڑے غصے سے منبر پر چڑھ کر فرمایا ہدیہ اور تحفہ وہ ہے،
جو حکومتی عہدہ اور منصب حاصل ہونے سے پہلے گھر بیٹھے بٹھائے ملے،
لیکن جو ہدیہ یا تحفہ عہدہ اور منصب کے حصول کے بعد ملتا ہے،
وہ تحفہ اور عطیہ نہیں ہے،
وہ تو صرف اس کے عہدہ اور منصب سے فائدہ اٹھانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے اور اس کے دل میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے بطور رشوت دیا گیا ہے،
کہ بوقت ضرورت کام آئے یا وہ ان سے آسانی اور سہولت سے پیش آئے،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عاملوں کو وقتا فوقتا محاسبہ فرماتے رہتے اور جس کے بارے میں یہ محسوس فرماتے،
اس نے اپنے عہدہ اور منصب سے فائدہ اٹھایا ہے،
اور اپنے مشاہرہ کے مقابلہ میں زیادہ مال جمع کر لیا ہے،
تو وہ اس سے زائد مال وصول کر لیتے،
بعض دفعہ اس کا سارا یا آدھا مال لے لیتے،
لیکن آج کل،
حکومت کے تمام لوگ مال بنانے میں مشغول ہیں،
تو ایسی حکومت ملازموں کا محاسبہ کیسے کرے،
اس لیے رشوت کا بازار بھی گرم ہے اور اس کے سوا مال ہڑپ کرنے کے اور بھی ذرائع نکال لیے گئے ہیں،
جس کی بنیاد پر تمام رعایا مال بنانے کے چکر میں مشغول ہے اور اس کے لیے انتہائی گھناؤنے ذرائع اختیار کیے جا رہے ہیں،
سود،
رشوت،
ملاوٹ،
ڈاکہ،
اغواء،
کمیشن،
قبضہ سب اس کے شاخسانے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4738
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6979
6979. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر عامل بنایا جسے ابن قبیہ کہا جاتا تھا۔ وہ صدقات لے کر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب کتاب لیا۔ اس نے کہا: یہ تمہارا مال ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو سچا ہے تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، وہیں یہ تحائف تیرے پاس آ جاتے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اسے ہدایا پہنچ جائیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے بغیر کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6979]
حدیث حاشیہ:
عاملین کے لیے جو اسلامی حکومت کی طرف سے سرکاری اموال کی تحصیل کے لیے مقرر ہوتے ہیں کوئی حیلہ ایسا نہیں کہ وہ لوگوں سے تحفہ تحائف بھی وصول کر سکیں وہ جو کچھ بھی لیں گے وہ سب حکومت اسلامی کے بیت المال ہی کا حق ہوگا سفرائے مدارس کو بھی جو مشاہرہ پر کام کرتے ہیں یہ حدیث ذہن نشین رکھنی چاہیے۔
وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6979
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7174
7174. سیدنا ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بنو اسد کے ایک شخص کو صدقات کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا۔ اسے ”ابن اتبیہ“ کہا جاتا تھا۔وہ صدقات لے کر آیا تو اس نے کہا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ منبر پر تشریف لائے۔۔۔۔(راوی حدیث) سفیان نے کہا: منبر پر چڑھے۔۔۔۔۔۔اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جسے ہم (صدقات وصول کرنے کے لیے) بھیجتے ہیں تو وہ وآپس آکر کہتا ہے: یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے؟ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھا جاتا کہ اس کے پاس ہاتھ میں میری جان ہے یا نہیں؟ مجھےاس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ عامل جو چیز بھی اپنے پاس رکھ لے گا قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہوگا تووہ اپنی آواز نکالتا آئے گا۔ اگر گائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7174]
حدیث حاشیہ:
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فقہائے بزرگ اصحاب سے ہیں۔
عہد صدیقی میں انہوں نے قرآن کو جمع کیا اور عہد عثمانی میں نقل کیا۔
56سال کی عمر میں سنہ45ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7174
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1500
1500. حضرت ابوحمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو سلیم کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے قبیلہ اسد کے ایک شخص کو مقرر فرمایا جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، جب وہ واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1500]
حدیث حاشیہ:
زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے‘ کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔
ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوٰۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو‘ لہٰذا اس سے حساب لیا گیا۔
بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تھا کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے‘ اس پر حساب لیا گیا۔
اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے۔
جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔
تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1500
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2597
2597. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ ازد کے ایک شخص کو، جسےابن الاتبیہ کہا جاتا تھا، صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا۔ جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا: یہ تمہارا (سرکاری مال) ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: ”وہ اپنے ابا یا اماں کے گھربیٹھا رہتا، پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتاہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص کوئی مال رشوت کے طور پر لے وہ قیامت کے دن اس کو اپنی گردن پر اٹھا کرآئے گا۔ اگر اونٹ ہوگا توبلبلا رہاہوگا، گائے ہوگی تو ڈکار رہی ہوگی اور بکری ہوگی تو ممیار ہی ہوگی۔“ پھرآپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ ہم نے بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا اے اللہ! میں نے تیرا حکم پہنچادیا۔“ یہ تین بار فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2597]
حدیث حاشیہ:
اس سے ناجائز ہدیہ کی مذمت ثابت ہوئی۔
حاکم عامل جو لوگوں سے ڈالیاں وصول کرتے ہیں وہ بھی رشوت میں داخل ہیں۔
ایسے ناجائز مال حاصل کرنے والوں کو قیامت کے دن ایسے عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2597
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1500
1500. حضرت ابوحمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ بنو سلیم کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے قبیلہ اسد کے ایک شخص کو مقرر فرمایا جسے ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، جب وہ واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1500]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس پر امام بخاری ؒ نے ایک عنوان ان الفاظ سے قائم کیا ہے:
”حکمرانوں کو اپنے عمال کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
“ پھر اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ابن لتیبہ جب مال وصول کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ یہ زکاۃ ہے اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
”تو اگر اپنے گھر بیٹھا رہتا تو پھر پتہ چلتا کہ تیرے پاس ہدیہ اور نذرانہ کیسے آتا ہے؟“ اس کے بعد آپ نے عام خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اس غلط تاویل کو برسرعام بیان کیا تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔
(صحیح البخاري، الأحکام، باب: 41، حدیث: 7197) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکاۃ کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا جا سکتا ہے اور اسے طے شدہ معاوضہ دینے میں کوئی حرج نہیں اور اس کا محاسبہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ خیانت سے باز رہے گا۔
(3)
مدارس کے سفیر جو وصول شدہ چندے سے خاص شرح فیصد حق الخدمت وصول کرتے ہیں، ایسا کرنا مجہول اجرت کے ضمن میں آتا ہے جسے محل نظر قرار دینا مناسب ہے۔
ممکن ہے کہ عامل مذکور نے مال زکاۃ سے اپنے مصارف پر کچھ خرچ کیا ہو، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے وصول کردہ زکاۃ اور اخراجات کا اس سے حساب لیا ہو۔
(فتح الباري: 461/3)
ابن سعد نے اس کا نام عبداللہ بتایا ہے جو ایک قبیلے بنو لتب کی طرف منسوب تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1500
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2597
2597. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ ازد کے ایک شخص کو، جسےابن الاتبیہ کہا جاتا تھا، صدقات وصول کرنے پر مامور فرمایا۔ جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا: یہ تمہارا (سرکاری مال) ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: ”وہ اپنے ابا یا اماں کے گھربیٹھا رہتا، پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتاہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص کوئی مال رشوت کے طور پر لے وہ قیامت کے دن اس کو اپنی گردن پر اٹھا کرآئے گا۔ اگر اونٹ ہوگا توبلبلا رہاہوگا، گائے ہوگی تو ڈکار رہی ہوگی اور بکری ہوگی تو ممیار ہی ہوگی۔“ پھرآپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ ہم نے بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا اے اللہ! میں نے تیرا حکم پہنچادیا۔“ یہ تین بار فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2597]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو زکاۃ کی وصولی کے لیے تحصیلدار مقرر کیا۔
لوگوں نے اس کی خوشنودی کے لیے زکاۃ دینے کے علاوہ تحائف بھی پیش کیے۔
یہ ہدایا سرکاری حیثیت کے باعث دیے گئے۔
اگر وہ سرکاری ڈیوٹی پر نہ ہوتا تو لوگ یہ تحائف اس کے گھر نہ پہنچاتے، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی سنگینی ان الفاظ میں بیان فرمائی:
”رشوت کے طور پر قبول کیا جانے والا مال رشوت لینے والے کی گردن پر سوار ہو گا۔
“ آج کل کے سرکاری اہل کار غور و فکر کریں کہ ان کی گردنوں پر کن کن چیزوں کو سوار کیا جائے گا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری اہل کار غوروفکر کریں کہ ان کی گردنوں پر کن کن چیزوں کو سوار کیا جائے گا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ سرکاری عہدے پر فائز ہوتے ہوئے کسی سے تحفہ یا ہدیہ لینا شرعاً جائز نہیں کیونکہ وہ اپنی کارکردگی کے عوض حکومت سے وظیفہ لیتا ہے، اسی طرح مقروض سے نذرانہ یا تحفہ لینا بھی ناجائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2597
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6979
6979. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو بنو سلیم کے صدقات وصول کرنے پر عامل بنایا جسے ابن قبیہ کہا جاتا تھا۔ وہ صدقات لے کر واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حساب کتاب لیا۔ اس نے کہا: یہ تمہارا مال ہے اور یہ (میرا) ہدیہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو سچا ہے تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا، وہیں یہ تحائف تیرے پاس آ جاتے۔“ اس کے بعد آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: اما بعد! میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا ہے، پھر وہ شخص میرے پاس آ کر کہتا ہے: یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اسے ہدایا پہنچ جائیں؟ اللہ کی قسم! تم میں سے جو بھی حق کے بغیر کوئی چیز لے گا وہ اللہ تعالٰی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6979]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح البخاری کے کچھ عنوان مستقل ہیں اور کچھ ضمنی حیثیت رکھتے ہیں مذکورہ عنوان بھی مستقل نہیں بلکہ نتیجہ اور تکملہ ہے چونکہ تیسری صورت حق شفعہ ختم کرنے کے لیے خریدی ہوئی جائیداد چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دینے کی صورت میں تھی اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اورپیش کردہ حدیث سے ہدیے کی حدود و قیود بیان کی ہیں ہدایا کا سبب اس کی ذاتی صلاحیت ہونی چاہیے۔
اگر اس کے علاوہ کسی وجہ سے تحائف ملتے ہیں تو وہ تحائف نہیں ہوں گے جیسا کہ عامل کو سفارت کی وجہ سے تحفے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ سر کاری عہدے کو تحائف و ہدایا وصول کرنے کے لیے بطور حیلہ استعمال نہ کیا جائے۔
2۔
چونکہ سابقہ صورت میں چھوٹے بیٹے کو مکان ہبہ کرنے کا جو حیلہ بتایا گیا تھا وہ بھی اسی نوعیت کا تھا اس لیے اس قسم کا ہدیہ حق شفعہ کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں ہوگا۔
شارحین میں سے کسی نے اس امر کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔
هذا مما فتح الله علي بمنه وكرمه والحمد لله أولا و آخرا وهو خير الفاتحين
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6979
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7174
7174. سیدنا ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بنو اسد کے ایک شخص کو صدقات کی وصولی کے لیے تحصیل دار مقرر کیا۔ اسے ”ابن اتبیہ“ کہا جاتا تھا۔وہ صدقات لے کر آیا تو اس نے کہا: یہ آپ لوگوں کا مال ہے اور یہ مجھے نذرانہ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ منبر پر تشریف لائے۔۔۔۔(راوی حدیث) سفیان نے کہا: منبر پر چڑھے۔۔۔۔۔۔اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جسے ہم (صدقات وصول کرنے کے لیے) بھیجتے ہیں تو وہ وآپس آکر کہتا ہے: یہ مال تمہارا ہے اور یہ میرا ہے؟ کیوں نہ وہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھا جاتا کہ اس کے پاس ہاتھ میں میری جان ہے یا نہیں؟ مجھےاس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ عامل جو چیز بھی اپنے پاس رکھ لے گا قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہوگا تووہ اپنی آواز نکالتا آئے گا۔ اگر گائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7174]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو ہدیے اور نذرانے حکمرانوں کو رعایا کی طرف سے دیے جاتے ہیں وہ رشوت ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
”حاکم وقت کے تحائف اور نذرانے مال خیانت ہیں۔
“ (مسند احمد 5/424)
اسی طرح بادشاہ کو بادشاہ کی حیثیت سے جو تحفہ دیا جائے وہ بیت المال میں شامل ہوگا، ہاں اگر بادشاہ اپنی ذات کے لیے ہدیہ قبول کرے تو وہ اس کے لیے جائز ہے۔
اگر امام وقت کسی کارندے کے لیے ہدیہ مباح کر دے تو وہ ا کے لیے جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم مقرر کرتے وقت فرمایا تھا:
”میں نے تیرے لیے ہدیہ حلال کیا ہے۔
“ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن میں جوہدایا ملے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کرآئے۔
اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو چکا تھا۔
انھوں نےحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا توانھوں نے یہ جائز قرار دیا ہے۔
(عمدة القاري: 428/16)
2۔
ہمارے رجحان کے مطابق حاکم وقت کے ہدایا رشوت ہیں کیونکہ اگر وہ حاکم نہ ہوتا تو کوئی بھی اسے ہدیہ نہ دیتا، اسی طرح قاضی کا ہدیہ بھی حرام ہے۔
ابن بطال کہتے ہیں کہ اگر مقروض، قرض خواہ کو ہدیہ دیتا ہے تو وہ بھی اسی کے حکم میں ہے الا یہ کہ اسے قرض سے منہا کر دیا جائے توجائز ہے۔
(فتح الباري: 208/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7174