Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
9. بَابُ مَنْ شَاقَّ شَقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ:
باب: جو شخص اللہ کے بندوں کو ستائے (مشکل میں پھنسائے) اللہ اس کو ستائے گا (مشکل میں پھنسائے گا)۔
حدیث نمبر: 7152
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ طَرِيفٍ أَبِي تَمِيمَةَ، قَالَ: شَهِدْتُ صَفْوَانَ، وَجُنْدَبًا وَأَصْحَابَهُ وَهُوَ يُوصِيهِمْ، فَقَالُوا: هل سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا؟، قَالَ: سَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: وَمَنْ يُشَاقِقْ يَشْقُقِ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالُوا: أَوْصِنَا، فَقَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا يُنْتِنُ مِنَ الْإِنْسَانِ بَطْنُهُ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَأْكُلَ إِلَّا طَيِّبًا فَلْيَفْعَلْ، وَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يُحَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ بِمِلْءِ كَفِّهِ مِنْ دَمٍ أَهْرَاقَهُ فَلْيَفْعَلْ"، قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَنْ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جُنْدَبٌ، قَالَ: نَعَمْ جُنْدَبٌ.
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے، ان سے جریری نے، ان سے ظریف ابوتمیمہ نے بیان کیا کہ میں صفوان اور جندب اور ان کے ساتھیوں کے پاس موجود تھا۔ صفوان اپنے ساتھیوں (شاگردوں) کو وصیت کر رہے تھے، پھر (صفوان اور ان کے ساتھیوں نے جندب رضی اللہ عنہ سے) پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو لوگوں کو ریاکاری کے طور پر دکھانے کے لیے کام کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی ریاکاری کا حال لوگوں کو سنا دے گا اور فرمایا کہ جو لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تکلیف میں مبتلا کرے گا، پھر ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے انسان کے جسم میں اس کا پیٹ سڑتا ہے پس جو کوئی طاقت رکھتا ہو کہ پاک و طیب کے سوا اور کچھ نہ کھائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہئے اور جو کوئی طاقت رکھتا ہو وہ چلو بھر لہو بہا کر (یعنی ناحق خون کر کے) اپنے آپ کو بہشت میں جانے سے روکے۔ جریری کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ سے پوچھا، کون صاحب اس حدیث میں یہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؟ کیا جندب کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں وہی کہتے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7152 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7152  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں عسعس بن سلامہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ شورش برپا کرنے والوں کو جمع کریں تاکہ میں انھیں حدیث بیان کروں،چنانچہ خوارج کے سرغنوں،یعنی نافع بن ازرق،ابوبلال مرد اس،نجدہ اور صالح بن مشرح کو جمع کیا گیا تو انھوں نے ان لوگوں کے سامنے مذکورہ حدیث بیان کی۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب انھوں نے وعظ سنا تو رونے لگے۔
حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
اگر یہ سچے ہیں تو میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو نجات یافتہ نہیں پایا۔
(صحیح مسلم الایمان حدیث 279(97)
وفتح الباری 13/161،162)

دراصل یہ لوگ فتنہ برپا کرنے والے تھے اور انتہائی درجہ کے پاکباز معلوم ہوتے تھے جب وہ وعظ سن کر رونے لگے تو انھوں نے ان کی ریاکاری کو محسوس کیا اور فرمایا:
اگر یہ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات یافتہ ہیں۔

بہرحال ان خوارج نے مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا،بچوں،عورتوں اور لوگوں کا قتل عام کیا۔
ہمارے رجحان کے مطابق حدیث بالا کا یہ مفہوم ہے کہ جس نے مسلمانوں کےدرمیان اختلاف ڈالا اوراپنے لیے کسی الگ راستے کا انتخاب کیا جو سبیل المومنین (اہل ایمان کے راستے)
کے علاوہ ہوتو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سخت مصیبت سے دوچار کرے گا کیونکہ خوارج نے جوحالات پیدا کررکھے تھے ان کے پیش نظر یہی مفہوم مناسب ہے۔
واللہ اعلم۔w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7152