Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
4. بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً:
باب: امام اور بادشاہ اسلام کی بات سننا اور ماننا واجب ہے جب تک وہ خلاف شرع اور گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔
حدیث نمبر: 7144
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7144 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7144  
حدیث حاشیہ:
امیر ہوں یا امام مجتہد غلطی کا امکان سب سے ہے، اس لیے غلطی میں ان کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔
اسی سے اندھی تقلید کی جڑکٹتی ہے۔
آج کل کسی امام مسجد کا امام و خلیفہ بن بیٹھنا اور اپنے نہ ماگننے والوں کو اس حدیث کا مصداق ٹھہرانا اس حدیث کا مذاق اڑانا ہے اور لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل کا مصداق بننا ہے۔
جبکہ ایسے امام اغیار کی غلامی میں رہ کر خلیفہ کہلاکر خلافت اسلامی کا مذاق اڑاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7144   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7144  
حدیث حاشیہ:

امیر یا امام میں انسان ہونے کی حیثیت سے غلطی کا امکان باقی رہتا ہے،غلطی میں ان کی اطاعت کرنا جائز نہیں لیکن بغاوت کرنے کی بھی اجازت نہیں تاہم اگر حاکم وقت کفر بواح کا مرتکب ہو،یعنی اس کا کفر روز روشن کی طرح واضح ہو تو ایسے حالات میں علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے۔
اگرہمت ہو تو ایسے امام کامقابلہ کرنا اور اس پرڈٹ جانا چاہیے۔
مداہنت کرنے والا اور بزدلی کا مظاہرہ کرنے والا گناہ گار ہوگا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں باز پرس ہو۔
اگر کوئی کمزور ہےتو ضروری ہے کہ وہاں سے ہجرت کرجائے اور اپنے دین کو بچالے۔
اگروہاں سے ہجرت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو دل میں کڑھتا رہے اور ان سے نفرت کرتارہے۔

بہرحال معمولی معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر فتنہ وفساد کھڑا کرنا یا مسلح بغاوت کے لیے راستہ ہموار کرنا اسلام اور اہل اسلام کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
بہرحال ان احادیث میں امام سے مراد کسی مسجد کا امام نہیں یا امیر سے مراد کسی تنظیم کا امیر نہیں،ایسا کرنا حدیث کا مذاق اڑاناہے۔
واللہ المستعان۔w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7144   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2864  
´اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان آدمی پر (امیر اور حاکم کی) بات ماننا لازم ہے، چاہے وہ اسے پسند ہو یا ناپسند، ہاں اگر اللہ اور رسول کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس کو سننا ماننا نہیں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2864]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نیک کام میں امیر کی اطاعت سے انکار نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ کام طبعی طور پر ناگوار محسوس ہو۔

(2)
ناجائز حکم کی تعمیل کرنا جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2864   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1707  
´خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ اس کے لیے سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1707]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی امام کا حکم پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ اسے بجالانا ضروری ہے،
بشرطیکہ معصیت سے اس کا تعلق نہ ہو،
اگر معصیت سے متعلق ہے تو اس سے گریز کیا جائے گا،
لیکن ایسی صورت سے بچنا ہے جس سے امام کی مخالفت سے فتنہ و فساد کے رونما ہونے کا خدشہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1707   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2955  
2955. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (امام اور خلیفہ وقت کی)بات سننا اور ماننا (ہر مسلمان کے لیے)ضروری ہے تاوقیتکہ کسی گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر کسی گناہ کا حکم دیا جائے تو پھر (اس کی بات)سننا اور ماننا ضروری نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2955]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ دوسری حدیث میں ہے «لا طاعةَ لمخلوق في معصيةِ الخالقِ» بڑا بادشاہ حق تعالیٰ ہے‘ اس کے حکم کے خلاف میں کسی کا حکم نہ سننا چاہئے۔
اگر کوئی بادشاہ خلاف شرع حکم دے تو اس کو سمجھانا چاہئے۔
ورنہ سب لوگ مل کر ایسے بادشاہ کو معزول کردیں۔
اس حدیث سے ان لوگوں کا بھی رد ہوا جو آیات قرآنی و احادیث نبویہ کے ہوتے ہوئے اپنے اماموں کے قول پر جمے رہتے ہیں۔
اور آیات و احادیث کی غلط تاویلات کرکے ان کو ٹال دیتے ہیں۔
جن کی بہت سی مثالیں علامہ ابن قیمؒ کی کتاب اعلام الموقعین میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
بقول حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللھ ؒ ایسے لوگ کیا جواب دیں گے جس دن اللہ کی عدالت عالیہ میں کھڑے ہونا ہوگا۔
قرآن مجید میں جہاں اطاعت والدین کا حکم ہے وہاں صاف موجود ہے کہ اگر ماں باپ شرک کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت ہرگز نہ جائے۔
اس حدیث سے تقلید جامد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
کہنے والے نے سچ کہا ہے۔
فاھرب عن التقلید فھو ضلالة أن المقلد في سبیل الھالك یعنی تقلید جامد سے دور رہو یہ بربادی کا راستہ ہے … یہ نقطہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔
مزید تفصیل کے لئے معیار الحق حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحبؒ محدث دہلوی کا مطالعہ کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2955   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2955  
2955. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (امام اور خلیفہ وقت کی)بات سننا اور ماننا (ہر مسلمان کے لیے)ضروری ہے تاوقیتکہ کسی گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر کسی گناہ کا حکم دیا جائے تو پھر (اس کی بات)سننا اور ماننا ضروری نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2955]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری حدیث میں ہے:
خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی بات نہ مانی جائے۔
(مسند أحمد 131/1)
بڑا حاکم اللہ تعالیٰ ہے۔
اس کی خلاف ورزی میں کسی دوسرے کا حکم سننا چاہیے اور نہ اسے ماننا ہی چاہیے۔
اگر کوئی حکمران خلاف شرع حکم دے تو اسے سمجھانا چاہیے۔
اگرباز آجائے تو درست بصورت دیگرسب لوگ مل کراسے معزول کردیں۔

اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جب ظالم حکمران ملک کا انتظام اچھی طرح چلارہا ہوتو اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا جائز نہیں اور نہ اس کی بیعت توڑنا ہی جائز ہے۔
یہ حدیث رد تقلید کے لیے بھی زبردست دلیل ہے کیونکہ جامدتقلید تباہی کاراستہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2955