صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
4. بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً:
باب: امام اور بادشاہ اسلام کی بات سننا اور ماننا واجب ہے جب تک وہ خلاف شرع اور گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔
حدیث نمبر: 7143
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنِ الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْوِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُفَارِقُ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَيَمُوتُ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے جعد نے بیان کیا اور ان سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے اپنے امیر میں کوئی برا کام دیکھا تو اسے صبر کرنا چاہئے کیونکہ کوئی اگر جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7143 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7143
حدیث حاشیہ:
جماعت سے الگ ہونا اس سے یہ مراد ہے کہ حاکم اسلام سے باغی ہوکر اس کی اطاعت سے نکل جائے جیسا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں خارجیوں نے کیا تھا ایسا کرنا ملی نظام کو توڑنا اور عہد جاہلیت کی سی خودسری میں گرفتار ہونا ہے جو اہل جاہلیت کا شیوہ تھا۔
مسلمان کو ایسی خودسری کی حالت میں مرنا عہد جاہلیت والوں کی سی موت ہرنا ہے جو مسلمان کے لیے کسی طرح زیبا نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7143
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7143
حدیث حاشیہ:
1۔
جماعت سے الگ ہونے سے مراد ملکی وقومی اور دینی نظام کوتوڑ کر حاکم اسلام سے بغاوت کرنا ہے۔
ایسا آدمی عہد جاہلیت کی سی خودسری میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
ایسی حالت میں مرناجاہلیت کی موت مرنا ہے جو مسلمان کی شان کے مناسب نہیں۔
2۔
اس حدیث میں امیر سے مراد ہماری خود ساختہ تنظیموں کے امیر نہیں بلکہ خلیفہ اسلام ہے جو صحیح معنوں میں صاحب اقتدار اوراختیارات کا مالک ہو۔
ایسے امیر کی اطاعت ضروری ہے۔
معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر بغاوت کا راستہ ہموار کرنا جاہلیت کی یاد تازہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دور جاہلیت کے لوگ ہر قسم کے قانون سے بالازندگی گزارنے کے عادی تھے۔
ایسے حالات میں اگرکوئی حاکم وقت سے بغاوت کرتاہے تو جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
اس حدیث کی پہلے بھی وضاحت ہوچکی ہے۔
واللہ المستعان۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7143
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7053
7053. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو صبر کرے کیونکہ اگر کوئی اپنے امیر کی اطاعت سے بالشت بھر بھی باہر نکلا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7053]
حدیث حاشیہ:
خلیفہ اسلام کی اطاعت سے مقصد یہ ہے کہ معمولی باتوں کو بہانہ بنا کر قانون شکنی کر کے لاقانونیت نہ پیدا کی جائے ورنہ عہد جاہلیت کی یاد تازہ ہوجائے گی۔
فتنہ و فساد زور پکڑ جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7053
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7054
7054. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لیے کہ جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7054]
حدیث حاشیہ:
امام احمد کی روایت میں اتنا زیادہ ہے گو تم اپنے تئیں حکومت کا حق دار سمجھو جب بھی اس رائے پر نہ چلو بلکہ حاکم وقت کی اطاعت کرو، اس کا حکم سنو، یہاں تک کہ اگر اللہ کو منظور ہے تو بن لڑے بھڑے تم کو حکومت مل جائے۔
ابن حبان اور امام احمد کی روایت میں ہے گو یہ حاکم تمہارا مال کھائے، تمہاری پیٹھ پر مار لگائے یعنی جب بھی صبر کرو۔
اگر کفر کرے تو اس سے لڑنے پر تم کو مواخذہ نہ ہوگا۔
دوسری روایت میں یوں ہے جب تک وہ تم کو صاف اور صریح گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔
تیسری روایت میں ہے جو حاکم اللہ کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے۔
ابن ابی شیبہ کی روایت میں یوں ہے تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جو تم کو ایسی باتوں کا حکم کریں گے جن کو تم نہیں پہچانتے اور ایسے کام کریں گے جن کو تم برا جانتے ہو تو ایسے حاکموں کی اطاعت کرنا تم کو ضروری نہیں یہ جو فرمایا اللہ کے پاس تم کو دلیل مل جائے گی یعنی اس سے لڑنے اور اس کی مخالفت کرنے کی سند تم کو مل جائے گی۔
اس سے یہ نکلا کہ جب تک حاکم کے قول و فعل کی تاویل شرعی ہو سکے۔
اس وقت تک اس سے لڑنا یا اس پر خروج کرنا جائز نہیں البتہ اگر صاف و صریح وہ شرع کے مخالف حکم دے تو اور قواعد اسلام کے برخلاف چلے جب تو اس پر اعتراض کرنا اور اگر نہ مانے تو اس سے لڑنا درست ہے۔
داؤدی نے کہا اگر ظالم حاکم کا معزول کرنا بغیر فتنہ اور فساد کے ممکن ہو تب تو واجب ہے کہ وہ معزول کر دیا جائے ورنہ صبر کرنا چاہئے۔
بعضوں نے کہا ابتداء فاسق کو حاکم بنانا درست نہیں اگر حکومت ملتے وقت عادل ہو پھر فاسق ہو جائے اس پر خروج کرنے میں علماء کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ خروج اس وقت تک جائز نہیں جب تک اعلانیہ کفر نہ کرے، اگر اعلانیہ کفر کی باتیں کرنے لگے اس وقت اس کو معزول کرنا واجب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7054
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7054
7054. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے، اس لیے کہ جس نے جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7054]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان احادیث میں امیر سے مراد ہماری تنظیموں کے امیر نہیں بلکہ خلیفہ اسلام ہے جو صحیح معنوں میں صاحب اقتدار ہو۔
ایسے صاحب اختیارخلیفے کی اطاعت ضروری ہے۔
معمولی باتوں کا بہانہ بنا کر قانون شکنی نہ کی جائے اور نہ بغاوت کا راستہ ہی ہموار کیا جائے۔
اگر ایسا کیا تو عہد جاہلیت کی یاد تازہ ہوگی کیونکہ دور جاہلیت میں لاقانونیت کا دور دورہ تھا اور وہ لوگ ہر قسم کے قانون سے بالا زندگی گزارنے کے عادی تھے۔
2۔
اگر کوئی حکمران وقت سے بغاوت کرتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خونریزی اور فتنہ و فساد زور پکڑے گا۔
انسانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت اسی میں ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کی جائے۔
سازشوں اور فتنوں کو دبانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔
ہاں اگر حاکم وقت کھلا کفر کرے تو ایسے حالات میں جہاں اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہو وہاں ان کی اطاعت نہ کی جائے۔
3۔
جماعت سے علیحدگی کی صورت یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے خلاف سرکشی کی کوشش کرے اگرچہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہو اس مذموم کوشش کا نتیجہ فساد اور خونریزی ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7054