Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
2. بَابُ الأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ:
باب: امیر اور سردار اور خلیفہ ہمیشہ قریش قبیلے سے ہونا چاہئے۔
حدیث نمبر: 7139
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ بَلَغَ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي وَفْدٍ مِنْ قُرَيْشٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَيَكُونُ مَلِكٌ مِنْ قَحْطَانَ، فَغَضِبَ، فَقَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِنْكُمْ يُحَدِّثُونَ أَحَادِيثَ لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا تُوثَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُولَئِكَ جُهَّالُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَالْأَمَانِيَّ الَّتِي تُضِلُّ أَهْلَهَا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ مَا أَقَامُوا الدِّينَ"،تَابَعَهُ نُعَيْمٌ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ محمد بن جبیر بن مطعم بیان کرتے تھے کہ میں قریش کے ایک وفد کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ انہیں معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عنقریب قبیلہ قحطان کا ایک بادشاہ ہو گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اس پر غصہ ہوئے اور کھڑے ہو کر اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق کی پھر فرمایا، امابعد! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو نہ کتاب اللہ میں ہے اور اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، یہ تم میں سے جاہل لوگ ہیں۔ پس تم ایسے خیالات سے بچتے رہو جو تمہیں گمراہ کر دیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ امر (خلافت) قریش میں رہے گا۔ کوئی بھی ان سے اگر دشمنی کرے گا تو اللہ اسے رسوا کر دے گا لیکن اس وقت تک جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے۔ اس روایت کی متابعت نعیم نے ابن مبارک سے کی ہے، ان سے معمر نے، ان سے زہری نے اور ان سے محمد بن جبیر نے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7139 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7139  
حدیث حاشیہ:
قحطانی کی بابت حدیث مذکور کو علاوہ ازیں حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر رضی للہ عنہم نے بھی روایت کیا ہے۔
مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شاید یہ سمجھے کہ اوائل زمانہ اسلام میں شاید ایسا ہوگا یہ غلط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امارت کو قریش کے ساتھ خاص کیا ہے اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت ایک وقت ایسا آئے گا جب قحطانی شخص بادشاہ ہوگا۔
امر خلافت اسلامی قریش کے ساتھ مخصوص ہے۔
جب تک وہ دین کو قائم رکھیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7139   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7139  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کیا ہوا عنوان مستقل ایک حدیث ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
\"خلفاء قریش سے ہوں گے۔
ان کے تمہارے ذمے کچھ حقوق ہیں اور تمہارے ان کے ذمے کچھ حقوق ہیں۔
یہ اس وقت ہوگا جب وہ رحم کی اپیل پر کان دھریں،اپنے معاہدوں کی پاسداری کریں اور اپنے فیصلوں میں عدل وانصاف کو ملحوظ رکھیں،اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان پر اللہ کی،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
\"(مسنداحمد 3/129)
اسی طرح یہ روایت حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان کی ہے۔
(مسنداحمد4/424)
یہی الفاظ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہیں۔
(مسنداحمد 4/396)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب ما جاء أن الخلفاء من قريش إلى أن تقوم الساعة)
\"قیامت تک خلفاء قریش سے ہوں گے۔
\"پھر انھوں نے اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل حدیث پیش کی ہے:
\"قبیلہ بکر بن وائل کے ایک آدمی نے کہا:
اگرقریش اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان سے خلافت چھین کر جمہور عرب کے حوالے کردے گا۔
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کرکہا توغلط کہتاہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
\"اچھے اوربُرے حالات میں قیامت تک کے لیے قریش ہی لوگوں کے سربراہ ہوں گے۔
\"(جامع الترمذی الفتن حدیث 2227)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لیے ناراض ہوئے کہ ان کے خیال کے مطابق ابھی قحطانی کا ظہورہوگا،حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قحطانی کا ظہور قرب قیامت کے وقت ہوگا۔
(صحیح البخاری الفتن حدیث 7117)
یہ اس وقت ہوگا جب قریش خلافت کے معاملے میں وہ میعار قائم نہیں رکھیں گے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے،یعنی وہ رعایا کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے اور عدل وانصاف کے بجائ ظلم وستم کرنے لگیں گے۔
واللہ اعلم۔w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7139   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3500  
3500. حضرت محمد بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انھیں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک بات پہنچی کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھےگا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، پھر خطبہ دینے کے لیے اٹھے۔ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ حضرات ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہ رسول اللہ ﷺ ہی سے منقول ہیں۔ دیکھو!تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، لہذا ان سے اور ان کے خیالات سے بچت رہو۔ اس قسم کے خیالات نے انھیں گمراہ کردیاہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا ہے: "خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کوقائم رکھیں گے اور ان سے جوبھی دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ گرائے گا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3500]
حدیث حاشیہ:
قریش جب دین اورشریعت کوچھوڑ دیں گے توان میں سے بھی جاتی رہےگی۔
آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
پانچ چھ سوبرس تک خلافت بنوامیہ اوربنو عباسیہ میں قائم رہی جو قریشی تھے۔
جب انہوں نے شریعت پرچلنا چھوڑ دیا توان کی خلافت چھن گئی اور دوسرے لوگ باد شاہ بن گئے۔
جب سے آج تک پھر قریش کوخلافت اورسرداری نہیں ملی۔
عبداللہ بن عمرو نےجو حدیث روایت کی ہے وہ اس کےخلاف نہیں ہے۔
ا س حدیث کامطلب یہ ہےکہ قیامت کےقریب ایک قحطانی عرب کابادشاہ ہوگا۔
ابوہریرہ سےبھی مروی ہے۔
ذی مخبرحبشی سے بھی مرفوعا مروی ہے کہ حکومت قریش سےپہلے حمیر میں تھی اورپھر ان میں چلی جائے گی۔
اس کو احمد اورطبرانی نےنکالا ہے۔
قحطان یمن میں ایک مشہور قبیلہ ہےحضرت معاویہ کومحمد بن جبیروالی حدیث کاعلم نہ تھا، اس لیے انہیں شبہ ہوااور ان سخت لفظوں میں اس پرنوٹس لیا مگر ان کا یہ نوٹس صحیح نہ تھا کیونکہ یہ حدیث صحیح ہےاور رسول اللہ ﷺ سےسند صحیح کےساتھ ثابت ہےجیسا کہ حضرت ابوہریرہ نےبھی اس کوروایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3500   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3500  
3500. حضرت محمد بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے ایک وفد میں تھے کہ انھیں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ ایک بات پہنچی کہ عنقریب بنو قحطان سے ایک حکمران اٹھےگا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے، پھر خطبہ دینے کے لیے اٹھے۔ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم میں سے کچھ حضرات ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں اور نہ وہ رسول اللہ ﷺ ہی سے منقول ہیں۔ دیکھو!تم میں سب سے جاہل یہی لوگ ہیں، لہذا ان سے اور ان کے خیالات سے بچت رہو۔ اس قسم کے خیالات نے انھیں گمراہ کردیاہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا ہے: "خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کوقائم رکھیں گے اور ان سے جوبھی دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ گرائے گا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3500]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں قریش کی تعریف بیان ہوئی ہے کہ جب تک وہ دین اسلام پر قائم رہیں گے حکومت و سرداری ان میں قائم رہے گی،چنانچہ پانچ چھ سو برس تک خلافت بنوامیہ اور بنو عباسیہ قائم رہی،یہ تمام حضرات قریشی تھے اور جب انھوں نے شریعت پر چلنا چھوڑدیا تو ان سے خلافت چھن گئی اور دوسرے لوگ بادشاہ بن گئے،پھر قریش کو حکومت نہیں ملی۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا مطلب ہے کہ قیامت کے قریب ایک قحطانی عرب کا بادشاہ ہوگا جولوگوں پرزبردستی حکومت کرے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
قحطان یمن میں ایک مشہور قبیلہ ہے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خیال کیا کہ لوگ اس حدیث کو بنیاد بنا کر خلافت کو قریش سےچھیننا چاہتے ہیں،اس بناپر انھوں نے سخت نوٹس لیا اور ناراض ہوئے۔
انھوں نے سمجھا کہ مستقبل قریب میں قریش سے حکومت چھین لی جائےگی جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرادیہ تھی کہ قرب قیامت کے وقت ایسا ہوگا اورتغیر زمان اورتبدیل احکام کی بڑی علامت ہوگی۔
وہ قحطانی قریشی نہیں ہوگا اور نہ کسی خاندانِ نبوت سے اس کا تعلق ہوگا۔
(فتح الباری 6/654) w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3500