صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
26. بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ:
باب: دجال کا بیان۔
حدیث نمبر: 7131
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا بُعِثَ نَبِيٌّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ، أَلَا إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، وَإِنَّ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ: كَافِرٌ"، فِيهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو نبی بھی مبعوث کیا گیا تو انہوں نے اپنی قوم کو کانے جھوٹے سے ڈرایا، آگاہ رہو کہ وہ کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ”کافر“ لکھا ہوا ہے۔“ اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7131 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7131
حدیث حاشیہ:
یہ دونوں احادیث الانبیاء میں موصولاً گزر چکی ہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ مومن اس کو پڑھ لے گا خواہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو اور کافر نہ پڑسکے گا گو لکھا پڑھا بھی ہو۔
یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہوگی۔
نووی نے کہا صحیح یہ ہے کہ حقیقتاً یہ لفظ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا۔
بعضوں نے اس کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک مومن کے دل میں ایمان کا ایسا نور دے گا کہ وہ دجال کو دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ یہ کافر جعل ساز بدمعاش ہے اور کافر کی عقل پر پردہ ڈال دے گا وہ سمجھے گا کہ دجال سچا ہے۔
دوسری روایت میں ہے یہ شخص مسلمان ہوگا اور لوگوں سے پکار کر کہہ دے گا مسلمانو یہی وہ دجال ہے جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ دجال آرے سے اس کو چروا ڈالے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ تلوار سے دو نیم کر دے گا اور یہ جلانا کچھ دجال کا معجزہ نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے کافر کو معجزہ نہیں دیتا بلکہ خدا کا ایک فعل ہوگا جس کو وہ اپنے سچے بندوں کے آزمانے کے لیے دجال کے ہاتھ پر ظاہر کرے گا۔
اس حدیث سے یہ بھی نکا کہ ولی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ شریعت پر قائم ہو۔
اگر کوئی شخص شریعت کے خلاف چلتا ہو اور مردے کو بھی زندہ کرکے دکھائے جب بھی اس کو نائب دجال سمجھنا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7131
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7131
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دجال کی ایک آنکھ مٹی ہوئی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجےکر کے بتلایا ک، ف، ر، جسے ہر مسلمان پڑھ سکے گا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 2933۔
(7365)
2۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کا لفظ حقیقت کے طور پر لکھا ہوگا جبکہ کچھ حضرات اس کی تاویل کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ایمان کا نور بھر دے گا۔
وہ دجال کو دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ یہ کافر جعل ساز شعبدے باز ہے اور کافر کی عقل پر پردہ ڈال دیا جائے گا وہ اس کی شعبد ہ بازی دیکھ کر اسے سچا خیال کرے گا لیکن احادیث کے الفاظ اس تاویل کی تردید کرتے ہیں۔
3۔
واضح رہے کہ دجال اپنے ماتھے پر لکھا ہوا۔
"کافر" مٹانے کی قدرت نہیں رکھے گا کیونکہ اگر اس کے لیے یہ ممکن ہو تو وہ اسے ضرور مٹا ڈالے تاکہ وہ لوگوں کو مزید گمراہ کر سکے لیکن اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا مومن ان الفاظ کو بآسانی پڑھ لے گا خواہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو اور کافر انھیں نہیں پڑھ سکے گا۔
خواہ پڑھا لکھا ہو۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7131
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7366
حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" دجال کی بائیں آنکھ کانی ہوگی بال گھنے ہوں گے اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوگی اس کی آگ جنت ہوگی اور اس کی جنت آگ ہوگی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7366]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جفال الشعر:
گھنے بال۔
فوائد ومسائل:
دجال سے بعض خرق عادت کام نظر آئیں گے،
اس لیے لوگ اس کی جعل سازیوں کا شکار ہوجائیں گے،
لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرح خرق عادت کے طور پر،
اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھ دیا ہوگا،
جسے خرق عادت کے طور پر ہر مسلمان پڑھا لکھا ہو یا جاہل ہو پڑھے گا اور کوئی کافر پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ،
پڑھ نہیں سکے گا،
وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا،
لیکن اپنی آنکھوں کو صحیح نہیں کر سکے گا اور نہ ہی اپنی آنکھوں کے درمیان سے کافر کا لفظ مٹاسے گا،
جس سے اس کا دجل و فریب مسلمان پر واضح ہو جائے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7366
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7408
7408. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں ان سب نے اپنی قوم کو کانے کذاب سے ضرور خبردار کیا ہے۔ وہ (دجال) کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں۔ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7408]
حدیث حاشیہ:
یہ مسیح الدجال کا حال ہے جو دجال حقیقی ہوگا باقی مجازی دجال مولویوں، پیروں، اماموں کی شکل میں آکر امت کو گمراہ کرتے رہیں گے جیسا کہ حدیث میں ثلاثُونَ دجالون کذابون کےالفاظ آئے ہیں۔
حدیث میں اللہ کےبے عیب آنکھ کا ذکر آیا۔
یہی باب سے مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7408
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7408
7408. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں ان سب نے اپنی قوم کو کانے کذاب سے ضرور خبردار کیا ہے۔ وہ (دجال) کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں۔ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7408]
حدیث حاشیہ:
دجال اپنے رب ہونے کا دعویٰ کرے گا، اس کے رب ہونے کی نفی کی گئی ہے۔
اس کی علامت یہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔
یہ ایک ایسی محسوس علامت ہے جس کو عوام الناس بھی محسوس کرسکتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت بیان کی گئی ہے کہ اس کے شایان شان بے عیب آنکھیں ہیں۔
اسے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے گا، جس کی اورکوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور نہ اسے مخلوق سے تشبیہ ہی دی جا سکتی ہے۔
اس صفت کا انکار کرنا کفر ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رب العالمین کے لیے صفت عین ثابت کرنے کے لیے دو آیات اور دو احادیث پیش کی ہیں۔
آیات سے مفرد ار جمع کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہیں۔
مفرد لفظ میں صفت عین کو ثابت کیا گیا ہے جبکہ جمع میں ضمیر جمع کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
احادیث میں کذاب دجال کی علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔
عنوان کو اسی جملے سے ثابت کیا گیا ہے کیونکہ عربی زبان میں "عور" یہ ہے کہ دونوں آنکھوں میں سے ایک کی بینائی ختم ہو جائے، اس بنا پر دونوں احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دو آنکھیں ہیں جو مخلوق کی آنکھوں سے مشابہ نہیں ہیں بلکہ جس طرح اللہ رب العزت کے شایان شان ہے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اس امر کی مزید وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی دونوں آنکھیں صحیح سالم، تندرست اور ہر قسم کے نقص وعیب سے پاک ہیں۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 285/1)
امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العالمین کے متعلق وضاحت فرمائی ہے کہ اس کی دو آنکھیں ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان قرآن کریم کی صراحت کے عین مطابق ہے، پھر انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے، انھوں نے یہ آیت تلاوت کی:
”اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
“ (النساء 134)
پھر فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو تلاوت کرتے وقت اپنا انگوٹھا کان پر اور ساتھ والی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی تھی۔
(کتاب التوحید لابن خزیمة: 42۔
43)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7408