صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
21. بَابُ إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ:
باب: کوئی شخص لوگوں کے سامنے ایک بات کہے پھر اس کے پاس سے نکل کر دوسری بات کہے (تو یہ دغا بازی ہے)۔
حدیث نمبر: 7114
حَدَّثَنَا خَلَّادٌ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ:" إِنَّمَا كَانَ النِّفَاقُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَإِنَّمَا هُوَ الْكُفْرُ بَعْدَ الْإِيمَانِ".
ہم سے خلاد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، ان سے ابوالشعثاء نے بیان کیا اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نفاق تھا آج تو ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7114 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7114
حدیث حاشیہ:
1۔
دورحاضر کے منافقین اس لیے زیادہ شرارتی ہیں کہ انھوں نے وہ امور ظاہر کردیے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زیر زمین کیے جاتے تھے۔
اس وقت لوگوں نے دلوں میں کفر چھپا رکھا تھا، البتہ ان کی گفتگو کے انداز سے ان کی شناخت ہوتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آپ انھیں ان کے انداز گفتگو ہی سے پہچان لیں گے۔
“ (محمد 47/30)
2۔
ایک سیدھے سادے اور صاف دل پکے مومن کی گفتگو میں ایسی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے جو دل میں کھوٹ رکھنے والے شخص کے انداز کلام میں نہیں پائی جاتی۔
ہمارے رجحان کے مطابق حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اطاعت سے خروج اور بغاوت جاہلیت ہے جبکہ اسلام میں جاہلیت کا تصور نہیں بلکہ ایسا کرنا اجتماعیت کو پارہ پارہ اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 93/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7114
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 62
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس باتوں کی وصیت`
«. . . وَعَن حُذَيْفَة قَالَ: إِنَّمَا كَانَ النِّفَاق عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَإِنَّمَا هُوَ الْكفْر بعد الايمان. رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
”. . . سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد نبوت میں نفاق موجود تھا لیکن (نبوت کے بعد) آج کفر یا ایمان ہے۔ (بخاری) . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 62]
تخریج:
[صحيح بخاري 7114]
فقہ الحدیث:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب اسلام کو چاروں طرف سے خطرہ تھا اس وقت منافقین کی پکڑ دھکڑ نہیں کی گئی اور نہ انہیں قتل کیا گیا تاکہ لوگ یہ نہ کہتے پھریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں، اب یہ رخصت اور نرمی باقی نہیں رہی کیونکہ اسلام غالب ہو گیا۔ اب تو کفر یا اسلام ہی باقی رہ گیا ہے۔
➋ نفاق گناہ کبیرہ ہے۔ خليفة المسلمین اگر مناسب سمجھے تو منافقین کو سزا دے سکتا ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 62