مسند احمد
مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ
0
349. حَدِیث رَبِیعَةَ بنِ كَعب الاَسلَمِیِّ
0
حدیث نمبر: 16579
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ نُعَيْمٍ بن مُجْمِرِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقُومُ لَهُ فِي حَوَائِجِهِ نَهَارِي أَجْمَعَ، حَتَّى يُصَلِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، فَأَجْلِسُ بِبَابِهِ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ أَقُولُ: لَعَلَّهَا أَنْ تَحْدُثَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَةٌ، فَمَا أَزَالُ أَسْمَعُهُ يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ" حَتَّى أَمَلَّ، فَأَرْجِعَ أَوْ تَغْلِبَنِي عَيْنِي، فَأَرْقُدَ، قَالَ: فَقَالَ لِي يَوْمًا: لِمَا يَرَى مِنْ خِفَّتِي لَهُ، وَخِدْمَتِي إِيَّاهُ" سَلْنِي يَا رَبِيعَةُ أُعْطِكَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْظُرُ فِي أَمْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ أُعْلِمُكَ ذَلِكَ، قَالَ: فَفَكَّرْتُ فِي نَفْسِي، فَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ وزَائِلَةٌ، وَأَنَّ لِي فِيهَا رِزْقًا سَيَكْفِينِي وَيَأْتِينِي، قَالَ: فَقُلْتُ: أَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآخِرَتِي، فَإِنَّهُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِالْمَنْزِلِ الَّذِي هُوَ بِهِ، قَالَ: فَجِئْتُهُ، فَقَالَ:" مَا فَعَلْتَ يَا رَبِيعَةُ؟"، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْأَلُكَ أَنْ تَشْفَعَ لِي إِلَى رَبِّكَ، فَيُعْتِقَنِي مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَقَالَ:" مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا يَا رَبِيعَةُ؟"، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ الَّذِي بَعَثَكِ بِالْحَقِّ، مَا أَمَرَنِي بِهِ أَحَدٌ، وَلَكِنَّكَ لَمَّا قُلْتَ: سَلْنِي أُعْطِكَ، وَكُنْتَ مِنَ اللَّهِ بِالْمَنْزِلِ الَّذِي أَنْتَ بِهِ، نَظَرْتُ فِي أَمْرِي وَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ وَزَائِلَةٌ، وَأَنَّ لِي فِيهَا رِزْقًا سَيَأْتِينِي، فَقُلْتُ: أَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآخِرَتِي، قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلًا، ثُمَّ قَالَ لِي:" إِنِّي فَاعِلٌ، فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ".
سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اور سارا دن ان کے کام کاج میں لگا رہتا تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء پڑھ لیتے اور اپنے گھر میں چلے جاتے تو میں ان کے دروازے پر بیٹھ جاتا اور یہ سوچتا کہ ہو سکتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام پڑ جائے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہوئے سنتا، حتی کہ تھک کر واپس آجاتا یا نیند سے مغلوب ہو کر سو جاتا، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری خدمت اور اپنے آپ کو ہلکان کرنے کو دیکھ کر مجھ سے فرمایا: مانگو، میں تمہیں عطاء کر وں گا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! مجھے کچھ سوچنے کی مہلت دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سوچ بچار کر لو، میں نے سوچا کہ دنیا کی زندگی تو گزر ہی جائے گی، لہذا آخرت سے بہتر مجھے اپنے لئے کوئی چیز محسوس نہ ہوئی، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہاری کیا ضرورت ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! اپنے پروردگار سے سفارش کر دیجئے کہ وہ مجھے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطاء کر دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں یہ بات کس نے بتائی؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! اللہ کی قسم! مجھے یہ بات کسی نے نہیں سمجھائی، بلکہ میں نے خود ہی اپنے معاملے میں غور و فکر کیا کہ دنیا تو دنیا والوں سے بھی چھن جاتی ہے لہذا میں نے سوچا کہ آخرت کے لئے درخواست پیش کر دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر سجدوں کی کثرت کے ساتھ میری مدد کر و۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: «فأعني على ......السجود» فصحيح لغيره