مسند احمد
مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ
0
343. بَقِیَّة حَدِیثِ ابنِ الاَكوَعِ فِی المضَافِ مِنَ الاَصلِ
0
حدیث نمبر: 16539
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أُبْدَِّيَهُ مَعَ الْإِبِلِ، فَلَمَّا كَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَتَلَ رَاعِيَهَا، وَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ، فَقُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اقْعُدْ عَلَى هَذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْهُ بِطَلْحَةَ، وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ أُغِيرَ عَلَى سَرْحِهِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلَى تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْهِي مِنْ قِبَلِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِي سَيْفِي وَنَبْلِي، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَعْقِرُ بِهِمْ، وَذَلِكَ حِينَ يَكْثُرُ الشَّجَرُ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَهُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَمَيْتُ، فَلَا يُقْبِلُ عَلَيَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِهِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَنَا أَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَلْحَقُ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ، فَأَرْمِيهِ، وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَيَقَعُ سَهْمِي فِي الرَّجُلِ حَتَّى انْتَظَمْتُ كَتِفَهُ، فَقُلْتُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَإِذَا كُنْتُ فِي الشَّجَرِ أَحْرَقْتُهُمْ بِالنَّبْلِ، فَإِذَا تَضَايَقَتْ الثَّنَايَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَرَدَيْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَمَا زَالَ ذَاكَ شَأْنِي وَشَأْنَهُمْ أَتَّبَعُهُمْ فَأَرْتَجِزُ، حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي، فَاسْتَنْقَذْتُهُ مِنْ أَيْدِيهِمْ، ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ رُمْحًا، وَأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا، وَلَا يُلْقُونَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ حِجَارَةً، وَجَمَعْتُ عَلَى طَرِيقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا امْتَدَّ الضُّحَى، أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ مَدَدًا لَهُمْ، وَهُمْ فِي ثَنِيَّةٍ ضَيِّقَةٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَأَنَا فَوْقَهُمْ، فَقَالَ عُيَيْنَةُ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟، قَالُوا: لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ، مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتَّى الْآنَ، وَأَخَذَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا، وَجَعَلَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ، قَالَ عُيَيْنَةُ: لَوْلَا أَنَّ هَذَا يَرَى أَنَّ وَرَاءَهُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَكَكُمْ، لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ، فَقَامَ إِلَيْهِ نفرٌ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ، فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمُ الصَّوْتَ، قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِي؟، قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟، قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ، وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَطْلُبُنِي مِنْكُمْ رَجُلٌ فَيُدْرِكُنِي، وَلَا أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي، قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: إِنْ أَظُنُّ، قَالَ: فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِي ذَلِكَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُهُمُ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ، وَعَلَى أَثَرِهِ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَى أَثَرِ أَبِي قَتَادَةَ الْمِقْدَادُ الْكِنْدِيُّ، فَوَلَّى الْمُشْرِكُونَ مُدْبِرِينَ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ، فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ ِعِنَانِ فَرَسِهِ، فَقُلْتُ: يَا أَخْرَمُ، ائْذَنْ الْقَوْمَ يَعْنِي احْذَرْهُمْ فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَقْطَعُوكَ، فَاتَّئِدْ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، قَالَ: يَا سَلَمَةُ، إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عِنَانَ فَرَسِهِ، فَيَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَه، ُفَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعُقرَ بِأَبِي قَتَادَةَ، وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ثُمَّ إِنِّي خَرَجْتُ أَعْدُو فِي أَثَرِ الْقَوْمِ حَتَّى مَا أَرَى مِنْ غُبَارِ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، وَيُعْرِضُونَ قَبْلَ غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ ذُو قَرَدٍ، فَأَرَادُوا أَنْ يَشْرَبُوا مِنْهُ، فَأَبْصَرُونِي أَعْدُو وَرَاءَهُمْ، فَعَطَفُوا عَنْهُ، وَاشْتَدُّوا فِي الثَّنِيَّةِ ثَنِيَّةِ ذِي نثرٍ وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا، فَأَرْمِيهِ، فَقُلْتُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَقَالَ: يَا ثُكْلَ أُمِّ، أَكْوَعُ بَكْرَةً، قُلْتُ: نَعَمْ، أَيْ عَدُوَّ نَفْسِهِ، وَكَانَ الَّذِي رَمَيْتُهُ بَكْرَةً، فَأَتْبَعْتُهُ سَهْمًا آخَرَ، فَعَلِقَ بِهِ سَهْمَانِ، وَيَخْلُفُونَ فَرَسَيْنِ، فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي حَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُوْ قَرَدٍ، فَإِذَا بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمْسِ مِئَةٍ، وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ، فَهُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَلِّنِي فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِكَ مِئَةً فَآخُذَ عَلَى الْكُفَّارِ عَشْوَةً، فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ، قَالَ:" أَكُنْتَ فَاعِلًا ذَلِكَ يَا سَلَمَةُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ فِي ضُوءِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُمْ يُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: مَرُّوا عَلَى فُلَانٍ الْغَطَفَانِيِّ فَنَحَرَ لَهُمْ جَزُورًا، قَالَ: فَلَمَّا أَخَذُوا يَكْشِطُونَ جِلْدَهَا رَأَوْا غَبَرَةً، فَتَرَكُوهَا وَخَرَجُوا هُرّاَبًا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ، وَخَيْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ"، فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِيعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِي وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهَا قَرِيبًا مِنْ ضَحْوَةٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ لَا يُسْبَقُ جَعَلَ يُنَادِي هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ؟ أَلَا رَجُلٌ يُسَابِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ؟ فَأَعَادَ ذَلِكَ مِرَارًا، وَأَنَا وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْدِفِي، قُلْتُ لَهُ: أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا، وَلَا تَهَابُ شَرِيفًا؟، قَالَ: لَا، إِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، خَلِّنِي فَلَأُسَابِقَ الرَّجُلَ، قَالَ:" إِنْ شِئْتَ"، قُلْتُ: أَذْهَبْ إِلَيْكَ، فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ عَنِ النَّاقَةِ، ثُمَّ إِنِّي رَبَطْتُ عَلَيْهَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، يَعْنِي اسْتَبْقَيْتُ نَفْسِي، ثُمَّ إِنِّي عَدَوْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ، فَأَصُكَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ بِيَدَيَّ، قُلْتُ سَبَقْتُكَ وَاللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ: فَضَحِكَ، وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ، حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرہے تھے، میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام رباح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوئے، میں سیدنا طلحۃ بن عبیداللہ کا گھوڑا لے کر نکلا، ارادہ یہ تھا کہ اسے اونٹ کے ساتھ شامل کر دوں گا، لیکن منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کیا اور چرواہے کو قتل کر دیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر ان اونٹوں کو بھگا کر لے گیا، سیدنا سلمہ کہتے ہیں میں نے کہا اے رباح! یہ گھوڑا پکڑ اور اسے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے، پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا، ' یا صباحاہ ' پھر (اس کے بعد) میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا: میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آ کر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو جاتا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کر دیئے۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا اور وہ رسول اللہ کی سواری کا ہوایسا نہیں ہوا کہ جسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہو نے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے، سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آ گئے اور عیینہ بن بدر فزاری بھی ان کے پاس آگیا، سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا، فزاری کہنے لگا کہ یہ کون آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے، اللہ کی قسم! اندھیری رات سے ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ فزاری کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے ماردیں، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہیں) ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں، تو میں نے ان سے کہا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا تم کون ہو؟ میں نے جواب میں کہا: میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے سیدنا محمد کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں ماردو اور تم میں سے کوئی مجھے مار نہیں سکتا، ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے، (پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور) میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا نہیں تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے سیدنا ابوقتاد تھے اور ان کے پیچھے سیدنا مقداد بن اسود کندی تھے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی (یہ دیکھتے ہی) وہ لٹیرے بھاگ پڑے، میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نہ آجائیں، اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ! اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہواور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو، میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا، اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کر دیا اور عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران رسول اللہ کے شہسوار سیدنا ابوقتادہ آ گئے (جب انہوں نے یہ منظر دیکھا) تو سیدنا ابوقتادہ نے عبدالرحمن فزاری کو بھی برچھی مار کر قتل کر دیا میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گردو غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے سورج غروب ہو نے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا، اس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اس گھاٹی سے پانی پئیں کیو کہ وہ پیاسے تھے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ انہو
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1807