Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
9. بَابُ تَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ:
باب: ایک ایسا فتنہ اٹھے گا جس سے بیٹھنے والا کھڑے رہنے والے سے بہتر ہو گا۔
حدیث نمبر: 7081
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح قَالَ إِبْرَاهِيمُ،وَحَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفْهُ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْهَا مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَعُذْ بِهِ".
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم بن سعد نے کہا کہ مجھ سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن المسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایسے فتنے برپا ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا ان میں چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ ان کو بھی سمیٹ لیں گے۔ اس وقت جس کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یا بچاؤ کا مقام مل سکے وہ اس میں چلا جائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7081 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7081  
حدیث حاشیہ:
تاکہ ان فتنوں سے محفوظ رہے۔
مراد وہ فتنہ ہے جو مسلمانوں میں آپس میں پیدا ہوا اور یہ نہ معلوم ہو سکے کہ حق کس طرف ہے‘ ایسے وقت میں گوشہ نشینی بہتر ہے۔
بعضوں نے کہا اس شہر سے ہجرت کر جائے جہاں ایسا فتنہ واقع ہوا گروہ آفت میں مبتلا ہو جائے اور کوئی اس کو مارنے آئے تو صبر کرے۔
مارا جائے لیکن مسلمان پر ہاتھ نہ اٹھائے۔
بعضوں نے کہا اپنی جان ومال کو بچا سکتا ہے۔
جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ جب کوئی گروہ امام سے باغی ہو جائے تو امام کے ساتھ ہو کر اس سے لڑنا جائز ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا اور اکثر اکابر صحابہ نے ان کے ساتھ ہو کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے باغی گروہ کا مقابلہ کیا اور یہی حق ہے مگر بعض صحابہ جیسے سعد اور ابن عمر اور ابو بکر رضی اللہ عنہم دونوں فریق سے الگ ہو کر گھر میں بیٹھے رہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7081   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7250  
عثمان الشحام رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور فرقد سبخی مسلم بن ابی بکرہ کے ہاں گئے،وہ اپنی زمین میں تھے ہم ان کے ہاں اندر داخل ہوئے اور کہا:کیا آپ نے اپنےوالد کو فتنوں کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا؟انھوں نے کہا:ہاں،میں نے(اپنے والد) حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحدیث بیان کرتے ہوئے سنا،انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نے فرمایا:"عنقریب فتنے برپا ہوں گے سن لو!پھر(اور)فتنے برپا ہوں گے،ان(کےدوران) میں بیٹھا رہنے و الا چلے والے سے بہتر ہوگا،اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7250]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس فتنہ سے مراد وہ فتنہ ہے،
جس میں انسان پر حق واضح نہ ہو،
یا فتنہ میں حصہ لینے سے اس کا مزید بڑھکنا لازم آتا ہو،
فائدہ کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے،
لیکن اگر حق واضح ہو اور زیادتی کرنے والے فرد یا افراد کو روکنا ضروری ہو،
یا فتنہ فرو ہوسکتا ہوتو پھر حق والے گروہ کا ساتھ دے کر،
فتنہ کا دروازہ بند کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7250   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7082  
7082. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسے فتنے برپا ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ اگر کوئی ان کی طرف جھانک کر دیکھے گا تو وہ اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی محفوظ جگہ یا جائے پناہ پائے تو اسے اس میں پناہ لے لیتی چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7082]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں ذکر کردہ درجہ بندی فتنوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے متعلق بیان ہوئی ہے۔
مختلف احادیث کے پیش نظر شر میں کمی بیشی کا اعتبار حسب ذیل ترتیب سے ہوگا:
۔
بھاگ دوڑکرنے والا۔
۔
پیدل چلنے والا۔
۔
کھڑا ہونے والا۔
۔
بیٹھنے والا۔
۔
لیٹنے والا۔
۔
سونے والا۔
ان میں زیادہ منحوس اور ناپسندیدہ وہ ہوں گے جو ان فتنوں میں کوشش کرنے والے اور انھیں ہوا دینے والے ہوں گے، انھیں بھاگ دوڑ کرنے والوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پھر ان لوگوں کا درجہ ہوگا جو ان فتنوں کا سبب تو نہیں ہوں گے لیکن انھیں بھڑکانے والے ہوں گے۔
انھیں پیدل چلنے والے کہا گیا ہے۔
ان سے کم وہ ہوں گے جوان میں دلچسپی لینے والے ہوں گے، انھیں کھڑا ہونے والا کہا گیا ہے۔
پھر وہ لوگ جو تماشائی ہوں گے لیکن جنگ وقتال میں حصہ نہیں لیں گے، انھیں بیٹھنے والے کہا گیا ہے۔
پھر ان لوگوں کا درجہ ہے جو ان فتنوں کو اچھا خیال کرے گا لیکن تماشائی نہیں ہوگا، اسے لیٹنے والے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سب سے کم درجہ اس شخص کا ہے جو کچھ بھی نہ کرے اور انھیں بُرا بھی نہ کہے، اسے سونے والا کہا گیا ہے، یعنی جو شرارت میں کم ہوگا وہ ان میں بہتر اور جو زیادہ ہوگا وہ ان میں بدتر ہوگا۔
(فتح الباري: 39/13)

واضح رہےکہ اس سے وہ زمانہ مراد ہے جس میں ملک گیری اور کرسی کی ہوس پر اختلاف ہو اور حق وباطل کے درمیان امتیاز مشکل ہو جائے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:
صحابی نے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایسا کب ہوگا؟ فرمایا:
ایام ہرج میں، جب انسان اپنے پاس بیٹھنے والے پر بھی اعتماد نہیں کرے گا۔
(فتح الباري: 40/13 وسنن أبي داود، الفتن، حدیث: 4258)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7082