7082. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے فتنے برپا ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ اگر کوئی ان کی طرف جھانک کر دیکھے گا تو وہ اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی محفوظ جگہ یا جائے پناہ پائے تو اسے اس میں پناہ لے لیتی چاہیے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7082]
حدیث حاشیہ: 1۔
حدیث میں ذکر کردہ درجہ بندی فتنوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے متعلق بیان ہوئی ہے۔
مختلف احادیث کے پیش نظر شر میں کمی بیشی کا اعتبار حسب ذیل ترتیب سے ہوگا:
۔
بھاگ دوڑکرنے والا۔
۔
پیدل چلنے والا۔
۔
کھڑا ہونے والا۔
۔
بیٹھنے والا۔
۔
لیٹنے والا۔
۔
سونے والا۔
ان میں زیادہ منحوس اور ناپسندیدہ وہ ہوں گے جو ان فتنوں میں کوشش کرنے والے اور انھیں ہوا دینے والے ہوں گے، انھیں بھاگ دوڑ کرنے والوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پھر ان لوگوں کا درجہ ہوگا جو ان فتنوں کا سبب تو نہیں ہوں گے لیکن انھیں بھڑکانے والے ہوں گے۔
انھیں پیدل چلنے والے کہا گیا ہے۔
ان سے کم وہ ہوں گے جوان میں دلچسپی لینے والے ہوں گے، انھیں کھڑا ہونے والا کہا گیا ہے۔
پھر وہ لوگ جو تماشائی ہوں گے لیکن جنگ وقتال میں حصہ نہیں لیں گے، انھیں بیٹھنے والے کہا گیا ہے۔
پھر ان لوگوں کا درجہ ہے جو ان فتنوں کو اچھا خیال کرے گا لیکن تماشائی نہیں ہوگا، اسے لیٹنے والے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سب سے کم درجہ اس شخص کا ہے جو کچھ بھی نہ کرے اور انھیں بُرا بھی نہ کہے، اسے سونے والا کہا گیا ہے، یعنی جو شرارت میں کم ہوگا وہ ان میں بہتر اور جو زیادہ ہوگا وہ ان میں بدتر ہوگا۔
(فتح الباري: 39/13) 2۔
واضح رہےکہ اس سے وہ زمانہ مراد ہے جس میں ملک گیری اور کرسی کی ہوس پر اختلاف ہو اور حق وباطل کے درمیان امتیاز مشکل ہو جائے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:
صحابی نے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایسا کب ہوگا؟ فرمایا:
”ایام ہرج میں، جب انسان اپنے پاس بیٹھنے والے پر بھی اعتماد نہیں کرے گا۔
“ (فتح الباري: 40/13 وسنن أبي داود، الفتن، حدیث: 4258)