Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
5. بَابُ ظُهُورِ الْفِتَنِ:
باب: فتنوں کے ظاہر ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 7061
حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ، وَيَنْقُصُ الْعَمَلُ، وَيُلْقَى الشُّحُّ، وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ، وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّمَ هُوَ؟، قَالَ: الْقَتْلُ الْقَتْلُ"، وَقَالَ شُعَيْبٌ، وَيُونُسُ، وَاللَّيْثُ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عیاش بن الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالاعلیٰ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سوید بن مسیب نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ قریب ہوتا جائے گا اور عمل کم ہوتا جائے گا اور لالچ دلوں میں ڈال دیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہونے لگیں گے اور «هرج» کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ «هرج» کیا چیز ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قتل! قتل!۔ اور یونس اور لیث اور زہری کے بھتیجے نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے حمید نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7061 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7061  
حدیث حاشیہ:
یعنی لوگ عیش وعشرت اور غفلت میں پڑ جائیں گے‘ ان کو ایک سال ایسا گزرے گا جیسے ایک ماہ۔
ایک ماہ ایسے جیسے ایک ہفتہ۔
ایک ہفتہ ایسے جیسے ایک دن یا یہ مراد ہے کہ دن رات برابر ہو جائیں گے یا دن چھوٹے ہو جائیں گے گو یا یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہے۔
یا شر اور فساد نزدیک آ جائے گا کہ کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا یا یہ دولت اور حکومتیں جلد جلد بدلنے اور مٹنے لگیں گی یا عمر میں چھوٹی ہو جائیں گے یا زمانہ میں سے برکت جاتی رہے گی جو کام اگلے لوگ ایک ماہ میں کرتے تھے وہ ایک سال میں بھی پورا نہ ہوگا۔
شعیب کی روایت کو امام بخاری نے کتاب الادب میں اور یونس کی روایت کو امام مسلم نے صحیح میں اور لیث کی روایت کو طبرانی نے معجم اوسط میں وصل کیا۔
مطلب یہ ہے کہ ان چاروں نے عمر کا خلاف کیا۔
انہوں نے زہری کا شیخ اس حدیث میں حمید کو بیان کیا اور امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں طریقوں کو صحیح سمجھا جب تو ایک طریق یہاں بیان کیا اور ایک کتاب الادب میں کیونکہ احتمال ہے زہری نے اس حدیث کو سعید بن مسیب اور حمید دونوں سے سنا ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7061   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 1  
´علم کا قبض کر لیا جانا، فتنوں کا ظہور`
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم قبض کر لیا جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گئے اور ہرج بہت ہو جائے گا . . . [مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 1]
فوائد:
مذکورہ حدیث میں قیامت کی چند نشانیوں کا تذکرہ ہے۔
➊۔۔۔ علم قبض کر لیا جائے گا جیسا کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ علماء کے ختم ہونے سے علم ختم ہو جائے گا۔ دیکھئے: [حديث: 318]
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ لوگوں سے چھین کر علم کو قبض نہیں کرتا، بلکہ علماء کو فوت کر کے علم کو اٹھاتا ہے حتیٰ کہ (قریب قیامت) کوئی بھی عالم نہیں بچے گا۔ یہاں تک کہ لوگ جہلاء کو علماء سمجھیں گے جو بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ وہ خود گمراہ ہوں گے۔ اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ [مسلم، كتاب العلم، رقم؛6796]
➋۔۔۔ فتنے ظاہر ہوں گے، فتنے سے مراد ہر ایک آزمائش ہے۔
دینی ہو یا دنیاوی، بعض اوقات بیوی، بچے بھی فتنہ بن جاتے ہیں۔
اور اللہ ذوالجلال نے ان کے فتنے سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ» [64-التغابن: 15]
بلاشبہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہے۔
کبھی فتنہ عذاب کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«ذوقوا فتنتكم۔۔۔»
اس آیت مبارکہ میں فتنے سے مراد گناہ ہے جس کی سزا عام ہوتی ہے۔ مثلاً بری بات دیکھ کر خاموش رہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی، پھوٹ و نا اتفاقی، بدعت کا پھیلنا اور جہاد میں سستی وغیرہ۔
معلوم ہوا علامات قیامت میں سے قتل کی کثرت بھی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے، یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی۔ جب تک لوگوں پر یہ دن نہ آ جائے کہ قاتل کو پتہ نہ ہو کہ اس نے کیوں قتل کیا ہے؟ اور مقتول کو بھی پتہ نہ ہو کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ہے؟ [مسلم، رقم؛ 2908]
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4047  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جائے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے «هرج» کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: قتل، قتل، قتل۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4047]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مال کی کثرت امن وسکون کا باعث نہیں جب کہ ایمان وتقوی نہ ہو۔

(2)
فتنوں سے مراد مختلف قسم کے تعصبات بھی ہوسکتے ہیں جو قتل وغارت کا باعث بنتے ہیں اور ایسی چیزیں بھی جو ایمان کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
خصوصاً جب کہ لوگ دین کے علم سے بھی محروم ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4047   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1134  
1134- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب قیامت قائم ہوگی، تو کوئی شخص اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا، اور کوئی شخص اپنا حوض ٹھیک کررہا ہوگا۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1134]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب قیامت قائم ہوگی تو لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت اچانک آئے گی اور لوگوں کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1132   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1135  
1135- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دو بڑے گروہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے اور ان دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1135]
فائدہ:
اس حدیث میں دو گروہوں سے مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا گروہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ تھا، اور دونوں کا دعویٰ حق کی تلاش تھی، اور دونوں گروہوں میں بہت زیادہ قتل و غارت ہوئی۔
اللہ تعالیٰ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راضی ہیں، ان کے آپس کے اجتہادی معاملات پر کسی مسلمان کو تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بعض لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان فیصلہ کرنے بیٹھے اور خود گمراہ ہو گئے، ان کا تفصیلی محاکمہ حافظ صلاح الدین یوسف ﷫ نے اپنی کتاب خلافت وملوکیت کا تاریخی وتحقیقی جائزہ میں لیا ہے، اور میرے استاذ محترم شیخ ارشاد الحق اثری ﷾ اپنی کتاب مشاجرات صحابہ میں تمام محدثین کا موقف تفصیل سے لکھ دیا ہے، بس اس میں نجات ہے، ان دو کتب کا مطالعہ از حد ضروری ہے تا کہ صحيح منہج پر قائم رہا جا سکے۔

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1213  
1213- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جب قیامت قائم ہوگی اس وقت دو افراد کسی کپڑے کا سودا کررہے ہوں گے، نہ تو وہ سودا مکمل کرسکیں گے اور نہ ہی اسے لپیٹ سکیں گے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1213]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قیامت اچا نک آئے گی، اور لوگوں کے تصور میں بھی نہیں ہو گا حتیٰ کہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے۔
اس حدیث سے ایک بہت بڑی حقیقت واضح ہوتی ہے جس سے انسان غافل ہے، انسان کو ہمیشہ موت اور قیامت کو یاد رکھنا چاہیے، اپنے کاروبار میں مصروف ہو کر اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہونا چاہیے، یہ مال و دولت جس کی خاطر انسان اپنی آخرت تباہ کر بیٹھتا ہے، جب موت یا قیامت آئے گی یہ مال یہاں کا یہاں ہی رہ جائے گا، اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان کی حالت میں موت عطا فرمائے (آمین) اور قیامت کی ہولناکیوں سے بچائے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1211   

حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الشح:
حرص،
لالچ،
هرج:
عربی زبان میں اختلاط،
دنگا فساد کو کہتے ہیں،
جس کا نتیجہ کشت و خون نکلتا ہے اور حبشی زبان میں قتل و خون کو کہتے ہیں۔
يتقارب الزمان:
اس کے مختلف معانی اور مطالب بیان کئے گئے۔

حدیث میں بیان کردہ امور کا ظہور اور کثرت،
قیامت کے قریب ہو گی،
کیونکہ یہ علامات قیامت میں سے ہیں۔

لوگوں کے احوال و اخلاق اور عادات و کردار ملتے جلتے ہوں گے،
دین سے دور ہو چکے ہوں گے۔

جہالت اور لاعلمی میں ملتے جلتے ہوں گے،
علم میں تو مراتب مختلف ہوتے ہیں،
اس لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والے نہیں رہیں گے اور فسق و فجور کا غلبہ ہو گا۔

زمانہ یعنی وقت میں سے برکت اٹھ جائے گی،
اس لیے وہ بڑی تیزی اور برق رفتاری سے گزرے گا،
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جامع ترمذی میں روایت ہے،
سال،
مہینہ کے برابر ہو گا اور ماہ،
ہفتہ کے برابر ہو گا،
ہفتہ،
ایک دن کے برابر ہو گا،
دن،
ایک گھڑی کی طرح ہو گا اور ایک گھڑی،
لکڑی جلنے کے بقدر،
قاضی عیاض رحمہ اللہ کے نزدیک یہ بے برکتی کی وجہ سے ہے اور امام خطابی کے نزدیک عیش و عشرت کی فراوانی کی بنا پر۔

امام بیضاوی کے نزدیک حکومتیں جلد،
جلد گرنے لگیں گی اور لوگوں کی عمریں کم ہوں گی۔

اور بقول امام ابن ابی جمرہ،
قوت کارکردگی کم ہو جائے گی،
لوگ پہلوں کی طرح زیادہ سے زیادہ کام نہیں کر سکیں گے،
لیکن علت اور سبب کا پتہ نہیں چل سکے گا۔
ممکن ہے یہ ضعف ایمان اور شریعت کی مخالفت کا نتیجہ ہو۔
تظهر الفتن:
قلت علم اور فسق و فجور کی کثرت کی بنا پر دنگا اور فساد عام ہو گا اور فتنے بڑھ جائیں گے اور يلقي الشح،
حقوق ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہو گا اور قبضہ گروپ عام ہوں گے،
جو دوسروں کے مال و دولت اور اشیاء پر قبضہ کرنا چاہیں گے۔

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7257  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک قتل و غارت عام نہیں ہوتا۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا ہرج سے کیا مراد ہے؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا:"قتل، قتل "یعنی قتل کا عام ہونا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7257]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آج کل قتل و غارت عام ہو رہی ہے اور قتل کی سنگینی دن بدن کم ہورہی ہے،
اس کو کوئی بڑا جرم تصور نہیں کیا جاتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7257   


  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1412  
1412. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی۔جب تک تمھارے پاس مال کی اس قدر فروانی نہ ہوجائے کہ وہ بہنے لگے یہاں تک کہ مالدار کو یہ چیز پریشان کردے گی کہ اس کے صدقے کو کون قبول کرے؟ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ایک آدمی دوسرے کو مال پیش کرے گاتو وہ جواب دے گا:مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1412]
حدیث حاشیہ:
قیامت کے قریب جب زمین اپنے خزانے اگل دے گی، تب یہ حالت پیش آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1412   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6037  
6037. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وقت بڑی تیزی سے گزرے گا، عمل کم ہوتے جائیں گے دلوں میں بخیلی سما جائے گی اور ہرج بہت زیادہ ہوجائے گا۔ لوگوں نے پوچھا: ہرج کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: خونریزی اور قتل غارت۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6037]
حدیث حاشیہ:
مراد یہ کہ ایک حکومت دوسری حکومت پر چڑھے گی، لڑائیوں کا میدان گرم ہوگا اور لوگ دنیاوی دھندوں میں پھنس کر قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنا چھوڑ دیں گے۔
ہر شخص کو دولت جوڑنے کا خیال ہوگا اور بس۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6037   


  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1036  
1036. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی حتی کہ علم اٹھا لیا جائے گا، زلزلے بکثرت آئیں گے، وقت کم ہوتا جائے گا، فتنوں کا ظہور ہو گا اور قتل و غارت عام ہو گی، یہاں تک کہ تمہارے ہاں مال و دولت کی بہتات ہو گی، یعنی وہ عام ہو جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1036]
حدیث حاشیہ:
(1)
زلازل کا وقوع کبھی شدت ہوا اور کثرت بارش کے موقع پر ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے استسقاء کے عنوان کے تحت انہیں بیان کیا ہے۔
زلزلوں کا کثرت سے آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اس لیے تضرع اور انکسار کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔
زلزلے کے وقت کوئی خاص دعا یا طریقۂ نماز احادیث میں نہیں ہے۔
(2)
اس حدیث میں ہے کہ وقت کم ہوتا جائے گا۔
اس کے متعلق شارحین نے مختلف تشریحات بیان کی ہیں:
٭ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کہ حقیقت کے اعتبار سے دن رات چھوٹے ہو جائیں گے۔
٭ ان کی برکت ختم ہو جائے گی۔
دن رات ایسے گزریں گے کہ کوئی پتہ نہیں چلے گا۔
٭ لذات و خواہشات کا اس قدر غلبہ ہو گا کہ رات دن کا احساس ختم ہو جائے گا۔
٭ کثرت مصائب کی وجہ سے حواس معطل ہو جائیں گے، پھر پتہ نہیں چلے گا کہ رات کب آئی اور دن کب ختم ہوا۔
٭ دور حاضر میں اس تقارب کی صورت یہ ہے کہ شہروں اور ملکوں کی مسافت تیز رفتار گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی وجہ سے بہت قریب ہو چکی ہے، پھر الیکٹرانک میڈیا، یعنی انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے سے تمام روئے زمین کے لوگ گویا ایک مکان میں جمع ہیں جس سے جب چاہیں رابطہ کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آئندہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جس کا آج ہمیں شعور نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨﴾ )
اور وہ کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جنہیں (آج)
تم نہیں جانتے۔
(النحل8: 16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1036   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1412  
1412. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی۔جب تک تمھارے پاس مال کی اس قدر فروانی نہ ہوجائے کہ وہ بہنے لگے یہاں تک کہ مالدار کو یہ چیز پریشان کردے گی کہ اس کے صدقے کو کون قبول کرے؟ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ایک آدمی دوسرے کو مال پیش کرے گاتو وہ جواب دے گا:مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1412]
حدیث حاشیہ:
(1)
قیامت کے قریب زمین کی تمام دولت باہر نکل آئے گی اور لوگ بہت کم مقدار میں ہوں گے، ایسے حالات میں کسی کو مال کی ضرورت نہیں ہو گی۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ کتاب الفتن میں بیان کیا ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، بکثرت زلزلے آئیں گے، وقت سکڑ جائے گا، فتنوں کا ظہور ہو گا، قتل و غارت عام ہو گی، مال و دولت کی فراوانی ہو گی حتی کہ وہ پانی کی طرح بہنے لگے گی، لوگ بڑے بڑے محلات تعمیر کریں گے، اس قدر پریشانی کا عالم ہو گا کہ آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش میں اس قبر میں دفن ہوتا۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7121)
ایسے حالات میں انسان کے استغنا کا وہ دور آئے گا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
مقصد یہ ہے کہ صدقہ و خیرات دینے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1412   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6037  
6037. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وقت بڑی تیزی سے گزرے گا، عمل کم ہوتے جائیں گے دلوں میں بخیلی سما جائے گی اور ہرج بہت زیادہ ہوجائے گا۔ لوگوں نے پوچھا: ہرج کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: خونریزی اور قتل غارت۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6037]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بخیلی اور کنجوسی کو قرب قیامت کی علامات قرار دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخل سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6370)
بخل کے ساتھ ساتھ اگر مال ودولت کی حرص ہو تو اسے شح کہا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مزید کی حرص (الشح)
سے ہرحال میں بچنے کی تلقین کی ہے کیونکہ سابقہ قوموں کی تباہی وبربادی میں اس قسم کی حرص ولالچ اور کنجوسی نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
(صحیح مسلم،البر والصلة،حدیث: 6576(2578)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بخیل آدمی اللہ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور اور جہنم کے قریب ہوتاہے'' (جامع الترمذ`، البروالصلة، حدیث: 1961)
آپ نے یہ بھی فرمایا:
بخل اور بد اخلاقی جیسی خصلتیں ایک مسلمان میں جمع نہیں ہوسکتیں۔
(جامع الترمذي، البروالصلة،حدیث: 1962)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6037