Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْفِتَنِ
کتاب: فتنوں کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ”میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے“۔
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آ کر مجھ سے ملو۔
حدیث نمبر: 7052
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُمْ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تم میرے بعد بعض کام ایسے دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سلسلے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں ان کا حق ادا کرو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7052 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7052  
حدیث حاشیہ:
یعنی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ان کو انصاف اور حق رسانے کی توفیق دے۔
جیسے ثوری کی روایت میں ہے یا اللہ ان کے بدل تم پر دوسرے حاکموں جو عادل اور منصف ہوں مقرر کرے۔
مسلم اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ یا رسول اللہ! ہم ان سے لڑیں نہیں۔
آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔
معلوم ہوا کہ جب مسلمان حاکم نماز پڑھنا بھی چھوڑ دے تو پھر اس سے لڑنا اور اس کا خلاف کرنا درست ہوگیا۔
بے نمازی حاکم کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔
اس پر تمام اہل حدیث کا اتفاق ہے۔
حافظ نے کہا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والوں کی طرح مرے گا یعنی جیسے جاہلیت والوں کا کوئی امام نہیں ہوتا۔
اسی طرح اس کا بھی نہ ہوگا۔
دوسری روایت میں یوں ہے جو شخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوگیا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال ڈالی۔
ابن بطال نے کہا اس حدیث سے یہ نکلا حاکم گو ظالم یا فاسق ہو اس سے بغاوت کرنا درست نہیں البتہ اگر صریح کفر اختیار کرے تب اس کی اطاعت جائز نہیں بلکہ جس کو قدرت ہو اس کو اس پر جہاد کرنا واجب ہے۔
آج کل کے بعض ائمہ مساجد لوگوں سے اپنی امامت کی بیعت لے کر بیعت نہ کرنے والوں کو جاہلیت کی موت کا فتویٰ سناتے ہیں اور لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں۔
یہ سب فریب خوردہ ہیں۔
یہاں مراد خلیفہ اسلام ہے، جو صحیح معنوں میں اسلامی طور پر صاحب اقتدار ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7052   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7052  
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو حقوق کے معاملے میں اقرباء پروری کریں گے۔
اور انھیں دوسروں پر ترجیح دیں گے اور ان کے حقوق پامال کریں گے۔
اور امور دین کے متعلق ان کا یہ حال ہو گا کہ وہ ایسے کام کریں گے جنھیں دیندار طبقہ پسند نہیں کرے گا۔
ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ ہم لوگ شرعی واجبات زکاۃ کی ادائیگی اور جہاد کے وقت ان کے ساتھ شمولیت کریں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں اور جہاں تک اپنے حقوق کا تعلق ہے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انھیں عدل و انصاف کی توفیق دے۔
بہر حال حکومتی سطح پر مالی حقوق کے متعلق یہ بہت بڑا فتنہ ہے جس میں آ ج ہم سب مبتلا ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم کا معاملہ کرے اور ہمیں صبر کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7052   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2190  
´ترجیح دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد عنقریب (غلط) ترجیح اور ایسے امور دیکھو گے جنہیں تم برا جانو گے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے وقت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم حکام کا حق ادا کرنا (ان کی اطاعت کرنا) اور اللہ سے اپنا حق مانگو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2190]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی حکام اگر ایسے لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیں جوقابل ترجیح نہیں ہیں تو تم صبر سے کام لیتے ہوئے ان کی اطاعت کرو اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو،
کیوں کہ اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2190   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4775  
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی پانچ سندوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ میرے بعد امراء اپنے آپ کو ترجیح دیں گے اور منکر و ناپسندیدہ باتوں کا ظہور ہو گا۔ صحابہ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! ہم میں سے جو ان حالات سے دوچار ہو، آپ اس کو کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: تم اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور اپنے حقوق کی درخواست اللہ سے کرنا، یعنی اللہ سے دعا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4775]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں بھی آپﷺ نے رعایا کو اپنے فرائض ادا کرنے کی تلقین کی ہے،
اگر وہ حکمران ان کے مفادات بھی خود لوٹ رہے ہوں تو ان کے حق میں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو رعایا کے حقوق ادا کرنے کی ہمت دے اور رعایا کو ان کے شروفساد سے بچائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4775   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3603  
3603. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: عنقریب دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی اور ایسے امور ہوں گے جنھیں تم ناپسند کروگے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ایسے حالات میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟آپ نے فرمایا: جو فرائض تمہارے ذمے ہیں تم انھیں پوری ذمہ داری سے ادا کرتے رہو اور جو تمہارا حق ہے وہ اللہ سے مانگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3603]
حدیث حاشیہ:

(أثرة)
سے مراد اموال مشترکہ میں کسی ایک کوترجیح دینا ہے اور حق سے مراد حکمران وقت کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری ہے اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرنا ہے۔

یہ حدیث بھی نبوت کی زبردست دلیل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مستقبل میں اس طرح ہو گا کہ تمھارے حقوق پامال ہوں گے اور دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔
چنانچہ آپ کی پیش گوئی کے مطابق ایسا ہوا۔
ایسے دگرگوں حالات میں شریعت کا حکم ہے کہ امراء و سلاطین سے لڑائی نہ کی جائے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ایسی مدد فرمائے گا جس سے پامالی حقوق کی تلافی ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3603