صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
56. بَابُ إِمَامَةِ الْمَفْتُونِ وَالْمُبْتَدِعِ:
باب: باغی اور بدعتی کی امامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 695
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ لَنَا: مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ، وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى، وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ، فَقَالَ:" الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ، فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ، وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ"، وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: لَا نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا.
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمٰن سے نقل کیا۔ انہوں نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے کہ وہ خود عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار نہ ہو جائیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو اور محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 695 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 695
حدیث حاشیہ:
مفتون کا ترجمہ باغی کیا ہے جو سچے برحق امام کے حکم سے پھر جائے۔
اور بدعتی سے عام بدعتی مراد ہے۔
خواہ اس کی بدعت اعتقادی ہو جیسے شیعہ، خوارج، مرجیہ، معتزلہ وغیرہ کی، خواہ عملی ہو جیسے سہرا باندھنے والا، تیجا، دسواں کرنے والا، تعزیہ یا علم اٹھانے والے، قبروں پر چراغاں کرنے والے، میلاد یا غنا یا مرثیہ کی مجلس کرنے والے کی، بشرطیکہ ان کی بدعت کفر اور شرک کی حد تک نہ پہنچے۔
اگر کفر یا شرک کے درجے پر پہنچ جائے تو ان کے پیچھے نماز درست نہیں۔
تسہیل میں ہے کہ سنت کہتے ہیں حدیث کو اور جماعت سے مراد صحابہ اور تابعین ہیں جو لوگ حدیث شریف پر چلتے ہیں اور اعتقاد اور عمل میں صحابہ اور تابعین کے طریق پر ہیں وہی اہل سنت والجماعت ہیں باقی سب بدعتی ہیں۔
(مولانا وحید الزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 695
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:695
حدیث حاشیہ:
(1)
جب حضرت عثمان ؓ محصور تھے تو ان کی عدم موجودگی میں حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف، حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم نے کچھ نمازیں پڑھائیں۔
حضرت علی ؓ نے عیدالاضحیٰ پڑھانے کا فریضہ سرانجام دیا، لیکن امام فتنہ سے مراد کنانہ بن بشر ہے۔
اگرچہ بعض حضرات نے عبدالرحمٰن بن عدیس بھی لکھا ہے جو مصری باغیوں کا سرغنہ تھا لیکن یہ صحیح نہیں۔
امام بخاری ؓ کے نزدیک فتنہ پرور کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے، کیونکہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے امام فتنہ کے پیچھے نماز ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں محاصرین کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کا موقف تھا کہ جو بھی تمھیں نماز کی دعوت دے تم اس پر لبیک کہو۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنے کے زمانے میں خصوصیت کے ساتھ نماز باجماعت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جماعت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔
اور تعطیل جماعت سے بہتر ہے کہ کسی ناپسندیدہ انسان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے۔
(فتح الباري: 245/2)
حضرت امام مالک ؒ زمانۂ فتنہ میں نمازوں کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے تھے اور ایسے حالات میں آپ تمام نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لینے کے قائل تھے۔
حضرت امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس کا جواز ثابت کیا ہے اور جمہور کی تائید فرمائی ہے۔
(2)
مخنث دوطرح کے ہوتے ہیں:
٭پیدائشی:
جن میں عورتوں جیسی ناز و ادائیں ہوں۔
اس صورت میں کوئی ملامت نہیں۔
٭بناوٹی:
جوجان بوجھ کر تکلف کے ساتھ عورتوں جیسی حرکات کرتے ہیں۔
یہ لوگ قابل ملامت ہیں۔
بوقت ضرورت ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نماز نہ پڑھنے سے فتنے کا اندیشہ ہو۔
عام اختیاری حالات میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
(فتح الباري: 246/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 695