صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
55. بَابُ إِذَا لَمْ يُتِمَّ الإِمَامُ وَأَتَمَّ مَنْ خَلْفَهُ:
باب: اگر امام اپنی نماز کو پورا نہ کرے اور مقتدی پورا کریں۔
حدیث نمبر: 694
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُصَلُّونَ لَكُمْ، فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ، وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ".
ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسن بن موسیٰ اشیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں۔ پس اگر امام نے ٹھیک نماز پڑھائی تو اس کا ثواب تمہیں ملے گا اور اگر غلطی کی تو بھی (تمہاری نماز کا) ثواب تم کو ملے گا اور غلطی کا وبال ان پر رہے گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 694 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 694
حدیث حاشیہ:
یعنی امام کی نمازمیں نقص رہ جانے سے مقتدیوں کی نماز میں کوئی خلل نہ ہوگا۔
جب انہوں نے تمام شرائط اور ارکان کو پورا کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 694
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 694
فوائد و مسائل:
اگر امام بےوضو یا جنبی ہو یا اس کے کپڑوں پر نجاست لگی ہو اور اس طرح وہ نماز پڑھا دے تو مقتدیوں کی نماز بالکل صحیح اور بالکل درست ہے، البتہ امام کے لیے نماز دوہرانا ضروری ہے، جیسا کہ:
دلیل نمبر ➊
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
«يصلّون لكم، فان ا صابوا فلكم ولهم، وان أخطؤوافلكم وعليهم»
وہ (حکمران) تمہیں نمازیں پڑھائیں گے، اگر وہ درست پڑھیں گے تو تمہارے لیے بھی ذریعہ نجات اور ان کے لئے بھی، لیکن اگر وہ غلطی کریں تو تمہارے لئے ذریعہ نجات اور ان کے خلاف وبال بن جائے گی۔ [مسند الامام احمد: 355/2، واللفظ له، صحيح بخاري: 96/1، ح: 694]
◈ حافظ بغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فيه دليل على أنه اذا صلى بقوم، و كان جنبا او محدثا ان صلاة القوم صحيحة، وعلي الامام اعادة، سواءكانالامام عالما بحدثه متعمّد الامامة أوكان جاهلا۔۔۔»
”اس حدیث میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام جب لوگوں کو نماز پڑھائے اور وہ جنبی یا بےوضو ہو تو لوگوں کی نماز صحیح ہو گی، امام پر نماز دہرانا ضروری ہو گا، خواہ اسے اپنے بےوضو ہونے کا علم ہو اور جانتے بوجھتے امامت کروا رہا ہو یا وہ لاعلم ہو۔“ [شرح السنة: 405/3]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سياتي اقوام او يكون اقوام يصلّون الصلاة، فان اتموا فلكم ولهم، وان نقصوا فعليهم ولكم۔»
”عنقریب کچھ لوگ (حکمران) آئیں گے، وہ نمازیں پڑھائیں گے، اگر وہ پوری نماز ادا کریں تو تمہارے لیے بھی کافی اور ان کے لیے بھی، لیکن اگر وہ کوتاہی کریں گے تو ان کے لیے وبال اور تمہارے لیے کافی ہوں گی۔“ [صحيح ابن حبان: 2228، وسنده حسن]
↰ اس کا راوی عبداللہ بن علی الافریقی «حسن الحديث» ہے۔
◈ عباس لدوری کہتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سے پوچھا: کیا یہ ثقہ ہے تو آپ نے فرمایا:
«نعم! ليس به بأس۔»
”ہاں! اس میں کوئی خرابی نہیں۔“ [تاريخ يحيي بن معين: 5331]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«من ثقات اهل لكوفة۔»
”یہ ثقہ کوفیوں میں سے ہے۔“ [صحيح ابن حبان، تحت حديث 22228]
◈ امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«ليس بالمتين، فى حديثه انكار، هوليّن۔»
”یہ مضبوط راوی نہیں، اس کی حدیث میں نکارت ہے، یہ کمزور ہے۔“ [الجرح و التعديل: 116/5]
↰ یہ قول جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔
◈ امام ابن المنذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«هذا الحديث يدّل على اغفال من زعم انّ صلاة الامام اذا فسدت فسدت صلاة من خلفه۔»
”یہ حدیث بتاتی ہے کہ وہ شخص غلطی پر ہے، جو یہ دعوی کرتا ہے کہ جب امام کی نماز فاسد ہو جائے تو اس کے مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی۔“ [الاوسط فى السنن والاجماع و الاختاف لابن المنذر: 164/4]
ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث/صفحہ نمبر: 29
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:694
حدیث حاشیہ:
بعض حضرات نے ٹھیک ٹھیک نماز پڑھانے سے بروقت نماز ادا کرنا مراد لیا ہے اور کوتاہی سے مراد ان کا وقت کراہت میں نماز ادا کرنا ہے۔
انھوں نے درج ذیل روایت کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”شاید تمھارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑے جو نماز کو وقت گزرنے کے بعد پڑھیں گے۔
ایسے حالات میں تم اپنے گھر میں بروقت نماز ادا کر لو اور پھر ان کے ساتھ بھی پڑھ لو۔
ان کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کو نفل شمار کرلو۔
“ (سنن النسائي، الإمامة، حدیث: 780)
لیکن ان کی نماز کو صرف وقتِ کراہت میں ادا کرنے پر منحصر کرنا صحیح نہیں، کیونکہ مذکورہ بالا روایت اس کی تردید کرتی ہے کہ امام کی کوتاہی سے مراد وقتِ کراہت میں کرنے کے علاوہ نماز میں کمی کوتاہی کرنا بھی ہے۔
امام احمد کی ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ اگر وہ نماز بروقت ادا کریں گے تو اس کے رکوع و سجدہ کو بھی پورا کریں گے تو اس کا ثواب تمھیں اور انھیں ہو گا۔
(مسند أحمد: 147/4)
اس روایت سے بھی پتا چلتا ہے کہ امام کی کوتاہی سے مراد صرف وقت کی کراہت ہی میں ادا کرنا نہیں بلکہ اس کے علاوہ نماز میں کوتاہی کرنا اور خشوع خضوع میں کمی کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
امام ابن منذر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ جب امام کی نماز فاسد ہے تو مقتدی حضرات کی نماز خود بخود فاسد ہوجائے گی۔
(فتح الباري: 243/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 694