مسند احمد
مسنَد المَكِّیِّینَ
0
178. حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 15771
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحٍ ، قَالَ: قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ :" مَا كُنْتُ فِي غَزَاةٍ أَيْسَرَ لِلظَّهْرِ وَالنَّفَقَةِ مِنِّي فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ أَتَجَهَّزُ غَدًا، ثُمَّ أَلْحَقُهُ , فَأَخَذْتُ فِي جَهَازِي، فَأَمْسَيْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: آخُذُ فِي جَهَازِي غَدًا وَالنَّاسُ قَرِيبٌ بَعْدُ، ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ , فَأَمْسَيْتُ وَلَمْ أَفْرُغْ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ أَخَذْتُ فِي جَهَازِي، فَأَمْسَيْتُ فَلَمْ أَفْرُغْ، فَقُلْتُ: أَيْهَاتَ، سَارَ النَّاسُ ثَلَاثًا، فَأَقَمْتُ , فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ النَّاسُ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ، فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ فِي غَزَاةٍ أَيْسَرَ لِلظَّهْرِ وَالنَّفَقَةِ مِنِّي فِي هَذِهِ الْغَزَاةِ , فَأَعْرَضَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ لَا يُكَلِّمُونَا، وَأُمِرَتْ نِسَاؤُنَا أَنْ يَتَحَوَّلْنَ عَنَّا. قَالَ: فَتَسَوَّرْتُ حَائِطًا ذَاتَ يَوْمٍ، فَإِذَا أَنَا بِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: أَيْ جَابِرُ، نَشَدْتُكَ بِاللَّهِ، هَلْ عَلِمْتَنِي غَشَشْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَوْمًا قَطُّ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي، فَجَعَلَ لَا يُكَلِّمُنِي. قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلًا عَلَى الثَّنِيَّةِ يَقُولُ: كَعْبًا كَعْبًا، حَتَّى دَنَا مِنِّي، فَقَالَ: بَشِّرُوا كَعْبًا".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے اس غزوے کے علاوہ کسی دوسرے غزوے میں اتنا مالدار نہیں تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو میں نے سوچا کہ کل سامان سفر درست کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گا چنانچہ میں نے تیاری شرع کر دی توشام ہو گئی لیکن میں فارغ نہیں ہو سکا حتی کہ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا میں کہنے لگا کہ ہائے افسوس لوگ تین دن کا سفر طے کر چکے ہیں یہ سوچ کر میں رک گیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے تو لوگ مختلف عذر بیان کرنے لگے کہ میں بھی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: کہ مجھ اس غزوے سے زیادہ کسی غزوے میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے آسانی حاصل نہ تھی اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعرض فرمالیا اور لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے بھی منع فرما دیا بیویوں کے متعلق حکم دیا گیا کہ وہ ہم سے دور رہیں ایک دن میں گھر کی دیوار پر چڑھا تو مجھے جابر رضی اللہ عنہ نظر آئے میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا اے جابر رضی اللہ عنہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں علم ہے کہ میں نے کسی دن اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیاہو لیکن وہ خاموش رہے اور مجھ سے کوئی بات نہیں کی ایک دن میں اسی حال میں تھا کہ میں نے ایک پہاڑی کی چوٹی سے کسی کو اپنانام لیتے ہوئے سنا یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے لئے خوش خبری ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2775، م: 2769 ، دون قوله: "فإذا أنا بجابر بن عبدالله......"، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمر بن كثير لم يدرك كعب بن مالك