صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
54. بَابُ إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى:
باب: غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 693
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالتیاح یزید بن حمید ضبعی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اپنے حاکم کی) سنو اور اطاعت کرو، خواہ ایک ایسا حبشی (غلام تم پر) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور کے برابر ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 693 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 693
حدیث حاشیہ:
اس سے باب کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ جب حبشی غلام کی جو حاکم ہو اطاعت کا حکم ہوا تو اس کی امامت بطریق اولیٰ صحیح ہو گی کیوں کہ اس زمانہ میں جو حاکم ہوتا وہی امامت بھی نماز میں کیا کرتا تھا۔
اس حدیث سے یہ دلیل بھی لی ہے کہ بادشاہ وقت سے گو وہ کیسا ہی ظالم بے وقوف ہو لڑنا اور فساد کرنا نادرست ہے بشرطیکہ وہ جائز خلیفہ یعنی قریش کی طرف سے بادشاہ بنایا گیا ہو۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ حبشی غلام کی خلافت درست ہے کیوں کہ خلافت سوائے قریشی کے اور کسی قوم کی درست نہیں ہے جیسے دوسری حدیث سے ثابت ہے (مولانا وحید الزماں مرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 693
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:693
حدیث حاشیہ:
روایت میں حبشی سے مراد حبشی غلام ہے جب کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري،الأحکام، حدیث: 7142)
اس حدیث کی باب سے یہ مناسبت ہے کہ جب ایسا غلام امیر اور والی بن جائے تو اس کی اطاعت ضروری ہے اور اسلام کا یہ طریقہ ہے کہ والی اور خلیفہ کو جماعت کےلیے آگے کیا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی اطاعت کے حکم میں اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم شامل ہے۔
(شرح الکرماني: 72/5)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایاتھا کہ اگر تمھارا حکمران حبشی غلام ہوجو کتاب اللہ کے ساتھ تمھاری قیادت کرے تم نے اس کی بات ماننی اور اس کی اطاعت کرنی ہے۔
اس روایت سے حدیث نبوی کی تاریخ اور اطاعت کی جہت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ حکم دیا اور کتاب اللہ کی قیادت کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 242/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 693
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7142
7142. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پرکسی ایسے حبشی کو حاکم اور سربراہ مقرر کردیا جائے جس۔کا سر منقیٰ کی طرح چھوٹا ہو،“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7142]
حدیث حاشیہ:
یعنی ادنیٰ حاکم کی بھی اطاعت ضروری ہے بشرطیکہ معصیت الٰہی کا حکم نہ دیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7142
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:696
696. حضرت انس ؓ سے رایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے فرمایا کہ امیر کا حکم سنو اور اس کی فرمانبرداری کرو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو جس کا سر انگور کی طرح ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:696]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اپنے عنوان کی دلیل اس لیے بنایا ہے کہ ایسی صفات کا حامل عام طور پر ایک عجمی حکمران ہوسکتا ہے جو نیا نیا مسلمان ہوا ہو جسے ابھی دین کے متعلق پوری معلومات نہ ہوں۔
اس قسم کے انسان کے لیے بدعات کا ارتکاب بعید نہیں۔
ایسے حکمران خود پسندی اور خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جب ایسے حکمران کی اطاعت ضروری ہے تو اس کی اقتدا بھی درست ہونی چاہیے۔
جب اس قسم کا حاکم قابل اطاعت ہے تو اس کی امامت میں نماز بھی درست ہوگی۔
(فتح الباري: 246/2) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث کے متعلق ابو ذر ؓ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ ربذہ مقام پر اس وقت پہنچے جب جماعت ہو رہی تھی اور ایک غلام امامت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا، اسے نماز کے دوران میں کہا گیا کہ یہ حضرت ابو ذر ؓ عنہ تشریف لاچکے ہیں، وہ پیچھے ہٹنے لگا تو آپ نے فرمایا:
مجھے میرے محبوب نے وصیت کی تھی کہ اپنے امیر کی بات سنوں اور اس کی اطاعت کروں اگرچہ کٹی ہوئی ناک والا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔
(فتح الباري: 242/2) (3)
واضح رہے کہ بدعت اگر کفرو شرک تک پہنچ جائے تو اس کا حکم شرک ہی کا ہے جس طرح مشرک کی اقتدا جائز نہیں، اسی طرح بدعت مکفرہ کا حامل انسان بھی امامت کے اہل نہیں۔
اگر وہ بدعت مکفرہ کا حامل نہیں تو بوقت ضرورت کبھی اس کی اقتدا میں نماز پڑھ لی جائے تو جائز ہوگا۔
اس کا حکم فاسق کا ہے اور اس کے پیچھے نماز صحیح ہے، البتہ بدعتی اور فتنہ پرور کو مستقل طور پر امام نہیں بنانا چاہیے۔
والله اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 696
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7142
7142. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پرکسی ایسے حبشی کو حاکم اور سربراہ مقرر کردیا جائے جس۔کا سر منقیٰ کی طرح چھوٹا ہو،“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7142]
حدیث حاشیہ:
1۔
ادنیٰ سے ادنیٰ امیر کی اطاعت بھی ضروری ہے بشرط یہ کہ وہ معصیت ونافرمانی کا حکم نہ دے۔
عرب لوگ نظام امارت نہیں جانتے تھے،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے امراء کی اطاعت اور فرمانبرداری کی رغبت دی ہے تاکہ وہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں اپنے امراء کے تابع رہیں اور افراتفری پھیلا کر اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ کریں۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشی کے سرکو خشک انگور سے تشبیہ دی ہے،اس سے مراد حقارت وکراہت میں مبالغہ ہے،یعنی اگرایسا شخص بھی مقرر کردیاجائے تو اس کی اطاعت بھی ضر وری ہے۔
اس سے مراد خلافت نہیں کیونکہ خلافت تو صرف قریش کا حق ہے بشرط یہ ک وہ دین کی سربلندی کا عزم کیے ہوئے ہوں اور حدود اللہ کو عملی طور پرنافذ کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7142