Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ
0
35. مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 15281
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ , عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْمُشْرِكِينَ لِيُقَاتِلَهُمْ , وَقَالَ لِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ: يَا جَابِرُ , لَا عَلَيْكَ أَنْ تَكُونَ فِي نَظَّارِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَتَّى تَعْلَمَ إِلَى مَا يَصِيرُ أَمْرُنَا , فَإِنِّي وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي أَتْرُكُ بَنَاتٍ لِي بَعْدِي , لَأَحْبَبْتُ أَنْ تُقْتَلَ بَيْنَ يَدَيَّ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي النَّظَّارِينَ , إِذْ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي وَخَالِي عَادِلَتَهُمَا عَلَى نَاضِحٍ , فَدَخَلَتْ بِهِمَا الْمَدِينَةَ لِتَدْفِنَهُمَا فِي مَقَابِرِنَا , إِذْ لَحِقَ رَجُلٌ يُنَادِي أَلَا إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَرْجِعُوا بِالْقَتْلَى , فَتَدْفِنُوهَا فِي مَصَارِعِهَا حَيْثُ قُتِلَتْ، فَرَجَعْنَا بِهِمَا فَدَفَنَّاهُمَا حَيْثُ قُتِلَا، فَبَيْنَمَا أَنَا فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ , إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , وَاللَّهِ لَقَدْ أَثَارَ أَبَاكَ عَمَلُ مُعَاوِيَةَ , فَبَدَا , فَخَرَجَ طَائِفَةٌ مِنْهُ، فَأَتَيْتُهُ , فَوَجَدْتُهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي دَفَنْتُهُ , لَمْ يَتَغَيَّرْ , إِلَّا مَا لَمْ يَدَعِ الْقَتْلُ , أَوْ الْقَتِيلُ , فَوَارَيْتُهُ. قَالَ: وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ دَيْنًا مِنَ التَّمْرِ , فَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي التَّقَاضِي , فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنَّ أَبِي أُصِيبَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا , وَتَرَكَ عَلَيَّ دَيْنًا مِنَ التَّمْرِ , وَاشْتَدَّ عَلَيَّ بَعْضُ غُرَمَائِهِ فِي التَّقَاضِي , فَأُحِبُّ أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ , لَعَلَّه أَنْ يُنَظِّرَنِي طَائِفَةً مِنْ تَمْرِهِ إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ، فَقَالَ:" نَعَمْ , آتِيكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَرِيبًا مِنْ وَسَطِ النَّهَارِ"، وَجَاءَ مَعَهُ حَوَارِيُّهُ , ثُمَّ اسْتَأْذَنَ فَدَخَلَ , وقَدْ قُلْتُ لِامْرَأَتِي: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنِي الْيَوْمَ وَسَطَ النَّهَارِ , فَلَا أَرَيَنَّكِ , وَلَا تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي بِشَيْءٍ , وَلَا تُكَلِّمِيهِ، فَدَخَلَ، فَفَرَشَتْ لَهُ فِرَاشًا وَوِسَادَةً , فَوَضَعَ رَأْسَهُ , فَنَامَ، قَالَ: وَقُلْتُ لِمَوْلًى لِيَ: اذْبَحْ هَذِهِ الْعَنَاقَ وَهِيَ دَاجِنٌ سَمِينَةٌ , وَالْوَحَا وَالْعَجَلَ , افْرُغْ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَسْتَيْقِظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنَا مَعَكَ. فَلَمْ نَزَلْ فِيهَا , حَتَّى فَرَغْنَا مِنْهَا , وَهُوَ نَائِمٌ , فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَيْقَظَ يَدْعُو بِالطَّهُورِ , وَإِنِّي أَخَافُ إِذَا فَرَغَ أَنْ يَقُومَ فَلَا يَفْرَغَنَّ مِنْ وُضُوئِهِ حَتَّى تَضَعَ الْعَنَاقَ بَيْنَ يَدَيْهِ , فَلَمَّا قَامَ , قَالَ:" يَا جَابِرُ , ائْتِنِي بِطَهُورٍ"، فَلَمْ يَفْرُغْ مِنْ طُهُورِهِ , حَتَّى وَضَعْتُ الْعَنَاقَ عِنْدَهُ , فَنَظَرَ إِلَيَّ , فَقَالَ:" كَأَنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ حُبَّنَا لِلَّحْمِ , ادْعُ لِي أَبَا بَكْرٍ"، قَالَ: ثُمَّ دَعَا حَوَارِيَّيْهِ اللَّذَيْنَ مَعَهُ , فَدَخَلُوا , فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَهُ، وَقَالَ:" بِسْمِ اللَّهِ , كُلُوا"، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا , وَفَضَلَ لَحْمٌ مِنْهَا كَثِيرٌ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنَّ مَجْلِسَ بَنِي سَلِمَةَ لَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ , وَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ أَعْيُنِهِمْ مَا يَقْرُبُهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ , مَخَافَةَ أَنْ يُؤْذُوهُ , فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ وَقَامَ أَصْحَابُهُ , فَخَرَجُوا بَيْنَ يَدَيْهِ , وَكَانَ يَقُولُ:" خَلُّوا ظَهْرِي لِلْمَلَائِكَةِ"، وَاتَّبَعْتُهُمْ حَتَّى بَلَغُوا أُسْكُفَّةَ الْبَابِ، قَالَ: وَأَخْرَجَتِ امْرَأَتِي صَدْرَهَا , وَكَانَتْ مُسْتَتِرَةً بِسَقِيفٍ فِي الْبَيْتِ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ، فَقَالَ:" صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ , وَعَلَى زَوْجِكِ"، ثُمَّ قَالَ:" ادْعُ لِي فُلَانًا" , لِغَرِيمِي الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيَّ فِي الطَّلَبِ، قَالَ: فَجَاءَ، فَقَالَ:" أَيْسِرْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , يَعْنِي إِلَى الْمَيْسَرَةِ طَائِفَةً مِنْ دَيْنِكَ الَّذِي عَلَى أَبِيهِ , إِلَى هَذَا الصِّرَامِ الْمُقْبِلِ"، قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، وَاعْتَلَّ , وَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ مَالُ يَتَامَى، فَقَالَ:" أَيْنَ جَابِرٌ؟"، فَقَالَ: أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" كِلْ لَهُ , فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَوْفَ يُوَفِّيهِ" فَنَظَرْتُ إِلَى السَّمَاءِ , فَإِذَا الشَّمْسُ قَدْ دَلَكَتْ، قَالَ:" الصَّلَاةَ يَا أَبَا بَكْرٍ"، فَانْدَفَعُوا إِلَى الْمَسْجِدِ , فَقُلْتُ: قَرِّبْ أَوْعِيَتَكَ، فَكِلْتُ لَهُ مِنَ الْعَجْوَةِ , فَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَفَضَلَ لَنَا مِنَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا , فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِهِ , كَأَنِّي شَرَارَةٌ , فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ صَلَّى , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَمْ تَرَ أَنِّي كِلْتُ لِغَرِيمِي تَمْرَهُ فَوَفَّاهُ اللَّهُ , وَفَضَلَ لَنَا مِنَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ:" أَيْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ؟"، فَجَاءَ يُهَرْوِلُ , فَقَالَ:" سَلْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَتَمْرِهِ"، فَقَالَ: مَا أَنَا بِسَائِلِهِ , قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَوْفَ يُوَفِّيهِ , إِذْ أَخْبَرْتَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَوْفَ يُوَفِّيهِ، فَكَرَّرَ عَلَيْهِ هَذِهِ الْكَلِمَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: مَا أَنَا بِسَائِلِهِ، وَكَانَ لَا يُرَاجِعُ بَعْدَ الْمَرَّةِ الثَّالِثَةِ , فَقَالَ: يَا جَابِرُ , مَا فَعَلَ غَرِيمُكَ وَتَمْرُكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: وَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَفَضَلَ لَنَا مِنَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، فَرَجَعَ إِلَى امْرَأَتِهِ , فَقَالَ: أَلَمْ أَكُنْ نَهَيْتُكِ أَنْ تُكَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَتْ: أَكُنْتَ تَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُورِدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي , ثُمَّ يَخْرُجُ وَلَا أَسْأَلُهُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ وَعَلَى زَوْجِي قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ؟!.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے قتال کے لئے مدینہ منورہ سے نکلے مجھ سے میرے والد صاحب عبداللہ نے کہہ دیا تھا کہ جابر رضی اللہ عنہ تم اس وقت تک نہ نکلنا جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ ہمارا انجام کیا ہوا واللہ اگر میں نے اپنے پیچھے بیٹیاں نہ چھوڑی ہو تیں تو میری خواہش ہو تی کہ تمہیں میرے سامنے شہادت نصیب ہو چنانچہ میں اپنے باغ میں ہی رہا کہ اچانک میری پھوپھی میرے والد اور میرے ماموں کو اونٹ پر لاد کر لے آئیں وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کر دیں اچانک ایک آدمی منادی کرتا ہوا آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنے مقتولین کو واپس لے جا کر اس جگہ دفن کر و جہاں وہ شہید ہوئے تھے چنانچہ ہم ان دونوں کو لے کر واپس لوٹے اور مقام شہادت میں انہیں دفن کر دیا۔ سیدنا امیر معاویہ کے دور خلافت میں ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے جابر رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ کے گورنروں نے آپ کے والد کی قبر کھودی ہے اور وہ اپنی قبر میں نظر آرہے ہیں میں وہاں پہنچا تو اسی حال میں پایا جس حال میں میں نے انہیں دفن کیا تھا ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی سوائے اس معمولی چیز کے جو قتل کی وجہ سے ہو ہی جاتی ہے پھر میں نے ان کی مکمل تدفین کی۔ میرے والد صاحب نے اپنے اوپر کھجوروں کا کچھ قرض بھی چھوڑا تھا قرض خواہوں نے اس کا تقاضا مجھ سے سختی سے کرنا شروع کر دیا مجبو رہو کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد صاحب فلاں موقع پر شہید ہو گئے اور مجھ پر کھجور کا قرض چھوڑ گئے قرض خواہوں نے اس کا تقاضا مجھ سے سختی کے ساتھ کرنا شروع کر دیا میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ کچھ تعاون کر یں کہ وہ مجھے ایک سال کی مہلت دیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا میں تمہارے پاس نصف النہار کے وقت ان شاء اللہ آؤں گا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے ساتھ آ گئے اور اجازت لے کر گھر میں داخل ہوئے میں نے اپنی بیوی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ نصف النہار کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے لیکن تم مجھے نظر نہ آنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچانا اور نہ ہی ان سے کوئی فرمائش کرنا بہرحال اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بستر بچھا دیا اور تکیہ رکھا جس پر سر رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ میں نے اپنے ایک غلام سے کہا کہ جلدی سے یہ بکری ذبح کر و اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہو نے سے پہلے اس سے فارغ ہو جاؤ میں بھی تمہارا ساتھ دیتا ہوں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہو نے سے پہلے ہی ہم اس سے فارغ ہو گئے میں نے اس سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیدار ہوں تو وضو کے لئے پانی منگوائیں گے جب وہ وضو سے فارغ ہوں توفورا ہی ان کے سامنے کھانا پیش کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نیند سے بیدار ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور ابھی وضو فرما کر فارغ بھی نہ ہو نے پائے تھے کہ کھانا سامنے رکھ دیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: شاید تمہیں بھی گوشت کی طرف ہماری رغبت کا اندازہ ہو گیا ہے ابوبکر کو بلاؤ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ آنے والے دیگر صحابہ کو بھی بلا لیا وہ آ گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے میں ہاتھ ڈال دیا اور فرمایا: بسم اللہ کھاؤ ان سب نے خوب سیراب ہو کر کھایا پھر بھی بہت سا گوشت بچ گیا واللہ بنوسلمہ کے لوگ بیٹھے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہے تھے یہ منظر ان کے لئے بڑا محبوب تھا لیکن وہ صرف اس بناء پر قریب نہ آتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ایذاء نہ پہنچ جائے۔ جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کھڑے ہو گئے صحابہ آگے آگے چل رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری پشت کو فرشتوں کے لئے چھوڑ دو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا جب وہ دروازے کے قریب پہنچے تو میری بیوی نے ایک ستون کی آڑ سے کہا یا رسول اللہ! میرے لئے اور میرے شوہر کے لئے دعا کر دیجیے اللہ آپ پر درود بھیجے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تم اور تمہارے شوہر پر اپنی رحمتیں نازل کر ے پھر میرے قرض خواہ کا نام لے کر فرمایا: اسے بلا کر لاؤ یہ وہی شخص تھا جو بڑی سختی سے قرض کا مطالبہ کر رہا تھا وہ آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جابر رضی اللہ عنہ پر اگلے سال تک کے لئے تھوڑی دیر آسانی کر دو اس نے کہا میں تو ایسا نہیں کر وں گا وہ مزید بدک گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو یتمیوں کا مال ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہاں ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماپ کر دینا شروع کرو، اللہ تعالیٰ پورا کروا دے گا، میں نے آسمان پر نگاہ ڈالی تو سورج ڈھل چکا تھا، میں نے عرض کیا: اے ابوبکر! نماز کا وقت ہو گیا ہے، چنانچہ وہ لوگ مسجد چلے گئے اور میں نے قرض خواہ سے کہا کہ اپنا بر تن لاؤ، اور میں نے اسے ماپ کر عجوہ کھجور دے دی، اللہ نے اسے پورا کروا دیا اور اتنی مقدار بچ بھی گئی، میں دوڑتا ہوا مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیکھیے تو سہی کہ میں نے اپنے قرض خواہ کو کھجور ماپ کر دی تو اللہ نے اسے پورا کروا دیا اور وہ اتنی مقدار میں بچ بھی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر بن خطاب کہاں ہیں؟ وہ دوڑتے ہوئے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جابر سے اس کے قرض خواہ اور کھجوروں کے متعلق پوچھو، انہوں نے عرض کیا کہ میں نہیں پوچھوں گا، اس لئے کہ جب آپ نے یہ فرما دیا تھا کہ اللہ پورا کر دے گا تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اللہ پورا کر دے گا، تین مرتبہ اسی طرح تکرار ہوا، تیسری مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو رد کرنا اچھا نہ سمجھا اور پوچھ لیا کہ جابر! تمہارے قرض خواہ اور کھجور کا کیا معاملہ بنا؟ میں نے انہیں بتایا کہ اللہ نے پورا کر دیا بلکہ اتنی کھجور بچ بھی گئی، پھر میں نے گھر آ کر اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات نہ کرنا؟ اس نے کہا: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے گھر لے کر آئے اور وہ جانے لگیں تو میں ان سے اپنے لیے اور اپنے شوہر کے لئے دعاء کی درخواست بھی نہ کروں گی؟

حكم دارالسلام: إسناده صحيح