Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
12. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنِ احْتِيَالِ الْمَرْأَةِ مَعَ الزَّوْجِ وَالضَّرَائِرِ:
باب: عورت کا اپنے شوہر یا سوکنوں کے ساتھ حیلہ کرنے کی ممانعت۔
وَمَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ.
‏‏‏‏ اور جو اس باب میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 6972
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ أَجَازَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ؟، فَقَالَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، قُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ؟، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قُلْتُ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِرَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟، قَالَ: لَا: قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟، قَالَ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، قُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ، قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَدَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي بِهِ، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَتْ: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ (یعنی میٹھی چیز) اور شہد پسند کرتے تھے اور عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ازواج سے (ان میں سے کسی کے حجرہ میں جانے کے لیے) اجازت لیتے تھے اور ان کے پاس جاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے اور ان کے یہاں اس سے زیادہ دیر تک ٹھہرے رہے جتنی دیر تک ٹھہرنے کا آپ کا معمول تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی قوم کی ایک خاتون نے شہد کی ایک کپی انہیں ہدیہ کی تھی اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شربت پلایا تھا۔ میں نے اس پر کہا کہ اب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک حیلہ کروں گی چنانچہ میں نے اس کا ذکر سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا اور کہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے یہاں آئیں تو آپ کے قریب بھی آئیں گے اس وقت تم آپ سے کہنا یا رسول اللہ! شاید آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ اس پر آپ جواب دیں گے کہ نہیں۔ تم کہنا کہ پھر یہ بو کس چیز کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناگوار تھی کہ آپ کے جسم کے کسی حصہ سے بو آئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب یہ دیں گے کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا تھا۔ اس پر کہنا کہ شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سودہ کے یہاں تشریف لے گئے تو ان کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تمہارے خوف سے قریب تھا کہ میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات جلدی میں کہہ دیتی جبکہ آپ دروازے ہی پر تھے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر بو کیسی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے میں نے کہا اس شہد کی مکھیوں نے غرفط کا رس چوسا ہو گا اور صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جب آپ تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا۔ اس کے بعد جب حفصہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شہد میں پھر آپ کو پلاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ بیان کیا ہے کہ اس پر سودہ رضی اللہ عنہا بولیں۔ سبحان اللہ یہ ہم نے کیا کیا گویا شہد آپ پر حرام کر دیا، میں نے کہا چپ رہو۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6972 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6972  
حدیث حاشیہ:
کہیں آنحضرت سن نہ لیں یا ہماری یہ بات ظاہر نہ ہو جائے۔
مگر اللہ پاک نے قرآن مجید میں اس ساری بات چیت کا پردہ چاک کر دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ حیلہ سازی کرنا بہرحال جائز نہیں ہے کاش کتاب الحیل کے مصنفین اس حقیقت پر غور کر سکتے؟ ازواح النبی بلاشبہ امہات المؤمنین ہیں مگر عورت ذات تھیں جن میں کمزوریوں کا ہونا فطری بات ہے۔
غلطی کا ان کو احساس ہوا، یہی ان کی مغفرت کی دلیل ہے۔
اللہ ان سب پر ہماری طرف سے سلام اور اپنی رحمت نازل فرمائے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6972   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6972  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد کا شربت پیا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مل کر یہ پرو گرام بنایا تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4912)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ جن دو بیویوں نے آپس میں مشورہ کیا تھا وہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
اگر اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر شہد پیا ہوتا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو وہ مظاہرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کیسے شریک ہو سکتیں تھیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں۔
(فتح الباري: 430/12)

اس حدیث میں وضاحت نہیں ہے کہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا نازل ہوا تھا۔
چنانچہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت سورہ تحریم نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5267)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیلہ سازی قطعاً جائز نہیں خواہ یہ کام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین ہی کیوں نہ کریں بلا شبہ آپ امہات المومنین ہیں مگر عورت میں فطری کمزوریاں ہوتی ہیں نیز ان میں غیرت کا عنصر کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے اس کی تلافی کر دی۔
یہی ان کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حیلہ سازی کوئی اچھی چیز نہیں انسان کو اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6972   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5599  
´ باذق (انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب) کے بارے میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَالْعَسَلَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ: 5599]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5599 کا باب: «بَابُ الْبَاذَقِ، وَمَنْ نَهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ مِنَ الأَشْرِبَةِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «الباذق» کا ذکر فرمایا ہے، جس کے معنی انگور کے شیرے کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ہے، جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا باب سے مناسبت واضح ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق باب سے مشکل ہے کیونکہ باب میں «الباذق» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں حلوا اور شہد کے۔

غور کرنے سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، وہ اس جہت سے کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے کہ وہ حلوا ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ کو پسند فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ووجه إيراده فى هذا الباب أن الذى يحل من المطبوخ هو ما كان فى معنى الحلواء، والذي يجوز شربه من عصير العنب بغير طبخ هو ما كان فى معنى العسل، فانهم كانوا يمزجونه بالماء ويشربونه من ساعته. والله اعلم» [فتح الباري لابن حجر: 57/11]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پکانے سے وہی حلال ہو گا جو حلوہ کے معنی میں ہو اور وہ عصیر عنب سے جس کا شرب بغیر پکانے کے حلال ہے وہ شہد کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ اس سے پانی ملا کر اسی وقت (یعنی تازہ تازہ) پی لیا کرتے تھے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ہے کہ عصیر المطبوخ جبکہ اس میں نشہ نہ ہو، وہ حلال ہے۔ [ارشاد الساري: 500/9]
یعنی جس طرح حلوہ شہد میں ڈال کر پکایا جاتا ہے پانی کے ساتھ ملا کر جو کہ بڑا لذید اور پاکیزہ ہوتا ہے، بعین اسی طرح اگر انگور کا شیرہ پکایا جائے اور وہ حلوہ بن جائے (شراب کی صفات، اس میں نہ پائی جائیں جیسا کہ نشہ وغیرہ) تو وہ حلوہ حلال ہو گا، یعنی سکر بننے سے قبل اس کو حلوہ بنا کر کھانا درست ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مناسبت ہوگی۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 140   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 910  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میری بہن کے لخت جگر (بھانجے)! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کی باری کی تقسیم میں کسی کو کسی پر فوقیت و فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور کم ہی ایسا کوئی دن ہو گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے جاتے نہ ہوں اور ہر بیوی کے پاس جاتے ضرور مگر کسی کو چھوتے تک نہ تھے۔ پھر اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور رات اس کے پاس بسر فرماتے۔ احمد و ابوداؤد اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر ادا فرما کر اپنی ساری بیویوں کے ہاں تشریف لے جاتے پھر ان سے قرب بھی حاصل کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 910»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2135، وأحمد:6 /107، والحاكم:2 /186، وصححه، ووافقه الذهبي، وحديث عائشة: كان إذا صلي العصر....، أخرجه مسلم، الطلاق، حديث:1474، والبخاري، النكاح، حديث:5216.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنی ازواج مطہرات کی قیام گاہوں میں حالات معلوم کرنے کی غرض سے چکر ضرور لگاتے اور باہمی محبت و پیار کا اظہار کرتے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیوی کی قیام گاہ الگ ہونی چاہیے‘ اس سے پردہ داری رہتی ہے۔
3.کم عمر بچوں کو پیار سے بلانا بھی ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کو یَاابْنَ أُخْتِي کہہ کر بلایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 910   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3323  
´حلوا (مٹھائی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوا (شیرینی) اور شہد پسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3323]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حلواء اور حلویٰ سے بعض علماء نے انسان کی بنائی میٹھی چیز (مٹھائی)
اور بعض نے ہر میٹھی چیز مراد لی ہے پھل ہو یا دوسری چیز۔

(2)
پسند ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب پیش کی جاتی تو رغبت سےتناول فرماتے۔
یہ مطلب نہیں کہ اسے طلب فرماتے۔

(3)
شہد ایک قدرتی غذا ہے جو بے شمار فوائد کی حامل ہے۔
اور اس میں دوسری مٹھاس (چینی وغیرہ)
کےمضر اثرات نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3323   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3679  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز سے فارغ ہوتے تو تمام بیویوں کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب بیٹھتے۔ ایک دفعہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گئے اور عام معمول سے زیادہ ان کے پاس رک گئے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو مجھے بتایا گیا۔ ان کی قوم کی کسی عورت نے انہیں شہد کا ایک کپا ہدیہ کے طور پر دیا ہے۔ تو انہوں نے آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3679]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عَرْفَط:
ایک کانٹے دار درخت ہے،
جس کی گوند کو مغافیر کہتے ہیں یا یہ ایک بوٹی ہے،
جو کانٹےدار ہے اور زمین پر پھیل جاتی ہے،
اور اسے سفید پھل لگتا ہے۔
فوائد ومسائل:
عورتوں کے اندر چونکہ غیرت طبعی طور پرسوکن کے خلاف زیادہ ہوتی ہے۔
اس لیے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ خاوند کس سوکن کے ہاں ان سے زیادہ ٹھہرے۔
اسی طبعی تقاضا کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےتدبیر سوچی اور توریہ کے ذریعہ اس پر عمل کیا اور اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گوارا فرمایا:
اور کسی رد عمل کا اظہار نہ فرمایا،
اور شہد پینے کا واقعہ کس کے ہاں پیش آیا۔
صحیحین کی روایات کی روسے یہ دو بیویوں کے ہاں پیش آیا۔
حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا،
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ،
علامہ عینی اور امام کرمانی وغیرہم کے نزدیک پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد پیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد پینا چھوڑدیا لیکن حرام نہیں ٹھہرایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پیا۔
یہ سمجھ کر ضروری نہیں ہے۔
ہر شہد میں عرفط کے پھل یا گوند کی آمیزش ہو یا اس کی بو ہو کیونکہ اگر اس کی مقدار معمولی ہو تو اس کا اثر نمایاں ہو گا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پیا اور دوبارہ پہلے والی صورت حال پیش آئی۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا مدینہ کے ہر شہد میں عرفط کے پھل یا گوند کی بساند موجود ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرام ٹھہرالیا۔
اپنی حد تک کہ میں اس کو استعمال نہیں کروں گا۔
وگرنہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو مطلقاً حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا،
درست نہیں اور اس بنیاد پر مذکورہ تطبیق پر اعتراض نہیں ہو سکتا،
چونکہ حرمت کا باعث زینب والا واقعہ بنا ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایکا کیا تھا۔
اس لیے قرآن مجید میں ان دونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن قاضی عیاض امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا والے واقعہ کو ترجیح دی ہے اور اس کے لیے کچھ وجوہ ترجیح علماء نے بیان کی ہیں جن کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3679   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5216  
5216. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر سے فارغ ہوتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوتے۔ آپ ﷺ ایک روز سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لے گئے تو پہلے جتنا وقت ٹھہرا کرتے تھے اس سے زیادہ وقت ان کے پاس ٹھہرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5216]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی کئی بیویاں ہوں تو ہر ایک کی خیریت اور حال چال معلوم کرنے کے لئے جب چاہے جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5216   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5431  
5431. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5431]
حدیث حاشیہ:
اس نیت سے میٹھی چیز اور شہد کھانا بھی عین ثواب ہے۔
محبت نبوی کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز آپ نے پسند فرمائی ہم بھی اسے پسند کریں ایسے ہی لوگوں کا نام اہلحدیث ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5431   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5682  
5682. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کو میٹھی چیز اور شہد پسند تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5682]
حدیث حاشیہ:
شہد بڑی عمدہ غذا اور دوا بھی ہے باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ پسند آنا عام ہے شامل ہے دوا اور غذا دونوں کو۔
شہد بلغم نکالتا ہے اور اس کا شربت امراض باردہ میں بہت ہی مفید ہے۔
خالص شہد آنکھوں میں لگانا خصوصاً سوتے وقت بہت فائدہ مند ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5682   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5599  
5599. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ حلوا اور شہد پسند کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5599]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی ترجمہ باب سے مطابقت مشکل ہے۔
شاید مطلب یہ ہو کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے تو وہ حلوا ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حلوا کو پسند فرماتے تھے۔
(وحیدی)
مگر یہ شرط ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو وہ حرام ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5599   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5614  
5614. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کو شیرینی اور شہد دونوں چیزیں بہت مرغوب تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5614]
حدیث حاشیہ:
و فیه جواز أکل لذیذ الأطعمة و الطیبات من الرزق و إن ذالك لا ینافي الزھد و المراقبة لا سیما إن حصل اتفاقاً (فتح الباري)
یعنی اس حدیث میں جواز ہے لذیذ اور طیبات رزق کھانے کے لیے اور یہ زہد اور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے خاص کر جبکہ اتفاقی طور پر حاصل ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5614   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5216  
5216. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر سے فارغ ہوتے تو اپنی بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے کسی ایک کے قریب ہوتے۔ آپ ﷺ ایک روز سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لے گئے تو پہلے جتنا وقت ٹھہرا کرتے تھے اس سے زیادہ وقت ان کے پاس ٹھہرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5216]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب عصر کے بعد دوسری بیویوں کے پاس ٹھہرتے تو ان سے کسی کے ساتھ ہم بستر نہیں ہوتے تھے۔
(فتح الباري: 393/9)
کیونکہ باری مقرر کرنے کے بعد صحبت کا حق صرف اس بیوی کا ہے جس کی اس دن باری ہو۔
کسی ضرورت کے تحت دوسری بیوی کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہاں زیادہ دیر تک قیام نہ کرے۔
(2)
بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ باری کا تعلق صرف اوقاتِ شب کے لیے ہے، دن میں چونکہ دیگر مصروفیات ہوتی ہیں، اس لیے دن کے اوقات میں باری وغیرہ کا اہتمام ضروری نہیں۔
والله اعلم (عمدة القاري: 191/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5216   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5431  
5431. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ میٹھی چیز اور شہد پسند فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5431]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس نیت سے میٹھی چیز اور شہد استعمال کرنا عین ثواب ہے کہ یہ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر اس چیز کو پسند کیا جائے جسے آپ نے پسند فرمایا ہے۔
ثعلبی نے کہا ہے کہ جس میٹھی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے وہ کھجور اور دودھ سے ملا کر تیار کی جاتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چاہت کے مطابق جس میٹھی چیز کے چند لقمے تناول فرماتے تو حاضرین مجلس یہ خیال کرتے کہ آپ کو میٹھی چیز سے بہت محبت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہد کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
(2)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس میٹھی چیز کو پسند کرتے جو طبعی طور پر میٹھی ہوتی جیسے کھجور اور شہد وغیرہ لیکن یہ حدیث اس موقف کی تردید کرتی ہے کیونکہ اس میں شہد کے مقابلے میں میٹھی چیز پسند کرنے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 690/9)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5431   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5599  
5599. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ حلوا اور شہد پسند کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5599]
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ انگور کا شیرہ اگر اتنا پکایا جائے کہ حلوہ بن جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوے کو پسند کرتے تھے مگر یہ شرط اپنی جگہ پر ضروری ہے کہ اس میں نشہ پیدا نہ ہو، اگر اس میں نشہ پیدا ہو گیا تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اسی طرح کھجوروں کو عصیر (جوس)
بھی شہد کی طرح ہے۔
اس کا استعمال حلال ہے بشرطیکہ نشہ آور نہ ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5599   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5614  
5614. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ کو شیرینی اور شہد دونوں چیزیں بہت مرغوب تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5614]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ کو میٹھی چیز کی بہت خواہش تھی، اگر نہ ملتی تو بے چین ہو جاتے یا خصوصی طور پر اس کا اہتمام کراتے جیسا کہ مال دار لوگوں کا رویہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی میٹھی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی جاتی تو بڑے شوق سے اسے تناول فرماتے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لذیذ اور عمدہ چیز کا اہتمام کرنا معیوب امر نہیں ہے اور یہ زہد و تقویٰ کے منافی نہیں، خاص کر جب اتفاقیہ طور پر مل جائے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 101/10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد کھاتے بھی تھے اور پانی میں ملا کر بطور مشروب بھی استعمال کرتے تھے۔
انسان حسب ضرورت اور حسب خواہش اسے استعمال کر سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5614   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5682  
5682. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کو میٹھی چیز اور شہد پسند تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5682]
حدیث حاشیہ:
(1)
میٹھی چیز سے انسانوں کی بنائی ہوئی مٹھائی اور قدرتی میٹھی چیزیں دونوں مراد ہیں۔
پسند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیزیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی جاتیں تو رغبت اور شوق سے تناول فرماتے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس قسم کی میٹھی چیز خصوصی طور پر تیار کراتے تھے، پھر شہد ایک قدرتی ٹانک ہے جو غذا اور دوا دونوں کے لیے کارآمد ہے۔
اس میں خود ساختہ مٹھاس کے مضر اثرات نہیں ہوتے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے عنوان اس طرح ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا پسند ہونا عام ہے جو غذا اور دوا دونوں کو شامل ہے۔
علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو پھنسیاں نکل آئیں تو وہ ان پر شہد ملتے اور یہ آیت پڑھتے تھے جو عنوان میں درج ہے۔
(عمدة القاري: 672/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5682