حدیث حاشیہ: 1۔
متعہ کسی عورت سے مقرر مدت تک نکاح کر لینے کو کہا جاتا ہے۔
یہ نکاح زمانہ جاہلیت میں مروج تھا۔
غزوہ خیبر تک اس کا رواج رہا، پھر اس کی حرمت کا اعلان کر دیا گیا۔
اس کے بعد عام اوطاس میں صرف تین دن کے لیے رخصت دی گئی، پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر اسے حرام کر دیا گیا۔
اس کی تفصیل کتاب النکاح میں گزر چکی ہے لیکن بعض حضرات کے نزدیک نکاح متعہ فاسد ہے اور فساد کی اصلاح الغائے شرط کے ذریعے سے ممکن ہے لیکن باطل کی اصلاح الغائے شرط سے ممکن نہیں ہوتی، چنانچہ شرح وقایہ کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے کہ بیع تو شرائط فاسدہ سے باطل ہو جاتی ہے لیکن نکاح میں شرائط فاسدہ مؤثر نہیں ہوتیں، لہذا نکاح شغار اور نکاح موقت جائز ہے۔
2۔
واضح رہے کہ نکاح متعہ اور نکاح موقت میں اگرچہ فرق کیا جاتا ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے یہ دونوں ایک ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر دو اعتراض کیے ہیں۔
۔
ان کے نزدیک نکاح متعہ فاسد ہے باطل نہیں اور ان کے نزدیک فاسد کی اصلاح شرط ختم کر دینے سے ہو جاتی ہے، لہذا تحدید وقت کی شرط ختم کر کے نکاح متعہ جائز ہو سکتا ہے جسے شریعت نے ہمیشہ کے لیے منسوخ کیا ہے۔
۔
ان حضرات کے نزدیک متعہ جائز اور شرط لغو ہے جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام زفر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز اور شرط باطل ہے۔
(فتح الباري: 419/12) 3۔
واضح رہے کہ حسن بن زیاد کے ذریعے سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اگر نکاح موقت میں اتنی مدت معین کی ہو کہ عادت کے طور پر اتنی زندگی متوقع نہ ہو، مثلاً:
دو سو سال وغیرہ تو اس صورت میں نکاح صحیح ہو جاتا ہے
(لیکن راقم الحروف کو اس کا حوالہ نہیں مل سکا) بہرحال نکاح متعہ حرام اور باطل ہے اور قیامت تک کے لیے اسے حرام کر دیا گیا۔
روافض کے علاوہ کوئی دوسرا اس کے جواز کا قائل نہیں روافض کے نزدیک یہ نکاح بہت بابرکت ہے۔
(فلا بارك الله فيهم ولا عليهم)