Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحِيَلِ
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
4. بَابُ الْحِيلَةِ فِي النِّكَاحِ:
باب: نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6961
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابني محمد بن علي، عَنْ أَبِيهِمَا، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قِيلَ لَهُ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ" لَا يَرَى بِمُتْعَةِ النِّسَاءِ بَأْسًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ"، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنِ احْتَالَ حَتَّى تَمَتَّعَ فَالنِّكَاحُ فَاسِدٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: النِّكَاحُ جَائِزٌ وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے حسن اور عبداللہ بن محمد بن علی نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عورتوں کے متعہ میں کوئی حرج نہیں سمجھتے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی لڑائی کے موقع پر متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کر دیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے حیلہ سے متعہ کر لیا تو نکاح فاسد ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ نکاح جائز ہو جائے گا اور میعاد کی شرط باطل ہو جائے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6961 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6961  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ متعہ کے باب میں جو ممانعت آئی ہے وہ اس لفظ سے ہے کہ نہی عن المتعہ اور شغار کی بھی ممانعت اسی لفظ سے ہے پھر ایک عقد کو صحیح کہنا اور دوسرے کو باطل کہنا جیسا کہ بعض الناس نے اختیار کیا ہے کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔
حافظ نے کہا کہ دونوں میں حنفیہ یہ فرق کرتے ہیں کہ شغار اپنی اصل سے مشروع ہے لیکن اپنی صفت سے فاسد ہے اور متعہ اپنی اصل ہی سے غیرمشروع ہے۔
شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی بیٹی سے اس شرط پر نکاح کرے کہ اپنی بیٹی اس کو بیاہ دے گا۔
بس یہی ہر دو کا مہر ہے اور کوئی مہر نہ ہو۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کسی نے حیلہ سے نکاح شغار کر لیا تو نکاح کا عقد درست ہو جائے گا اور شرط لغو ہوگی ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہوگا اور ان ہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے متعہ میں یہ کہا ہے کہ وہی نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے وہاں یوں نہیں کہا کہ نکاح صحیح ہے اور شرط باطل اور مہر مثل لازم ہوگا۔
بہ ظاہر یہ ترجیح بلا مرجح ہے کیوں کہ متعہ اور شغار دونوں کی ممانعت یکساں حدیث سے ثابت ہے۔
بلکہ متعہ تو پہلے بعض حالات کی بنا پر حلال ہوا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا اب متعہ قیامت تک کے لیے قطعاً حرام ہے۔
شغار یہ ہے کہ بلامہر آپس میں عورتوں کا تبادلہ کرنا کسی کو بلا مہر بیٹی دینا اور اس کی بیٹی بھی بلامہر لینا اور اس تبادلہ ہی کو مہر جاننا کہ اگر وہ اس کی بیٹی کو چھوڑے گا تو وہ دوسرا بھی چھوڑ دے گا۔
اس کو شبہہ کا نکاح کہتے ہیں، یہ قطعاً حرام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6961   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6961  
حدیث حاشیہ:

متعہ کسی عورت سے مقرر مدت تک نکاح کر لینے کو کہا جاتا ہے۔
یہ نکاح زمانہ جاہلیت میں مروج تھا۔
غزوہ خیبر تک اس کا رواج رہا، پھر اس کی حرمت کا اعلان کر دیا گیا۔
اس کے بعد عام اوطاس میں صرف تین دن کے لیے رخصت دی گئی، پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر اسے حرام کر دیا گیا۔
اس کی تفصیل کتاب النکاح میں گزر چکی ہے لیکن بعض حضرات کے نزدیک نکاح متعہ فاسد ہے اور فساد کی اصلاح الغائے شرط کے ذریعے سے ممکن ہے لیکن باطل کی اصلاح الغائے شرط سے ممکن نہیں ہوتی، چنانچہ شرح وقایہ کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے کہ بیع تو شرائط فاسدہ سے باطل ہو جاتی ہے لیکن نکاح میں شرائط فاسدہ مؤثر نہیں ہوتیں، لہذا نکاح شغار اور نکاح موقت جائز ہے۔

واضح رہے کہ نکاح متعہ اور نکاح موقت میں اگرچہ فرق کیا جاتا ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے یہ دونوں ایک ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر دو اعتراض کیے ہیں۔
۔
ان کے نزدیک نکاح متعہ فاسد ہے باطل نہیں اور ان کے نزدیک فاسد کی اصلاح شرط ختم کر دینے سے ہو جاتی ہے، لہذا تحدید وقت کی شرط ختم کر کے نکاح متعہ جائز ہو سکتا ہے جسے شریعت نے ہمیشہ کے لیے منسوخ کیا ہے۔
۔
ان حضرات کے نزدیک متعہ جائز اور شرط لغو ہے جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام زفر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز اور شرط باطل ہے۔
(فتح الباري: 419/12)

واضح رہے کہ حسن بن زیاد کے ذریعے سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اگر نکاح موقت میں اتنی مدت معین کی ہو کہ عادت کے طور پر اتنی زندگی متوقع نہ ہو، مثلاً:
دو سو سال وغیرہ تو اس صورت میں نکاح صحیح ہو جاتا ہے (لیکن راقم الحروف کو اس کا حوالہ نہیں مل سکا)
بہرحال نکاح متعہ حرام اور باطل ہے اور قیامت تک کے لیے اسے حرام کر دیا گیا۔
روافض کے علاوہ کوئی دوسرا اس کے جواز کا قائل نہیں روافض کے نزدیک یہ نکاح بہت بابرکت ہے۔
(فلا بارك الله فيهم ولا عليهم)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6961