صحيح البخاري
كِتَاب الدِّيَاتِ
کتاب: دیتوں کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَنْ أَحْيَاهَا} :
باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا ”جس نے مرتے کو بچا لیا اس نے گویا سب لوگوں کی جان بچا لی“۔
حدیث نمبر: 6874
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ، فَلَيْسَ مِنَّا"، رَوَاهُ أَبُو مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6874 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6874
حدیث حاشیہ:
اگر مباح سمجھ کر اٹھاتا ہے تو کافر ہوگا اور جو مباح نہیں سمجھتا تو کافر نہیں ہوا مگر کافروں جیسا کام کیا اس لیے تغليظا فرمایا کہ وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ کافر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6874
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6874
حدیث حاشیہ:
(1)
ہتھیار اٹھانے سے مراد جنگ کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اہل ایمان کو خوفزدہ کرنا مقصود ہے۔
اگر کوئی ان کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو وہ اس وعید میں شامل نہیں ہے۔
(2)
اگر کوئی اپنے لیے جائز سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے تو وہ یقیناً دین اسلام سے خارج ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور جو اپنے لیے جائز نہیں سمجھتا وہ کافر تو نہیں ہوگا، البتہ کافروں جیسا کام اس نے ضرور کر ڈالا۔
(فتح الباري: 245/12) (3)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7071)
جب ہتھیار اٹھانا اس قدر سنگین جرم ہے تو مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی سنگینی تو اس سے بڑھ کر ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6874
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 607
´مسلمان کے خلاف ناحق اسلحہ اٹھانا حرام ہے`
«. . . 217- وبه: أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ”من حمل علينا السلاح فليس منا.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 607]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7070، ومسلم 98، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اہل ایمان کے خلاف جنگ کرنا کبیرہ گناہ ہے جس کی وجہ سے اہل حق کی جماعت سے حملہ آور خارج ہو جاتا ہے۔
➋ موطأ ابن القاسم والی یہ روایت محمد بن الحسن الشیبانی کی طرف منسوب الموطأ [ص370 ح866] میں بھی موجود ہے۔
➌ مسلمان کے خلاف ناحق اسلحہ اٹھانا حرام ہے۔
➍ لیس منا سے مراد «ليس علٰي طريقتنا» یعنی ہمارے طریقے پر نہیں ہے۔
➎ جو شخص تمام مسلمانوں کا قتل حلال سمجھتا ہو تو وہ کافر ہے۔
➏ بغیر شرعی عذر اور اجتہاد کے اگر کوئی شخص کسی مسلمان یا مسلمانوں کو قتل کرتا ہے تو یہ شخص فاسق، فاجر اور سخت گناہ گار ہے۔
➐ بطورِ مذاق بھی اسلحے کے ساتھ مسلمان کو ڈرانا حرام ہے۔
➑ اجتہادی اختلاف کی وجہ سے اہلِ ایمان کی آپس میں جنگ ہوسکتی ہے۔ دیکھئے: [سورة الحجرات: 9]
➒ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص کہتا ہے کہ آؤ نماز کی طرف تو میں قبول کرلیتا ہوں اور جو کہتا ہے کہ آؤ فلاح کی طرف تو میں مان لیتا ہوں لیکن جو شخص کہتا ہے: آؤ مسلم بھائی کو قتل کریں اور اس کا مال چھین لیں تو میں نہیں مانتا۔ [طبقات ابن سعد 1/169، 170، حلية الاولياء 1/309 وسنده صحيح]
➓ دین اسلام امن وسلامتی کا علمبردار ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 217
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1022
´باغی لوگوں سے جنگ و قتال کرنا`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس کسی نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1022»
تخریج: «أخرجه البخاري، الديات، باب قول الله تعالي: " ومن أحياها"، حديث:6874، ومسلم، الإيمان، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم من حمل علينا السلاح فليس منا، حديث:98.»
تشریح:
1. اسلام مسلمانوں کو باہمی اخوت‘ محبت اور بھائی چارے سے رہنے کا درس دیتا ہے، ایک دوسرے سے خیر خواہی اور ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے اور ایک دوسرے سے تعاون و تناصر کا سبق پڑھاتا ہے۔
2.اس حدیث کی رو سے مسلمان کا مسلمان کے خلاف اسلحہ استعمال کرنا اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو آدمی ہم پر ہتھیار اٹھائے اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
“ 3.مسلمان کا کام تو امداد باہمی ہے نہ کہ لڑائی کرنا۔
یہ معاملہ مسلمانوں کی باغی جماعت سے ہے۔
4. جو لوگ معاشرے کا امن و امان غارت کرنے کی سعی کریں‘ قرآن کی رو سے ان کے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے تاوقتیکہ وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تفِيٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ ”باغی گروہ سے اس وقت تک لڑوجب تک کہ وہ اپنی باغیانہ روش سے امر الٰہی کی طرف پلٹ نہ آئے۔
“ احادیث بھی بکثرت اس کی تائید میں ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1022
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4105
´جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4105]
اردو حاشہ:
”وہ ہم میں سے نہیں“ یعنی ظاہراً کیونکہ مسلمانوں کو قتل کرنا کافروں کا کام ہے، نیز اگر وہ علانیہ مسلمانوں کو قتل کرتا پھرتا ہے جیسے ڈاکو یا باغی تو وہ محاربین میں داخل ہے۔ البتہ اگر جذبات میں آ کر نادانستہ اس سے اسلحہ کے ساتھ قتل صادر ہو جائے تو وہ کافر نہ بنے گا بلکہ اس پر حالات کے مطابق قصاص یا دیت کا حکم لاگو ہو گا۔ سزا ملنے کے بعد معافی ممکن ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4105
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 280
حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:280]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مسلمانوں سے جنگ لڑنا اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھانا کافروں کا کام ہے،
تو جو مسلمان اس کام کو اپنے لیے روا اور جائز خیال کرتا ہے تووہ اپنے آپ کو یا مسلمانوں کو کافرسمجھتا ہے،
اس لیے وہ کافر ہوگا۔
لیکن اگر کوئی مسلمان کسی غلط فہمی یا بد فہمی کی بنا پر یا اجتہادی طور پر دین کا تقاضا سمجھتے ہوئے یہ کام کرتا ہے تو پھر وہ کافر نہیں ہوگا،
اور اگر غیر شعوری طور پر بلا سوچے سمجھے کسی دنیوی مفاد کی خاطر یہ حرکت کرتا ہے،
تو اس نے مسلمانوں والا رویہ اور طرز عمل اختیار نہیں کیا،
حالانکہ اس کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں والی سیرت اور کردار اختیار کرنا چاہیے تھا،
اس لیے وہ مجرم اور گناہ گار ہوگا،
کافر نہیں ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 280