صحيح البخاري
كِتَاب الدِّيَاتِ
کتاب: دیتوں کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَنْ أَحْيَاهَا} :
باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا ”جس نے مرتے کو بچا لیا اس نے گویا سب لوگوں کی جان بچا لی“۔
حدیث نمبر: 6869
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ"، رَوَاهُ أَبُو بَكْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے علی بن مدرک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے سنا، ان سے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے دن فرمایا ”لوگوں کو خاموش کرا دو , (پھر فرمایا) تم میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔“ اس حدیث کی روایت ابوبکر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6869 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6869
حدیث حاشیہ:
ناحق مسلمان کا خون کرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کو آنحضرتﷺ نے کفر سے تعبیر فرمایا مگر صد افسوس کہ قرن اول ہی سے دشمنان اسلام نے سازش کر کے مسلمانوں کو باہمی طور پر ایسا لڑایا کہ امت آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
فلیبکوا علی الإسلام من کان باکیا.
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6869
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6869
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق ایک مسلمان کا خون ناحق بہت ہی بڑا گناہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر سے تعبیر کیا ہے۔
کفر کی تاویل میں چند اقوال حسب زیل ہیں:
٭ ایک دوسرے کو مارنا اس وقت کفر ہے جب مسلمان کے قتل ناحق کو حلال سمجھا جائے۔
٭اس سے مراد کفران نعمت، یعنی حق اسلام کی ناشکری ہے۔
٭ایسا کرنے والا کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے اور یہ فعل کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
٭یہ فعل کافروں جیسا ہے، یعنی ایک دوسرے کی گردن مارنے میں کافروں سے تشبیہ دی ہے۔
٭اس سے مراد حقیقی کفر ہے، یعنی تم کفر نہ کرو بلکہ ہمیشہ مسلمان بن کر زندگی بسر کرو۔
٭ایک دوسرے کو کفر کی طرف منسوب نہ کرو بصورت دیگر ایک دوسرے کے قتل کو جائز سمجھو گے۔
٭ یہ اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں بلکہ اس سے مراد زجروتوبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ ہے۔
٭ تم ہتھیار پہننے والے نہ بن جاؤ کیونکہ ہتھیار پہننے والے کو بھی کافر کہا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 240/12) (2)
بہرحال قتل ناحق بہت بڑا جرم ہے لیکن افسوس کہ قرن اول ہی سے دشمنان اسلام نے سازش کر کے مسلمانوں کو آپس میں ایسا لڑایا کہ امت مسلمہ آج تک اس کی ٹیس محسوس کر رہی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6869
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 121
´عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے`
«. . . عَنْ جَرِيرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقَالَ: لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ . . .»
”. . . جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ: 121]
� تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کو حکم دیا کہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ 10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے، کافر بن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صد افسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہو گئے جو آج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق و انتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیر مقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر و توہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ «والي الله المشتكيٰ»
اقبال مرحوم نے سچ فرمایا:
«اگر تقلید بودے شیوہ خوب . . . پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے»
یعنی تقلید کا شیوہ اگر اچھا ہوتا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 121
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4405
4405. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”جریر! لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کفار کا طریقہ اختیار نہ کرنا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4405]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ میرے بعد پھر عہد جاہلیت جیسے کام نہ کرنے لگ جانا، آپس کا جھگڑا فساد قتل غارت یہ بھی عہد کفر کے کام ہیں۔
اب مسلمان ہونے کے بعد پھر جاہلیت کی تاریخ نہ دہرانے لگ جانا، مگر یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عہد نبوت کے بعد مسلمانوں میں خانہ جنگیوں کا ایک خطرنا ک سلسلہ شروع ہوگیا جو آج تک بھی جاری ہے۔
اہل اسلام نے ہدایت نبوی کو فراموش کردیا۔
إنا للہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4405
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7080
7080. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7080]
حدیث حاشیہ:
قرون خیر میں ان احادیث نبوی کو بھلا دیا گیا اور جو بھی خانہ جنگیاں ہوئی ہیں وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے بے حد افسوس ناک ہیں۔
آج چودھویں صدی کا خاتمہ ہے مگر ان باہمی خانہ جنگیوں کی یاد تازہ ہے بعد میں تقلیدی مذاہب نے بھی باہمی خانہ جنگی کو بہت طول دیا۔
یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو چار حصوں میں تقسیم کر لیا گیا اور ابھی تک یہ جھگڑے باقی ہیں۔
اللہ امت کو نیک سمجھ عطا کرے‘ آمین یا رب العالمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7080
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4137
´قتل کی حرمت کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں سے خاموش رہنے کو کہو“، پھر فرمایا: ”اس کے بعد جب میں تمہیں دیکھوں (قیامت کے روز) تو ایسا نہ پاؤں کہ تم کافر ہو جاؤ اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو۔“ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4137]
اردو حاشہ:
”میں تمہیں نہ پاؤں“ یعنی قیامت کے دن کیونکہ اس وقت سب رازکھل جائیں گے اور امت کے اعمال رسول اللہ ﷺ پر ظاہر ہو جائیں گے، یا جب تم مرنے کے بعد میرے پاس آؤ گے تو تمہاری یہ حالت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کلام ظاہراً تو اپنے آپ سے خطاب ہے مگر حقیقتاً مخاطب کو سمجھانا مقصود ہے کہ تمہاری یہ حالت نہیں ہونی چاہیے۔ و اللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4137
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3942
´(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: ”لوگوں کو خاموش کرو“ پھر فرمایا: ”تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3942]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ شخصیت کی بات سننے کے لیے خاموشی اختیار کرنا اور بات کرنے والوں کو خاموش کرانا احترام کا تقاضہ بھی ہے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کے لیے شرط بھی۔
(2)
مسلمانوں کو آپس کے اختلافات افہام و تفہیم سے طے کرنے چاہیئں اسلحہ کے زور پر نہیں۔
(3)
مسلمانوں کا باہمی اتفاق اللہ کا عظیم احسان ہے جیساکہ ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (آل عمران 3/ 103)
”تم پر اللہ کی جو نعمت ہوئی اسے یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی)
بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس میں گرنے سے بچالیا۔
(4)
مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں محبت پیدا کرنے والی چیزوں کو اختیار کریں مثلاً:
ایک دوسرے کو سلام کرنا، نماز باجماعت میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا اور صفیں سیدھی رکھنا وغیرہ۔
اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو اختلاف اور دشمنی پیدا کرنے والے ہیں مثلاً:
کسی کی بے عزتی کرنا، ظلم زیادتی گالی اور غیبت وغیرہ۔
(5)
قتل وغارت بہت بڑا جرم ہے جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3942
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:121
121. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے فرمایا: ”لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”اے لوگو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کے، پھر کافر نہ بن جانا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:121]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حصول علم کی صورت اورحفظ حدیث کے طریقے سے آگاہ فرماتے ہیں کہ جب استاد احادیث بیان کرے تو پوری توجہ اور انہماک سے سننا چاہیے تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ طلباء کے لیے اساتذہ کی توقیر و تعظیم انتہائی ضروری ہے۔
اسی طرح دیگر علماء کی باتیں بھی پورے اطمینان وسکون سے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنی جائیں کیونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء آپ کی سنتوں کے محافظ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے امین ہیں۔
اگرچہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کو خاموش کرانے کا ذکر ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکورہ واقعہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے، تاہم اس کا حکم عام ہے۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو لوگوں کی خاموشی کا انتظار کرنا چاہیے، اگرجلدی یاضروری کام ہو تو انھیں خاموش بھی کرایا جاسکتا ہے۔
بہرحال عوام الناس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء کی باتوں کو پوری توجہ سے سنیں اورانھیں یاد بھی رکھیں۔
اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب سننے والا توجہ سے سنے اور اسے سمجھے۔
اگر سنتے وقت بے پروائی سے کام لیا تو اسے یاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔
امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ علم کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
علم کے لیے پہلے توجہ، پھر خاموشی، اس کے بعد یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا، پھر اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔
(فتح الباري: 287/1)
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم پھر کافر مت ہوجانا، محدثین نے اس کے دومفہوم بیان کیے ہیں:
(الف)
۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مل جل کر بھائیوں کی طرح رہیں۔
اگر مسلمان باہم دست وگریباں ہوں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے تو گویا انھوں نے کافروں کا شعار اپنا لیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا کام ہے کہ وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔
اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہوگا بلکہ کبیرہ گناہ کے معنی میں ہوگا۔
(ج)
۔
ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم اپنی راہ تبدیل کرلو اور مرتد ہو کر ایک دوسرے کے قتل کو حلال سمجھنے لگو۔
اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنوں میں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے قتل کو اپنے لیے حلال سمجھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس کہ جن مسلمانوں کو اخوت وہمدردی کا سبق دیا گیا تھا، وہ آج افتراق و انتشار کا شکار ہیں اور آپس میں اس طرح لڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔
من از بیگانگاں ہر گز ننالم کہ بامن آنچہ کردآں آشنا کرد
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 121
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4405
4405. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”جریر! لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کفار کا طریقہ اختیار نہ کرنا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4405]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جریر ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے بہت پہلے مسلمان ہوچکے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل حجۃ الوداع ہواتھا اور یہ کہنا کہ حضرت جریر ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے صرف چالیس دن پہلے مسلمان ہوئے محض وہم اور خیال ہے کیونکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع کیا تھا۔
2۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اس میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 135/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4405
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7080
7080. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ”لوگوں کو خاموش کراؤ۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7080]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مقصد یہ تھا کہ آپس میں لڑنا جھگڑنا اور جنگ وقتال کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں، یہ کافروں کا طریقہ ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سے کلی طور پر پرہیز کریں، لیکن مسلمانوں نے بہت جلد اس پیغام کو بھلا دیا۔
قرون اولیٰ میں جو بھی خانہ جنگی ہوئی ہے اور مسلمانوں کا ناحق خون بہا ہے، وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے، حالانکہ فتنے کے دور میں گوشہ نشینی میں عافیت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ موقف اختیار کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آئندہ دور میں فتنے رونما ہوں گے ان میں بیٹھ رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہترہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔
ایسے حالات میں اگر کسی کے پاس اونٹ ہیں تو ان کی دیکھ بھال میں لگ جائے اور اگر کسی کے پاس بکریاں ہیں تو ان کے باڑے میں پناہ گزیں ہو جائے۔
اگرکسی کے پاس زمین ہے تو وہاں چلا جائے۔
“ ایک آدمی نے کہا:
اگر کسی کے پاس اونٹ، بکریاں اور زمین نہ ہوتو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ اپنی تلوار پتھر پر مار کرخراب کر لے، پھر ایسے فتنوں سے خود کو محفوظ کرے۔
“ ایک شخص نے کہا:
اگر مجھے مجبور کر کے کسی صف یا کسی جماعت کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے اور مجھے کوئی تلوار یا تیر سے قتل کر دے تو؟ آپ نے فرمایا:
”اس نے تیرا اور اپنا گناہ سمیٹ لیا اور وہ جہنم رسید ہوا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7250(288)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7080