صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِ الْمُحَدِّثِ حَدَّثَنَا أَوْ أَخْبَرَنَا وَأَنْبَأَنَا:
باب: محدث کا لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے۔
وَقَالَ لَنَا الْحُمَيْدِيُّ كَانَ عِنْدَ ابْنِ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا وَأَخْبَرَنَا وَأَنْبَأَنَا وَسَمِعْتُ وَاحِدًا. وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ. وَقَالَ شَقِيقٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً. وَقَالَ حُذَيْفَةُ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ. وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ. وَقَالَ أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ.
جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ «حدثنا» اور «اخبرنا» اور «انبانا» اور «سمعت» ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی یوں ہی کہا «حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم» درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔ اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے اور انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q61 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q61
� تشریح:
حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ محدثین کی نقل در نقل کی اصطلاح میں الفاظ «حدثنا واخبرنا وانبانا» کا استعمال ان کا خود ایجاد کردہ نہیں ہے۔ بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین کے پاک زمانوں میں بھی نقل در نقل کے لیے ان ہی لفظوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ حضرت امام یہاں ان چھ روایات کو بغیر سند کے لائے ہیں۔ دوسرے مقامات پر ان کی اسناد موجود ہیں۔ اسناد کا علم دین میں بہت ہی بڑا درجہ ہے۔ محدثین کرام نے سچ فرمایا ہے کہ «الاسناد من الدين ولولا الاسناد لقال من شاءماشاء» یعنی اسناد بھی دین ہی میں داخل ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتی تو جس کے دل میں جو کچھ آتا وہ کہہ ڈالتا۔ مگر علم اسناد نے صحت نقل کے لیے حد بندی کر دی ہے اور یہی محدثین کرام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ علم الاسناد کے ماہر ہوتے ہیں اور رجال کے مالہ وماعلیہ پر ان کی پوری نظر ہوتی ہے اسی لیے کذب و افتراءان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 61